انصار عباسی نے لڑکی دیکھ کر حق بیان کیا


انصار عباسی نے پی ٹی وی پر ایک لڑکی کو ورزش کرتے دیکھ کر وزیراعظم عمران خان، چیئرمین سی پیک جنرل ر عاصم سلیم باجوہ اور شبلی فراز کو متوجہ کیا اور بتایا کہ یہ پی ٹی وی ہے۔ گو ہماری نوجوانی میں یہ رویہ عام تھا کہ کسی جگہ کوئی قابل توجہ حسینہ دکھائی دیتی تھی تو لڑکے اپنے دوستوں کو بھی متوجہ کیا کرتے تھے کہ وہ محروم نہ رہ جائیں، مگر ہماری رائے میں اب عمر کے جس حصے میں انصار عباسی صاحب ہیں، ان کے متوجہ کرنے کا مقصد محض دوسروں کو فحاشی سے روکنا ہی ہو گا۔

ہم پورا پروگرام تو نہیں دیکھ سکے جو غالباً عباسی صاحب نے اپنا ولولہ انگیز تبصرہ کرنے کے لیے بغور دیکھا ہو گا، مگر جو دیکھا وہ واقعی قابل اعتراض ہے۔ یعنی ایک جوان عمر خاتون، بلکہ خاتون کیا لڑکی کہیے، پاجامہ اور فل بازو والی ٹی شرٹ پہنے ٹی وی پر ورزش کر رہی ہے۔ کیا اسے مشرقی اقدار کا ذرا خیال نہیں؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ مشرقی خواتین کبھی اس قسم کی مغربی ورزش نہیں کرتیں؟ اگر وہ یہ چونچلے کرنے کی بجائے وہ بی بی اپنے گھر کا جھاڑو پوچا کرے، کپڑے دھوئے اور کھانا پکائے تو کیا اس سے بہتر ورزش نہیں ہو جائے گی؟ اور پیسہ الگ بچے گا۔ بہرحال بعض تیز بین صحافی اس میں بھی فحاشی تلاش کر کے اعتراض کر سکتے ہیں کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلنا نہیں چاہیے اس لیے ایسے مناظر بھی ٹی وی پر بین ہونے چاہئیں۔ ان کی مزید تسلی کے لیے باورچی خانے کی کنڈی اندر سے بند کر کے اور تمام روزنوں میں جھاڑن پھنسا اور شٹل کاک برقعہ زیب تن کر کے آٹا گوندھا جا سکتا ہے اور ٹی وی پر محض دروازہ دکھایا جا سکتا ہے جس کی زنجیر ہل رہی ہو۔ یا پھر ایسے ہیرو کے ہاتھ میں بیس روپے پکڑا کر اسے تنور سے روٹیاں لانے بھیجا جا سکتا ہے۔ یوں نہ آٹا گندھے گا نہ فحاشی ہو گی۔

بہرحال یہ تو متبادل تجاویز ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی نے ایک لڑکی کیوں دکھائی جس نے پاجامہ اور ٹی شرٹ پہن رکھے تھے۔ یہ ہماری اقدار کے خلاف ہے۔ کیا ٹی وی والے نہیں جانتے کہ اس سے ذہن میں کتنے برے برے خیالات آتے ہیں اور انسان بہک کر کیا کیا سوچتا ہے؟

برے خیالات سے یاد آیا، ابھی دو چار برس پیشتر حضرت اوریا مقبول جان نے ایک ایسی ہی پاجامہ اور ٹی شرٹ پہنی کرکٹر لڑکی دیکھ کر خوب احتجاج کیا تھا۔ اس میں انہوں نے اہم نسوانی اعضائے رئیسہ کی نشاندہی کی تھی جو اس لڑکی کی ویڈیو کو سپر سلو موشن میں چلا کر بغور دیکھنے سے ایک ڈیڑھ سیکنڈ تک صاف نظر آتے تھے۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس اشتہار کو دکھانے پر پی ٹی وی کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا اور حضرت اوریا کو اس باریک بینی پر کیا انعام دیا گیا؟

