زوم، فیس بک اور یوٹیوب کی جانب سے فلسطینی ہائی جیکر لیلیٰ خالد پر پابندی لگانے پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل


لیلیٰ خالد، فلسطین، اسرائیل، برطانیہ، امریکہ

لیلیٰ خالد 2015 میں فلپائن کے شہر منیلا میں خواتین کے ایک فورم سے خطاب کر رہی ہیں

آزادی اظہار کے حق سے بظاہر دنیا کا ہر شخص، ہر حکومت اور ہر ادارہ متفق نظر آتے ہیں اور دنیا کی متعدد ریاستوں کے آئین میں یہ حق یقینی بنایا گیا ہے۔ تاہم اکثر اوقات یہ حق متنازع بھی بن جاتا ہے اور مختلف اداروں اور حکومتوں کی جانب سے کچھ اشخاص اور تنظیموں کی آرا کو عوام تک نہ پہنچنے دینے کے لیے بھی کوششیں کی جاتی ہیں۔

حال ہی میں ایسا ہی کچھ امریکہ میں ہوا ہے جہاں سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کردہ ایک زوم ویڈیو ٹاک کو زوم کی جانب سے منسوخ کر دیا گیا کیونکہ اس میں فلسطینی کارکن لیلیٰ خالد بطور مقرر مدعو تھیں۔

لیلیٰ خالد کون ہیں؟

لیلیٰ خالد پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف پیلسٹائن (محاذ برائے آزادی فلسطین) کی رکن تھیں۔

چھ ستمبر 1970 کو اس فرنٹ کے عسکریت پسندوں نے چار مسافر طیاروں کو اغوا کیا اور جرمنی، سوئٹزر لینڈ اور اسرائیل میں زیر حراست اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

فلسطینی خاتون ہائی جیکر جس کی رہائی کے بدلے درجنوں یرغمالیوں کی زندگی بچی

TWA85: تاریخ کی ایک طویل اور سنسنی خیز ہائی جیکنگ

وہ جنگ جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا

چوتھے طیارے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ ایک ہائی جیکر اس دوران ہلاک ہوا جبکہ خاتون ہائی جیکر لیلیٰ خالد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ہائی جیکنگ کی ناکام کوشش کے فوراً بعد اس مسافر طیارے کو قریب ترین لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کی جانب موڑ دیا گیا جہاں لیلیٰ خالد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

لیلیٰ خالد کی گرفتاری کے بعد فلسطین لبریشن فرنٹ نے لیلیٰ خالد کے ساتھ ساتھ چند دیگر عسکریت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور مطالبات پورے کروانے کی غرض سے چند روز بعد ہی بمبئی سے بیروت جانے والے ایک مسافر طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا۔

عسکریت پسندوں نے اس طیارے پر سوار تین سو سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ مسافروں میں 65 برطانوی شہری بھی شامل تھے۔ انھیں بالآخر حکومتِ برطانیہ نے رہا کر دیا تھا تاکہ یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آ سکے۔

لیلیٰ خالد کو یونیورسٹی نے کیوں مدعو کیا تھا؟

لیلیٰ خالد، فلسطین، اسرائیل، برطانیہ، امریکہ

لیلیٰ خالد کو سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں جس مباحثے کے لیے مدعو کیا گیا تھا اس کا عنوان ’کس کا بیانیہ؟ صنف، انصاف اور مزاحمت‘ تھا۔

اس گفتگو میں ان کے ساتھ دیگر شرکا میں لارا وائٹ ہارن بھی مدعو تھیں جو سنہ 1983 میں امریکی سینیٹ پر بم حملوں میں ملوث ہونے پر 14 برس کی جیل کاٹ چکی ہیں۔

اس کے علاوہ سیکو اوڈینگا بھی مدعو کیے گئے افراد میں شامل تھے جنھیں امریکہ میں بلیک لبریشن آرمی کی اپنی رکنیت سے منسلک الزامات کی وجہ سے کئی دہائیوں تک قید میں رکھا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف حلقوں بشمول اسرائیل سے منسلک گروہوں کی جانب سے اعتراض اس گفتگو میں صرف لیلیٰ خالد کی موجودگی کے خلاف اٹھایا جا رہا ہے۔

دی ورج نامی اشاعتی ادارے کو دیے گئے ایک بیان میں زوم کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے یہ ویبینار منسوخ کیا ہے۔

ترجمان کے مطابق ’چونکہ یہ مقرر بظاہر امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں اور یونیورسٹی نے اس کے برخلاف کوئی تصدیق نہیں کی ہے، اس لیے ہمارا فیصلہ ہے کہ یہ زوم کے استعمال کی شرائط و ضوابط کے خلاف ہے اور ہم نے یونیورسٹی کو بتا دیا ہے کہ وہ اس ایونٹ کے لیے زوم استعمال نہیں کر سکتے۔‘

اس کے بعد یوٹیوب نے بھی اپنی ویب سائٹ پر موجود اس ایونٹ کی لائیو سٹریم کو شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہی ہٹا دیا تھا اور اب یہ ویڈیو وہاں موجود نہیں ہے۔

فیس بک نے بھی اس گفتگو کے لیے بنائے گئے ایونٹ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے۔

