اسرائیل کا گھمنڈ توڑ ڈالا: سبحان اللہ


ایک جانب محرم کا آغاز ہوتے ہی اندازہ ہوا کہ اب کی بار باقاعدہ تیاری کی گئی ہے کہ فقہی منافرت کو ہوا دی جائے۔ دونوں معروف فریقین کی جانب سے چن چن کے چند منٹ یا سیکنڈز کے ایسے مواد کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کیے گئے جن سے ایک کم علم اور سادہ سنی یا شیعہ مسلم کی دل آزاری ہو۔

عقل حیران، دل پریشان، حدیث اور تاریخ سے واقف دونوں جانب کے مسلمان آیت الکرسی کے ورد سے اس فساد فی الارض کی فضا کے ٹل جانے کی دعا کر ہی رہے تھے کہ خبر ملی۔۔۔ برادر ملک ہمارے رہبر ساتھی ریاست متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی رشتہ ہموار کر لیا۔

چلیں مان لیا کہ یہ ان کے خطے میں امن و امان کے لئے لیا گیا قدم ہے۔ وہ جانیں ان کے پڑوسی۔۔۔ مگر ذرا ٹھہریئے۔۔۔ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اب ہمارا کیا ہو گا؟ اور ہمارا تو چھوڑئیے۔۔۔ ان مولوی صاحبان کا کیا ہو گا جو ہر جمعے کو اسرائیل کی توپوں میں کیڑے پڑ جانے اور اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کی رقت آمیز دعا کرواتے تھے۔ جو زار زار روتے تھے کہ ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں، ان کے معصوم بچوں کو جنگی قیدی بنا لیا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پہ بمباری سے اجڑے گھروں کے ملبے سے غبار سے اٹے معصوم نونہالوں کے خون آلودہ بے جان جسموں کی تصاویر دیکھ کے کس ذی ہوش کا دل نہیں کٹ کٹ جاتا تھا۔

مگر اب تو خادم الحرمین شریفین اور ان کے حواریوں نے دوستی کا ہاتھ ملا لیا تو مسلمانوں بالعموم ایک مشترکہ اچنبھے کا شکار ہیں۔

کافر، کافر۔۔۔ فلاں کافر۔۔۔
ھاں۔ تو ہے لیکن یہ اسرائیلی وفد سعودیہ آیا ہے؟
ارے۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔ یہ بدبخت توہین کا مرتکب ہوا۔۔۔
جی۔ جی۔ مگر یہ بھی دیکھیں۔ شاھی محل میں ضیافت و ملاقات ہوئی ہے۔
یہ کلپ دیکھا؟ یہ زندیق ہے! ایف آئی آر کاٹو۔
حضور یہ۔ یہ تو تین سال کا معصوم بچہ ہے۔
تو کیا ہوا؟ چھ ماہ کے فلسطینی بچے پہ ترس کھایا کبھی؟
اس پہ یاد آیا، اعلی حضرت وہ تو گلے بھی مل لئے اور کہہ دیا کہ اب سے دوست ہیں۔

اماں۔۔۔ تم وہاں کی چھوڑو۔۔۔ یہاں کی فکر کرو۔ اسلام خطرے میں ہے، ہمیں دین کو ان بدعتیوں سے بچانا ہے۔

بجا حضور!

اس کار خیر سے نمٹنے کے بعد اب مرحلہ درپیش ہے کہ کیونکر جمعے کے خطبے کی رونق بحال کی جاوے؟ وہ گلوگیر دعائیں۔۔۔ وہ مظالم کی جگر خراش منظر کشی۔۔۔ وہ بامعنی، ردیف و قافیے میں ڈھلی باوزن گالیاں۔۔۔ وہ سائنسی، سیاسی اور جسمانی طور پہ ناممکن کوسنے۔۔۔ سب رائیگاں! اس پہ سال ہا سال سے ان کی عادی عوام بھی کچھ بدظن کچھ حیراں!

◦ میں اسی غور و فکر میں غلطاں و پیچاں تھی کہ کوۂ ندا سے گویا اک صدا آئی۔

ائے ناداں بے فکر ہو جا! اسی جمعے سے خطبے شروع ہو جائیں گے کہ اسرائیل کا گھمنڈ خاک میں ملا دیا گیا! فلسطینی بھائیوں کی مالی، معاشی اور سیاسی امداد کے لئے اسرائیل کو ڈرا دھمکا کے مسلم ممالک سے دوستی کرنے پہ راضی کر لیا گیا۔ اب انشا اللہ صاحب جادے جیادا چوں چرا نہیں کر سکیں گا۔ ( با انداز مئی دادا ) اور جب صاحب حرم نے مصافحہ و معانقہ کر لیا تو ہم گناہ گار کس کھیت کی مولی؟ ہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ ان کی اندھی پیروی کریں۔ جیسے اج تک کرتے بھی ائے ہیں۔

تو دوستو۔۔۔ قرین ہے کہ جلد ہمارے بھی سفارتی تعلقات بحال ہوں۔ انشاللہ العزیز ہم سب کو قبلۂ اول کی زیارت نصیب ہو۔ یوں بھی ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔۔۔ اور ہمارے پاؤں کیا سر بھی ان کی امداد کے بنا ننگے ہیں۔ تو بھئی خدا لگتی تو یہی ہے کہ اب اسرائیل مخالفت مواد کا باب یہیں ختم ہوتا ہے اور مفاہمت کی اصلیت و اہمیت و افادیت جیسے موضوعات کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ رہی جبلی نفرت کے تسکین کی بات تو ذرا یہ اس فلانے علامہ کا کلپ دیکھنا۔۔۔ گستاخ گستاخ۔۔۔ واجب القتل۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).