اب آپ سوچیں کہ اگر بیس تیس سیکنڈ کے اشتہار میں بھی اتنی زیادہ فحاشی موجود ہے تو لڑکیوں کے کرکٹ کے قومی مقابلوں، اور کئی کئی دن تک جاری رہنے والے کھیلوں کے دیگر مقابلوں میں کس قدر فحاشی ہوتی ہو گی؟ کیا وقت نہیں آ گیا کہ لڑکیوں کے ایسے تمام کھیلوں پر پابندی عائد کر دی جائے جن میں ان کا بدن ہلنے کا موہوم سا بھی امکان دکھائی دے؟

ٹی وی پر تو بہت بے حیائی ہو چکی ہے۔ کہاں جنرل ضیا کا سنہری دور ہوا کرتا تھا جس میں پاکستانی نیوز کاسٹرز تک نے دوپٹے اور چادریں اوڑھے ہوتے تھے اور مشرقی انداز میں نہایت ادب تہذیب کے ساتھ اعلان کرتی تھیں کہ ناظرین، اب ہم آپ کو لیے چلتے ہیں ماسکو، جہاں اولمپک گیمز میں نازیہ کمانچی اور ہمنوا چھبیلی لچکیلی عفیفائیں آپ کو جمناسٹک کے کرتب دکھا کر حیرت میں مبتلا کر دیں گی اور آپ ان سے لمحہ بھر نظر نہیں ہٹا سکیں گے۔ اور کہاں یہ وقت آ گیا ہے کہ لڑکیاں کرکٹ کھیلتی اور ورزش کرتی دکھائی جانے لگی ہیں۔ ویسے نازیہ کمانچی تھی کمال ہی۔

اور پیراکی کے مقابلے دیکھ کر تو حضرت اوریا، جناب انصار عباسی اور راقم الحروف انگشت بدنداں رہ جاتے تھے کہ اتنی زیادہ فحاشی کیسے ممکن ہے۔ پھر ہر روز کئی کئی گھنٹے تک مسلسل اولمپک کی نشریات دیکھ کر یقین آتا تھا کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے چونکہ جنرل ضیا کا پی ٹی وی جھوٹ تو نہیں دکھا سکتا۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اولمپک دکھانے پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ نیز ٹینس، ٹیبل ٹینس، کرکٹ، فٹ بال اور ہر ایسا کھیل جس میں کوئی لڑکی ہو، ٹی وی سے بالخصوص اور وطن پاک سے بالعموم ختم کر دیا جائے۔

لیکن ایک مولوی صاحب یہ بھی بتا رہے تھے کہ خواتین بھی جنسی جذبات رکھتی ہیں۔ اس معاملے کو بھی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیونکہ ہم اپنی پچاس فیصد آبادی کو یوں کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لیے ایسے تمام کھیل بھی ممنوع قرار دیے جائیں جو مرد نیکر اور ٹی شرٹ وغیرہ پہن کر کھیلتے ہیں۔ ہاکی، فٹ بال، ٹینس اور ٹیبل ٹینس تو ہیں ہی برے لیکن خصوصاً باڈی بلڈنگ، کشتی اور کبڈی جیسے کھیل جن میں نیکر اور شرٹ بھی نہیں پہنی جاتی، ہر حال میں بند کیے جائیں۔ اس قسم کی فحاشی دکھا کر ہم قوم کو کس طرح لے جانا چاہتے ہیں؟ خواتین تو خیر بہکیں گی ہی، لیکن مغرب کے اثرات کے باعث ایسے مردانہ کھیل دیکھ کر کہیں مرد بھی راہ راست سے نہ بھٹک جائیں۔

یہ ایک بری نظر ہی تو مرد کا بیڑہ غرق کرتی ہے، خواہ پاجامہ اور شرٹ پہنے ورزش کرتی نازک سی لڑکی پر پڑے یا چڈی پہنے گرانڈیل پہلوان پر۔ پھر وہ مجبور اور مظلوم سی شکل نکال کر کہتا ہے کہ وکٹم نے لباس ہی ایسا پہنا ہوا تھا کہ شیطان نے مجھ پر غلبہ پا لیا تھا اور مجھ سے ایسا کام کروا دیا۔

نیز ہم سفارش کرتے ہیں کہ انصار عباسی کے ادارے کے ٹی وی چینل پر بھی خواتین دکھانے پر پابندی عائد کی جائے اور دفاتر میں خواتین کے کام کرنے پر بھی، بجائے اس کے کہ وہاں بھی جناب انصار عباسی یہ نشاندہی کریں کہ یہ لڑکیاں ہلتی کیوں ہیں، خاص طور پر سانس لیتے وقت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar