پختون، پشتون، پشتین اور گٹکا


امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر کی تحریک کے آغاز کے بعد سے ہی سماجی روابط کے ذرائع اور ٹی وی پر فنکاروں، سماجی کارکنان، محققین، دانشور اور مشہور و معروف کاروباری کمپنیوں نے ایسا مواد تخلیق کرنے کا عمل شروع کیا جس سے امریکہ میں پائے جانے والے منظم تشدد اور تعصب کی سرکوبی میں عوام کو آگہی دی جاسکے۔ منظم تشدد اور تعصب بالخصوص سیاہ فام نسل کے خلاف تو پایا جاتا ہی ہے مگر چین سے اٹھنے والے کرونا وائرس نے مشرقی بعید کے ایشیائی امریکیوں کے لئے بھی نسلی تعصب کی فضا قائم کر دی۔

باقی لاطینی امریکیوں، مقامی امریکیوں، ایل جی بی ٹی اور مسلمانوں کے خلاف حد بندیاں تو اپنی مثال آپ ہی تھیں۔ مگر بلیک لائیوز میٹر تحریک نے ذرائع ابلاغ میں سب نسلوں، عقائد اور رنگوں کو یک جگہ کچھ ایسے اکٹھا کیا ہے کہ تعصب اور تفریق پر دلیرانہ سوالات ہو رہے ہیں جن میں امریکہ کے سفید فام لبرل، خواتین اور نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ اب ایک اشتہار پر نظر ڈالتے ہیں کہ معاشرے اور ریاست میں پائے جانے والے رویہ ختم کرنے کے لئے وہ کیسا مواد مرتب کر رہے ہیں اور تخلیقی مواد تخلیق کرنے والوں کی سوچ اور دانش کا زاویہ کیا ہے۔

ایک سیاہ فام ماں اپنی بیٹی کو سولہویں سالگرہ پر گاڑی اور ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ممکن بنانا تحفہ کرتی ہے مگر فکر مند دکھائی دیتی ہے کہ کسی دن پولیس نے روک لیا تو زندہ گھر آ پائے گی یا نہیں۔ بیٹی اور ماں کچھ کہے بنا نظام کی اکائیوں میں پیوست نسلی تعصب کی کلی کھول کر رکھ دیتی ہیں۔ ایک سیاہ فام باپ اپنے نوجوان موسیقار بیٹے کے لئے ہلکان ہوا جاتا ہے کہ کہیں پولیس اس کو سیاہ فام ہونے کے باعث مجرم نہ ثابت کر دے یا جان سے مار دے۔

بارہ سالہ سیاہ فام بچی کی ماں روزانہ صبح اسکول سے پہلے سبق پڑھاتی ہے کہ وہ کسی سفید فام لڑکی سے کم دل کش اور خوبصورت نہیں، وہ ذہین ہے اور عقل مند بھی ہے۔ ایشیائی باشندوں کے خلاف کرونا وائرس کے پیش نظر تعصب اور منافرت پھیلنے لگی تو ٹی وی اور سماجی روابط پر کرونا کے ساتھ نفرت دھلاؤ کی مہم شروع ہو گئی۔ ہر قوم اور نسل کے لوگوں نے ہاتھ دھوتے ہوئے ویڈیوز بنائی کہ نفرت بھی دھو لو۔

اسی طرح سنجیدہ تخلیقی مواد جو دلوں کو چھو لینے والا ہے، جس کے پیغام کی گہرائی دنیا میں کہیں بھی بیٹھا کوئی بھی شخص محسوس کر سکتا ہے۔ یہ مواد کسی رنگ اور عقیدے کی توہین کرتا ہے نہ تذلیل۔ کسی کو کمتر ثابت کرتا ہے نہ خود کو اعلی۔ معاشروں میں امن اور ہم آہنگی سے رہنا انہی انسان دوست رویوں پر مبنی ہوا کرتا ہے۔

سنجیدہ اشتہارات کے علاوہ، طنز و مزاح پر مبنی بھی اب اشتہار سامنے آرہے ہیں جو ان سفید فام مرد و زن کو نشانہ بناتے ہیں جو بنا کسی خطرے کے نائن ون ون پر کل کر کے ایسی جھوٹی کہانی بتاتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام، لاطینی و ایشیائی فرد سے ان کی جان کو براہ راست خطرہ ہو۔ ایسے مردوں کو گریگ اور خواتین کو کیرن کا نام دیا جاتا ہے جن کی ایک جھوٹی کال سے کسی سیاہ فام کی جان جا سکتی ہے جو امریکہ میں حالیہ نسل پرستی اور تشدد کی اہم وجہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔

اب ذرا ہم ایک عدد پاکستانی چٹکلے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ غالباً یہ بھی نسلی یا لسانی ”تفریق“ کے خلاف ”آگہی“ مہم کا حصہ ہے۔ ایک مہاجر لڑکی اپنے ممکنہ منگیتر سے ملنے ہوٹل میں موجود ہے۔ لڑکی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لڑکے کو جھٹ سے انکار کرتی ہے کہ بھئی میں نے شادی نہیں کرنی۔ اعتماد تو ایسا ہی ہونا چاہیے اور لڑکے کا ردعمل بھی خاصا مہذب تھا۔ ہمیں ابھی تک کوئی بھی اعتراض نہیں تھا۔ پھر خاتون کہتی ہیں کہ اسے اس لئے شادی نہیں کرنی کیونکہ وہ پٹھان ہے۔

لڑکا حیرانی کی مدھم سی شرمندگی چھپاتے ہوئے سانس بھرتا ہے۔ خاتون کہتی ہیں کہ تم پٹھان ہو اور تم لوگ ہمہ وقت شکوے کرتے رہتے ہو، انتہا پسند ہو وغیرہ وغیرہ۔ حضرت بھی آگے سے پختون اور پشتوں میں تفریق کی لکیر کھینچتے ہوئے پریشان پائے جاتے ہیں۔ لڑکا جان چکا ہے کہ اس کو ایک اردو بولنے والی مہاجر لڑکی کی سوچ کے سٹیریو ٹائپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لڑکا بھی آگے سے مہاجروں سے منسوب دقیانوسی چھاپ کا سوال اٹھا دیتا ہے۔ لڑکی اچانک سے اپنی دقیانوسی سوچ تلف بھی کر دیتی ہے اور سب اچھا ہوجاتا ہے۔

ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے یہاں ایک دوسرے کی شناخت کو لے کر کوئی منافرت نہیں پائی جاتی۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم سندھیوں، بلوچوں، پختونوں، پنجابیوں سے کوئی والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ہم ہی ہیں جو ایک دوسرے کی ثقافت کا مذاق بناتے ہیں۔ کسی کو غاروں ولا کہتے ہیں تو کسی کو اس کی مقامی شناخت کی بدولت کالا، اجڈ اور پینڈو اور نا جانے کیا نہیں کہتے۔ پختونوں بارے تو توہین آمیز لطائف ہی کافی ہیں یہ بتانے کو کہ کیسی یکجہتی اور ایک دوسرے کی ثقافت اور لوگوں کے لئے جذبات رکھے جاتے ہیں۔

آگہی کا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ ایک نکتہ سنوارنے کے لئے روش وہی دقیانوسی اور جہالت آمیز ہو۔ کسی کی عزت تشکیل کرنے میں کسی کی حرمت پامال کرنا کہیں کی روشن خیالی یا باہمی یگانگت کا ثبوت نہیں دیتی۔ بھلا بتائیے، گٹکا کھانے والا مہاجر کیا عزت کے قابل نہیں ہوتا؟ گٹکا نشہ آور ہے، بالکل ہے تو کیا اس ملک میں نشہ آور چیز صرف گٹکا ہی ہے؟ یا گٹکا کراچی اور حیدر آباد کی مہاجر آبادیوں میں ہی دستیاب رہتا ہے؟ ہماری عزت کا مستحق ہر شخص ہونا چاہیے۔ ایک گٹکا کھانے والا بھی اور ادب تخلیقی کرنے والا بھی۔ ہماری عزت کا حقدار ایک پشتون بھی ہے اور ریاست کا سوتیلا پشتین بھی۔ مہاجروں کو گٹکے سے مستعار لینے والے نے مہاجر کو گٹکے تک ہی رکھا ہے۔

اس ملک میں پختونوں کے خلاف ہتک کی وجہ پشتین نہیں ہے۔ یہ سلسلہ تب سے ہے جب شاید منظور پشتین تھا نہ محسن داوڑ۔ کیا بچپن میں جب آپ پٹھان کہہ کہہ کر پختونوں پر لطائف پڑھتے، سناتے اور فارورڈ کرتے تھے کیا تب کوئی پشتین تھا؟ تب بھی لڑکیاں کہتی تھیں کہ انہوں نے ”پٹھان“ سے شادی نہیں کرنی۔ یا آپ ایسا منفی رویہ داغنے کی جستجو میں ہیں کہ لڑکیاں ”پٹھانوں“ سے شادی اس لئے نہیں کرنا چاہ رہی کہ وہ مزاحمتی سیاسی تحریک چلا رہے ہیں؟

آپ مذاق کر رہے ہیں؟ جانے دیجئے، بس بھی کیجئے۔ کیا بنگالیوں میں بھی پشتین تھا جب عام بنگالی اپنے پر بننے والے لطیفے مغربی پاکستان آ کر سنا کرتے تھے؟ کیا آپ ان کی مچھلی کا مذاق نہیں بناتے تھے؟ کیا آپ ان کو صرف مچھیرا نہیں کہتے تھے؟ کسی سیاسی نظریہ کی بنیاد پر کوئی کسی سے شادی کرنے سے انکار نہیں کرتا ورنہ اس ملک کے تقریباً سارے مرد بنا شادی کے ہی رہ جائیں جس طرح ان کی عورتوں کے حقوق کے متعلق منفی سوچ پائی جاتی ہے۔ ارے اس طرح تو تعصب، تشدد، مزاحمت کی بات اس ملک کی عورتیں پنہاں اور عیاں ہر وقت کرتی رہتی ہیں، کیا آپ ہماری جان اس وجہ سے چھوڑ رہے ہیں؟

میں آپ کو بتلاتی ہوں پختون اور پشتون میں کیا فرق ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو جی یہ پٹھان لفظ استعمال کرنا ترک کریں، پختونوں، پشتونوں، پشتینوں کے لئے یہ نسلی توہین کے سوا کچھ نہیں (لفظ پٹھان مغربی برصغیر میں ویسے ہی ان پشتون افراد کے لیے بولا جاتا ہے جیسے ڈوئچ قوم کے افراد کو انگریزی بولنے والے علاقوں میں جرمن، اور فرانسیسی، ترک اور عرب علاقوں میں المانوی کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے نزدیک ضلع ٹانک کے قریب ایک جگہ کا نام پٹھان کوٹ ہے۔ جیسے جرمن اور المانوی توہین آمیز نہیں ہے، ویسے ہی پٹھان بھی توہین آمیز لفظ نہیں ہے۔ یہ وضاحت وزیرستان کے صاحب علم پشتون صحافی شیریار محسود کو دکھا کر لگائی گئی ہے: مدیر)۔ بازاروں، دکانوں پر کام کرنے والے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ان کے اصل نام سے پکارا کریں ناکہ سب کو پٹھان پٹھان کہا جائے۔ پختون صوبہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کا پشتو لب و لہجہ تھوڑا بھاری یا ترش ہوتا ہے، وہ ش کی جگہ خ کی آواز میں الفاظ کی ادائیگی کرتے ہیں۔

پشتون خ کی بجائے ش کا استعمال کرتے ہیں جو اکثر قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بس اتنا سا فرق ہے پختون میں اور پشتون میں۔ اب کہنے والے اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بربادی اور سیاسی تباہ کاریاں بڑے پیمانے پر کی گئی ہیں تو پشتون برے ہوئے کیونکہ مزاحمتی اصوات تو وہیں سے بلند ہوتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی وسطی پنجاب والوں اور شمالی پنجاب یا پوٹھوہار کے باسیوں کی زبان اور لب و لہجے کے فرق کی بنیاد پر سیاسی تفریق کی ہے؟ نہیں نا تو یہاں بھی نہایت حقیر اور ناقص مواد سے سیاسی جدوجہد کرنے والے پختونوں /پشتونوں کی ریاستی جبر کے خلاف کوششوں کو سلب نہ کریں۔

جیسے اس ملک میں جھوٹے روڈ شو کرنے والے عورت مارچ میں گھس کر صحافت کی آڑ میں مائیک لے کر بدتمیزیوں اور عورت نفرت کا ارتکاب کرتے ہیں، ویسے ہی اب پشتو لب و لہجے کے مقامی تبدل کو سیاسی طور پر تعصب اور ناقص پراپیگنڈا کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر آپ کو آپ کی لسانی و صوبائی شناخت کی بدولت جگہ جگہ ناکوں پر روک کر تفتیش نہیں کی جاتی یا بمع خاندان آپ کے رکشے کو کینٹ چوکی پر کھڑا نہیں رکھا جاتا تو آپ سے التماس ہے گرا ہوا مواد تخلیق کرنے کے علاوہ بہتر مواد تخلیق کریں جس میں نہ کسی گٹکا کھانے والے غریب مہاجر کی توہین ہو اور نہ حق مانگنے والوں کی۔ خدا ہمارے وطن کو تفریق اور غیر انسانی رویوں کی مزید بود و باش سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).