نواز شریف کی آنکھوں سے جھلکتا درد


شمالی کوریا اور جنوبی کوریا آبنائے کوریا کے ساتھ واقع دو ریاستیں ہیں۔ 1948ء تک یہ دونوں ریاستیں جاپان کے قبضہ میں تھیں۔ پھر اگست 1948ء کو جنوبی کوریا نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ جس کے چند دنوں بعد شمالی کوریا بھی آزاد ریاست بن گئی۔ 1950ء میں یہاں خانہ جنگی چھڑ گئی اور ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ یہ جنگ تین سال تک جاری رہی۔ شمالی کوریا کو روس اور چین جبکہ جنوبی کوریا کو امریکہ نے سپورٹ کیا۔

تین سال بعد جب جنگ کا خاتمہ ہوا، تو جنوبی کوریا میں جمہوریت اور سرمایہ درانہ نظام معیشت نے جھنڈے گاڑ لیے۔ جنوبی کوریا پسماندہ اور جنگ کی وجہ سے غربت میں پسا ہوا ملک تھا۔ جب یہاں جمہوریت آئی، تو سب سے پہلے سول اداروں کو مضبوط بنایا گیا اور ملٹری کو بارڈر پر سرحدوں کی حفاظت تک محدود کر دیا گیا۔ جس سے ملک کو فائدہ ہوا اور آج جنوبی کوریا کا شمار دنیا کی بہترین معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔

ادارے اپنے اپنے دائروں میں کام کر رہے ہیں۔ اور سیاسی نظام عوم کی مرضی سے چل رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف جنگ کے بعد شمالی کوریا پر آمریت نے ڈیرے ڈال لیے۔ عوام سے ہر قسم کی آزادی کو چھین لیا گیا۔ سارے ادارے ملٹری کے زیر اثر ہیں۔ لوگوں اپنی مرضی سے بال بھی نہیں بنوا سکتے۔ اور دنیا کا کوئی شخص شمالی کوریا میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ وہاں کی عوام دوسروں ممالک میں نہیں جا سکتی۔ ان کے گرد ہر وقت خفیہ اداروں کے اہلکار گھومتے رہتے ہیں۔

ادارے ممکل تباہ ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں صحت اور تعلیم کی صورتحال ابتر ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا ایک علاقہ میں واقع ہیں۔ ایک ساتھ آزاد ہوئے ہیں۔ اور ایک ساتھ ہی اقوام متحدہ کے رکن ملک بنے ہیں۔ لیکن دونوں کے نظام اور معیشت میں فرق ہے۔ جس کی ایک ہی وجہ ہے، ادارے۔ اگر کسی ملک کے ادارے آزاد ہوں۔ اور اپنے اپنے دائرے میں کام کریں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ ورنہ ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔ رابرٹ موگابے زمبابوے کے صدر تھے۔

انھوں نے زمبابوے پر چالیس سال تک حکمرانی کی ہے۔ ان کا انتقال ستمبر 2019ء میں ہوا ہے۔ ان کا شمار افریقی ممالک میں سب سے زیادہ عرصہ صدر رہنے والوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے دور میں زمبابوے دیوالیہ ہوگیا۔ یہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضہ تک واپس نہ کر سکا۔ جس سے اس کی تجارت مائنس میں چلی گئی۔ ملک تباہ ہوگیا۔ لیکن صدر امیر بن گئے۔ یہ ملک میں ہونے والی پرائز بانڈ تک جیت جاتا تھا۔ جس کی وجہ اداروں پر کنٹرول تھا۔

اس کے دور میں کوئی ادارہ آزاد نہیں تھا۔ ادارے ہر کام صدر کی اجازت کے بعد کرتے تھے۔ جس کا نقصان یہ ہوا زمبابوے دنیا کے غریب ترین ممالک کی لسٹ میں چلا گیا۔ آپ دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک کی لسٹ بنا لیں۔ اور ان میں فرق تلاش کرنا شروع کردیں۔ آپ کو واضح ہو جائے گا۔ جو ممالک ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں ادارے آزاد اور خودمختار ہیں۔ جبکہ پسماندہ ترین ممالک کے ادارے نہ آزاد ہوں گے اور نہ ہی خودمختار۔ وہاں کرپشن، لوٹ کھسوٹ کی بھرمار ہو گی۔

پاکستان کے ادارے شروع سے جانبدار اور حکومتی اثرورسوخ کے زیر سایہ رہے ہیں۔ یہاں زیادہ آمریت جبکہ کم عرصہ جمہوریت رہی ہے۔ جمہوری دور میں بھی بدقستمی سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار رہا ہے۔ بلکہ ہر آنے والی حکومت ملٹری کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ اور خود ہی ملٹری کے لئے خلاء پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ نواز شریف کی تقریر نے ملک میں سیاسی ہلچل کو تیز کر دیا ہے۔ نواز شریف کا شروع سے وتیرہ رہا ہے۔

وہ اپنے مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسے جب بھی موقع ملتا ہے۔ یہ اداروں پر چڑھ ڈورتا ہے۔ یہ عدالت کی عمارت سے ملکی جھنڈا تک اتروا دیتا ہے۔ پھر یہ اسی عدالت کی سلامتی اور استحکام کے لئے آواز بھی بلند کرتا ہے۔ اور اس کا ساتھ بھی دیتا ہے۔ یہ پہلے دور میں صدر اسحق خان سے الجھا، پھر دوسرے دور حکومت میں مشرف سے اختلافات نے اس کی راہ روک دی اور یہ غدار ٹھہرا۔ لیکن یہ اس نظام کے خلاف لڑتا رہا۔ کیونکہ اکتوبر 1999ء میں جو زخم مشرف نے نواز شریف کو لگایا تھا۔

اس کا درد اور اس کا دکھ آج بھی نواز شریف کی آنکھیں سے جھلکتا ہے۔ جب تیسری بار اسے موقعہ ملا تو اس نے پوری کوشش کی کہ ملکی اداروں کے اثرورسوخ کو سیاست سے ختم کر دیا جائے، لیکن اسی چھیڑ چھاڑ نے اسے تاحیات نا اہل کر دیا۔ نواز شریف جہاں تک سیاست میں ملکی اداروں کے کردار اور اثرورسوخ کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بالکل درست ہے۔ لیکن نواز شریف کا طریقہ غلط ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ہدف محض جوش اور تقریر سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے لئے مسلسل ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاسی باہمی مشاورت کے ساتھ ساتھ حکومت اور اپوزیشن کے مثبت رویے اور کارکردگی سے کیا جاسکتا ہے۔ نفرتیں پیدا کرکے نہیں۔ نواز شریف کے بیانیے سے ہمیشہ مخالف فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور انڈیا کو پاکستانی آرمی کے خلاف میڈیا وار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ملک واپس آ جائیں کیونکہ یہ ملک کے اندر کا مسئلہ ہے۔ برطانیہ یا بھارت کا نہیں۔

اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں کہ ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ تو اس کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن نہیں، کیونکہ ہمیشہ سے نون لیگ کے دو بیانیے رہے ہیں۔ ایک بھائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تو دوسرا اس کے مخالف بیان بازی کرتا ہے۔ نون لیگ کو چاہیے پہلے پارٹی کی سطح پر تو مشترکہ بیانیہ بنا لیں۔ پھر جا کے نواز شریف اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جماعتیں بھی اس معاملے پر سنجیدہ ہوں۔ وہ دروازے کے پیچھے سے ملٹری کی سپورٹ حاصل کرنے کی بجائے، جمہوری عمل کو موثر بنائیں۔ تاکہ ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ اپنی حدود میں کام کرے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).