یونیورسٹی کا کیا مؤقف ہے؟

یونیورسٹی کی صدر لِن مہونی نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’یونیورسٹی یہود دشمنی، اسلاموفوبیا، سیاہ فاموں کے خلاف تعصب، نسل پرستی اور لوگوں کو دیوار سے لگانے والے دیگر نفرت انگیز نظریات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے طلبا اور اساتذہ کو متضاد اور یہاں تک کہ قابلِ اعتراض نظریات کا اظہار کرنے کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ پیچیدہ مسائل ہیں مگر یونیورسٹیاں ایسی جگہیں ہونی چاہییں جہاں پیچیدگیوں پر بحث ہو اور ان پر سوالات اٹھائے جا سکیں۔‘

لیلیٰ خالد، فلسطین، اسرائیل، برطانیہ، امریکہ

لیلیٰ خالد کو آج بھی فلسطینی علاقوں میں ایک آئیکون کی حیثیت حاصل ہے

انھوں نے مزید لکھا کہ ’جو معلومات وہ اکٹھی کر سکے ہیں اس کی بنا پر یونیورسٹی کو یہ نہیں لگتا کہ مذکورہ بحث، قانون یا زوم کے استعمال کی شرائط و ضوابط کے خلاف تھی۔‘ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’زوم کی جانب سے یہ ایونٹ منسوخ کیا جانا ہماری کمیونٹی میں سے کچھ لوگوں کے لیے بہت صدمے کا باعث ہوگا جنھیں ایک مرتبہ پھر محسوس ہو گا کہ انھیں اور ان کے اختلاف کو دبا دیا گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر بحث

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے لیلیٰ خالد کے مباحثے کو ہٹائے جانے پر دنیا بھر سے سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سامنے آیا ہے۔

میڈیا تجزیہ کار ایڈم جانسن نے لکھا کہ ’فیس بک، گوگل اور زوم سب نے مل کر پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف پیلیسٹائن کو انٹرنیٹ استعمال کرنے سے روک دیا اور اس کے لیے جواز 50 سال پہلے کیے گئے تشدد کو بنایا گیا، مجھے یقین ہے کہ وہ صرف فلسطینیوں کے کیے گئے تشدد پر نہیں بلکہ تمام واقعات پر یہ معیار برابر طور پر عائد کریں گے۔‘

https://twitter.com/adamjohnsonNYC/status/1309126364205850627

انھوں نے مزید لکھا کہ فیس بک کے مطابق اس نے ’یہ مواد ہماری پالیسی کے خلاف ورزی پر ہٹایا گیا جس کے تحت خطرناک تنظیموں اور افراد کی تعریف، حمایت یا نمائندگی پر پابندی ہے‘ جبکہ اسرائیلی اور امریکی افواج کے نہ صرف فیس بک پیج ہیں بلکہ وہ ان کی تشہیر کے لیے کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتی ہیں۔

صارف ہوان نادا نے لکھا کہ ’اسی لیے اسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بے وقوفی کہیں گے کہ انھوں نے اپنا ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر بنانے کے بجائے اپنا انحصار نجی کمپنیوں پر رکھا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی لیکچر ہال کو کرائے پر لیا جائے اور جگہ کے مالک کے پاس نصاب کو تبدیل کرنے اور اس کی منظوری دینے کا اختیار ہو‘۔

https://twitter.com/ChefGuevara_/status/1309127817951674373

ایک صارف سائن او کونر نے ان کمپنیوں کی طرفداری کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے نزدیک ان کمپنیوں کے پاس قانونی طور پر زیادہ راستے نہیں ہیں، کیونکہ ایسے معاملات میں پابندی کے قوانین بہت سختی سے نافذ کیے جاتے ہیں اور جرمانے بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ کمپنیوں کو اس بات کی پرواہ نہیں مگر مسئلہ امریکہ کے مالیاتی پابندیوں کے قوانین کا ہے۔

https://twitter.com/cian_oconnor/status/1309128645349453826

صحافی اور تجزیہ کار رعنیہ خالق نے لکھا کہ ’اسرائیلی قبضے‘ کے حامی اتنے کمزور دل ہیں کہ انھوں نے اس پینل کی ویڈیو ہی یوٹیوب سے ہٹوا دی جس میں لیلیٰ خالد شامل تھیں۔ انھوں نے لکھا کہ یہ ’کتنا افسوسناک ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے جو ان کے نکتہ نظر کے برخلاف نظریہ رکھتے ہیں۔‘

https://twitter.com/RaniaKhalek/status/1308871209438896128

تاہم اس کے ساتھ ہی کئی امریکی و اسرائیلی تنظیمیں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اس اقدام کی حمایت کرتی نظر آئیں۔

’اے وائڈر برج‘ نامی تنظیم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں تاہم اس بات پر نہیں کہ ’دہشتگردوں‘ کو ‘نفرت’ پھیلانے کے لیے مواقعے فراہم کیے جائیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’دہشتگرد‘ لیلیٰ خالد کو بولنے کا حق ہے مگر سوشل پلیٹ فارمز کے پاس ان کی ’نفرت‘ کو بلاک کرنے کا بھی حق ہے۔

https://twitter.com/AWiderBridge/status/1309225441916588034


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp