فوج اور سیاست: اونٹ پہاڑ کے نیچے


اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی دوٹوک اور بیباک تقریر سے پاکستانی سیاست میں جھٹکوں کی امید تو کی جارہی تھی۔ وزیروں کے رد عمل اور ملک دشمنی کے طعنوں سے حکومت کی بدحواسی کا اظہار بھی ہورہا تھا لیکن یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں تھا کہ اس تقریر سے ایسا بھونچال برپا ہوگا کہ خود پاک فوج کے ترجمان کو ’حقائق ‘ بتانے کے لئے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو دینا پڑے گا۔ اور بتانا پڑے گا کہ کس طرح مسلم لیگ (ن) کا ایک اہم لیڈر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے دو بار ملاقات کرکے نواز شریف اور مریم نواز کے لئے سہولت مانگ چکا ہے۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے اس حوالے سے ایک بار نہیں بلکہ دو بار ملاقات کی اور دونوں بار محمد زبیر نے جو اتفاق سے خود بھی ایک فوجی جنرل کے صاحبزادے اور وفاقی وزیر اسد عمر کے بھائی ہیں، پاک فوج کی قیادت سے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے مقدمات کے حوالے سے گفتگو کی۔ پاک فوج کے ترجمان نے صرف بالواسطہ طور سے ملاقات کا حوالہ نہیں دیا بلکہ یہ بھی صراحت سے بتایا ہے کہ ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے میں ہوئی اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی۔ دونوں مواقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے محمد زبیر کو بتایا کہ قانونی معاملات عدالتوں میں طے ہوں گے جبکہ سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل کئے جائیں گے۔

دو روز تک سرکاری ذرائع اور شیخ رشید کے ذریعے گزشتہ بدھ کو اپوزیشن لیڈروں اور وزیروں کے ساتھ پاک فوج کی قیادت کے ’بڑے کھانے‘ یا ملاقات کا احوال اور اس کی تفصیلات عام کرنے کے بعد اب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کو خود میدان میں اتر کر میاں نواز شریف کی تقریر کا زہر نکالنا پڑا ہے۔ یہ صورت حال اس سے پہلے پاکستان میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس لئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف نے سیاست اور فوج کے تعلق کے حوالے سے اتوار کو لندن سے براہ راست ویڈیو لنک کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے جو باتیں کیں ، ان کی تپش بہت دور تک محسوس کی جارہی ہے ۔ اس شدت کو کم کرنے کے لئے اب ’انکشافات‘ سے آگ بجھانے کا کام لیا جارہاہے۔

نواز شریف کی تقریر میں یوں تو ایسی کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان معاملات کا ذکر کسی نہ کسی طور سے پاکستانی سیاست میں کافی عرصہ سے ہوتا رہا ہے۔ براہ راست نہیں تو اشاروں کنایوں میں کبھی محکمہ زراعت اور کبھی خلائی مخلوق کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ گلہ شکوہ ہوتا رہا ہے کہ فوجی ادارے اپنی مرضی کے لوگوں کو انتخابات میں جتوانے کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جو جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ ویسے پاکستانی فوج نے سیاست سے کبھی بھی مکمل عدم دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ اس کے باقاعدہ اظہار کا سلسلہ جنرل ایوب خان کے کمانڈر انچیف کے طور پر وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالنے سے ہؤا تھا اور پھر ایوب خان کے بعد یحیٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاؤں سے ہوتا ہؤا، میمو گیٹ اور ڈان لیکس کا سفر کرتا ، پاناما لیکس کی منزل تک پہنچا تھا۔ جب فوجی انٹیلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر جے آئی ٹی کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف ہؤا کہ جلاوطنی کے دوران نواز شریف نے اپنے بیٹے کی ملکیت میں ایک کمپنی میں ملازمت کے نام پر متحدہ عرب امارات کا اقامتی ویزا حاصل کیا تھا۔ اسی لئے نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مسلم لیگ (ن) اقامہ کی بنیاد پر کیا گیا ایسا غیر منصفانہ فیصلہ سمجھتی ہے جسے ایک مقبول اور منتخب لیڈر کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔

فوجی ترجمان نے ’خفیہ‘ ملاقاتوں کا جو حوالہ دیا ہے، ان میں سوائے اس کے کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ملاقاتوں کی تاریخوں کے علاوہ ان افراد کا صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جو ان میں شریک تھے ۔ اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ فوجی ترجمان نے اس کا ’انکشاف‘ کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اور یہ واضح کیاہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے ان ملاقاتوں میں بھی وہی بات کی تھی جو وہ عام طور سے کرتے ہیں یعنی پاک فوج آئین کی پابند ہے۔ وہ ملک میں جمہوری انتظام کی حامی ہے اور منتخب حکومت کی تابعدار ہے۔ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اور فوج پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام درست نہیں۔ یوں تو فوجی ترجمان اس نصابی بیان سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہے؟ لیکن اس بیان سے یہ بات ضرور واضح ہوگئی ہے کہ فوجی قیادت کے دروازے اور بازو ہمیشہ اپوزیشن لیڈروں کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ یہ 2014 کے دھرنے کے دوران بھی کھلے تھے جب جنرل راحیل شریف نے ایک منتخب حکومت کو ’بچانے‘ کے لئے عمران خان اور علامہ طاہر القادری سے ملاقاتیں کی تھیں تاکہ وہ ملک میں انتشار اور بدامنی پیدا نہ کریں۔ اسی مقصد سے موجودہ آرمی چیف کی سربراہی میں آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ فیض حمید نے 2017 میں تحریک لبیک کا دھرنا ختم کروانے کے لئے حکومت کے ساتھ معاہدے میں ’ضامن‘ کا کردار ادا کیا اور دھرنے کے شرکا کو گھر بھیجنے کے لئے نقد ’سفر خرچ ‘ ادا کیا۔

عسکری حلقوں اور سیاسی لیڈروں و پارٹیوں کے تعلقات اور روابط پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح نواز شریف کو ویسے ہی فوج کے پسندیدہ لیڈر کی حیثیت حاصل تھی اور مستقبل کی امید سمجھا جاتا تھا جیسے اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف کو سمجھا جارہا ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف نے سیاست اور فوج کے تعلق، حکومت سازی میں عسکری اداروں کے کردار اور ریاست میں بالائے ریاست عنصر کا حوالہ دے کر صرف فوج ہی نہیں خود کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔

20 ستمبر کی تقریر البتہ دو حوالوں سے مختلف اور اہم ہے: اول) سیاست میں فوج کے کردار کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ خود بھی اس غیر جمہوری انتظام کا حصہ رہے ہیں۔ اب یہ معاملہ ان کے اور ان کے ووٹروں کے درمیان ہے کہ وہ نواز شریف کو اس کی کیا سزا دینا چاہتے ہیں یا کس انعام سے سرفراز کرتے ہیں۔ دوئم) نواز شریف نے کم از کم اس تقریر کے لمحہ میں ان عوامل کو مسترد کیا ہے جو ملک میں جمہوری استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ اسے یہ اعلان بھی سمجھا جانا چاہئے کہ نواز شریف ماضی کی غلطیوں سے تائب ہوکر آئیندہ حقیقی جمہوری نظام کے لئے کام کرنے کا عہد کررہے ہیں۔ نواز شریف کے ماضی کے حوالے سے سوال اٹھتے بھی رہیں گے اور انہیں ان کا جواب بھی دینا پڑے گا۔

فوج اور سیاست کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرکے نواز شریف نے آئینی جمہوری طریقہ کو ملکی مسائل کا واحد حل قرار دیا ہے۔ سیاست پر فوج کے اثر و رسوخ کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے تاحیات قائد کی باتیں یوں بھی اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ خود تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور اس کھیل کا حصہ اور کل پرزہ رہے ہیں جس کے ذریعے جمہوریت کو غیر جمہوری طریقوں سے داغدار کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرحلہ پر انہوں نے اپنی سیاسی جد و جہد میں عمران خان یا حکومت کو مد مقابل قرار نہیں دیا بلکہ ان عناصر کو للکارا ہے جو ملک میں انتخابی نتائج سے قطع نظر حکومتیں مسلط کرنے کا کام کرتے ہیں۔ فوج کے ترجمان جب ’صلح صفائی‘ کے لئے نواز شریف کے نمائیندے کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کا حال بیان کرتے ہیں تو یہ درحقیقت فوج کی طرف سے نواز شریف کے چیلنج کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ یعنی بالواسطہ طور سے تسلیم کیا جارہا ہے کہ ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی اگرچہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بڑھی ہے لیکن اس کی ذمہ دار ی فوج پر عائد ہورہی ہے۔ اس لڑائی میں اب فوج نےبراہ راست نواز شریف کو بے اعتبار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فوجی ترجمان نے نواز شریف کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔

فوج کے لئے اب یہ اہم نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہے اور ان کا خاندان باقی زندگی جیلوں میں گزارتا ہے یا جلاوطنی میں بسر کرتا ہے بلکہ اس سوال کا جواب فراہم کرنا چاہئے کہ ان الزامات کو ماننے کے بعد کیا فوج بطور ادارہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے پر آمادہ ہے۔ یا سیاسی لیڈروں کے خلاف الزام تراشی کی ایک نئی مہم کے ذریعے نئے سیاسی عزائم اور ہتھکنڈوں کا اظہار ہورہا ہے۔ اس پس منظر میں میجر جنرل بابر افتخار نے آرمی چیف کے ساتھ محمد زبیر کی ملاقاتوں کا جو حوالہ دیا ہے، اس میں یہ بتانا کافی نہیں ہے کہ یہ کب ہوئیں اور کس نے کیا کہا۔ بلکہ یہ بتانا ضروری ہے کہ آرمی چیف نے ایک بار نہیں دو بار کیوں ایک درمیانے درجے کے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ملاقات ضروری سمجھی۔ جب ایک ملاقات میں واضح ہوگیا تھا کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کے لئے ’ریلیف‘ کی بات کرنا چاہتے ہیں تو دوسری بار کیوں ملاقات کی گئی؟ کیا اس سے نواز شریف کا ایہ الزام ثابت نہیں ہوتا کہ فوج ملکی سیاست میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

الزام تراشی کی اس مہم میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نواز شریف کا بیانیہ اس وقت تیزی سے ملکی عوام کے دل کی آواز بنتا جارہا ہے۔ لوگ حکومت کی نااہلی سے تنگ آکر فوج کے اس ’چوائس‘ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ فوج جتنی جلد یہ سمجھ لے، اس کے لئے بہتر ہوگا کہ قوم اب اپنے لیڈر چننے کا حق واپس مانگ رہی ہے۔ جس قدر جلد اس سچائی کو تسلیم کرلیا جائے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ سابقہ انتظام سے نئے سیاسی انتظام کی طرف بڑھنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ بہتر ہوگا کہ مزاحمت کی بجائے حکومت، ادارے اور اپوزیشن مل کر سیاسی انتظام کی اس منتقلی میں تعاون کریں۔ اس طرح شاید آئینے میں پڑتی دراڑ کو روکا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali