ایک کورونا جو ہمارے اندر ہے



انسانوں کے اس سمندر میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو انسانیت کے مقام تک پہنچتے ہیں۔ اور انسانیت کی معراج تک پہنچنے کے لئے کسی تعلیم کسی ٹرینگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے۔ اس کی قدر کرنی چائیے۔ میں اپنے ایک کرم فرما کی کہانی اسی کی زبانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی طرف سے اور پوری قوم کی طرف سے ان عظیم لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو کورونا کی اس وبا کے سامنے ایسے وقت کھڑے ہوئے جب اس کا علاج صرف موت تصور ہوتا تھا۔

یقین کریں یہ کہانی پڑھ کے مجھے پاک بھارت کی وہ جنگ یاد آ گئی جب وطن پر جان قربان کرنے والے بہادر سپوت وہ عظیم ماؤں کے عظیم بیٹے یاد آ گئے جو اپنے جسموں سے بم باندھ کے دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ اور آج یہ بیٹے اس دشمن کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے جو نہ نظر آتا تھا نہ اس سے لڑنے کے لئے ان کے پاس ہتھیار تھے۔ انہوں نے انسانیت کو ایک معراج تک پہنچایا۔ میں پوری دنیا کے طبی عملے کو سلام پیش کرتا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اس رویے کو بھی ختم کرنا ہے جو ہمارے اندر سے ہمیں کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس مجاہد کا دکھ محسوس کریں اور بتائیں کہ ہم کون سی صف میں کھڑے ہیں۔

میں میڈیکل کے شعبہ سے ہوں اور آزاد کشمیر کے سب سے پسماندہ ضلع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ 23 مارچ 2020 کو حکم ہوا کہ سکرینگ شروع کرنی ہے۔ حفاظتی سامان کے نام پر کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ ہم تو دور افتادہ علاقے میں بیٹھے تھے لیکن میڈیا کے ذریعے معلوم ہو رہا تھا کہ پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یہی حال ہے۔ علاج تو آج بھی ایجاد نہیں ہوا البتہ آلات کے نام پر صرف ایک تھرمل گن تھی ہمارے پاس وہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ٹریگر کدھر ہے اور فائر کدھر کرتی ہے۔

سب سے بڑی چیز ایک خوف کا ماحول۔ صرف اتنا پتہ تھا کہ کورونا موت ہے اور بس۔ میڈیا جو دکھا رہا تھا ڈبلیو ایچ او جو سمجھا رہا تھا اس سے صرف ایک ہی بات ہماری سمجھ میں آئی کہ کورونا صرف موت ہے اور ہماری زندگی اسی وقت تک ہے جب تک یہ وائرس ہم تک نہیں پہنچا۔ جب موت سامنے ہو اور اس سے آپ کے ماں باپ بیوی بچوں عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کی جان کو خطرہ ہو۔ ایسے وقت خود ہی انسان کے اندر ہمت آ جاتی ہے اور اس ہمت کی بنیاد مرو یا مارو کی اینٹ پر ہوتی ہے۔ اور خوف کا یہ عالم ہو کہ ہر ایک دوسرے سے خوف کھا رہا ہو۔ قیامت سا منظر ہو جہاں صرف آپ کو اپنی جان کی پرواہ ہو۔ لیکن ہم کھڑے ہو گئے۔

24 تاریخ کو کیل سے کال آئی کہ کورونا کا ایک کنفرم کیس بھیج رہے ہیں تیار رہنا جو بعد میں نیگیٹیو آ گیا۔ رات گیارہ کے بعد مریض آ کر پہنچا۔ مریض کیا تھا سمجھ لیں کہ محکمہ ولڈ لائف نے ایک خونخوار درندہ ایک جیپ کے پچھلے حصے میں ایسے قید کیا ہوا تھا جیسے وہ نکلا تو منگولوں کی تاریخ کو حرف بہ حرف دہرا دے گا۔ پوری جیپ رسیوں کی مدد سے باندھی ہوئی تھی اس کے اوپر پلاسٹک ڈالا ہوا اور پلاسٹک کے اوپر بڑی شیٹ۔ میں نے ایک طرف سے شیٹ اوپر کر کے جگہ بنائی اور مریض کو سامنے آنے کا کہا۔ لیکن مریض سے پہلے بدبو کا جو ایک سیلاب باہر نکلا میرے پورا جسم بے جان ہونے لگا کہ اگر میں اس کی جگہ پہ ہوتا؟ یہ بدبو یہ قید یہ خوف مجھے کورونا سے پہلے مار دیتا۔ اس ماحول نے میرے اندر ہمت کو اور بڑھا دیا۔ میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ میں نے نہ صرف خود کو بلکہ تمام لوگوں کو بچانا ہے۔

دوسرا واقع اس سے ایک ماہ بعد پیش آیا۔ سکرینگ پوائینٹ پہ بیٹھا تھا۔ سامنے لان میں بیس سے پچیس لوگ جو مختلف علاقوں سے آئے تھے کھڑے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ جن میں سے ایک بندہ کراچی سے آیا تھا جو کوہالہ سے ایک سو پچاس کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے آیا تھا۔ اور اس کو بخار تھا۔ اس کو سامنے سائے میں بٹھایا کہ دس منٹ بعد دوبارہ دیکھیں گے۔ میرے ساتھ پوائنٹ پر پانچ دیگر اہلکار بھی تھے۔ اچانک وہ بندہ بے ہوش ہو کے گرا۔

میں اس کو اٹھانے کے لئے بھاگا اور بھاگتے بھاگتے وارڈ بوائے کو پانی کی بوتل کے لئے آواز دی۔ لیکن جب میں نے اس کو اٹھا کر بٹھایا اور واپس پانی کے لئے آواز دی تو ایک حیرت انگیز اور خوفناک منظر تھا وارڈ بوائے اور دیگر سٹاف ممبر اندر گھس کر دروازے کو کنڈی لگا چکے تھے اور جو بیس تیس بندے باہر لائن میں تھے وہ نیچے بھاگ رہے تھے۔ دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ پورا جسم بے جان ہوتا محسوس ہوتا محسوس ہوا یہ سوچ کے کہ اگر اس بندے کی جگہ میں بھی گرا ہوتا تو میرے ساتھی دروازے بند کر کے بھاگ جاتے۔ انسان کو نہ کوئی بیماری مار سکتی ہے نہ کوئی دوائی بچا سکتی ہے۔ انسان کو اپنوں کی بے رخی مار دیتی ہے اور اپنوں کا حوصلہ بچا لیتا ہے۔

جتنے لوگ سکرینگ پر تھے ان کا خوف سو فیصد ٹھیک تھا۔ لیکن وہ پھر بھی وہاں کھڑے تھے۔ وہ انسان تھے اور باہمت تھے۔ ان کی ہمت ہی ان کو وہاں تک لائی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی فطرت سے مجبور بھی تو تھے۔ سٹاف کے باقی ممبران جو دیگر شعبوں میں خدمات کی وجہ سے اس نظام سے الگ تھے وہ بھی رسک پر تھے لیکن چند لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے اندر پلنے والے خوف کو شکست نہیں دے سکے۔ وہ ہم سے ایسے بھاگ رہے تھے کہ جیسے عزرائل کا چارج ہمیں مل گیا۔

راستے میں اگر کوئی آمنے سامنے آ جاتا تو فوراً ادھر ادھر دیکھتے گزر جاتا۔ گھر والوں سے تو ہم نے ویسے بھی خود کو الگ کر لیا تھا۔ دو دو ہفتے بعد گھر کی شکل دیکھتے تھے۔ لیکن سٹاف کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ وہ پروفیشنل ہونے کے باوجود اپنے رویے کو قابل برداشت نہ کر سکے۔ سیاستدان بھی ہر پانچ سال بعد میٹھی چھری سے ذبع کرتا ہے لیکن چھری پردے میں چھپا کے۔ لیکن ساتھ کام کرنے والوں نے ایسے الگ کیا کہ انہوں نے چھری چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ یہ باتیں لکھ کر پڑھ کر یا سن کر محسوس نہیں کی جا سکتی۔

یہ ساری باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم 23 مارچ کو اپنی مرضی حوصلے سے اس جنگ کا حصہ بنے تو اس وقت صرف یہ پتہ تھا کہ یہ موت ہے بس۔ ہم کھڑے ہوئے۔ ہم نے اپنی اپنے بچوں اپنے ماں باپ کی پرواہ نہیں کی۔ ہم نے سٹاف کی بے رخی کا سامنا کیا۔ ہم نے اپنے ہی کچھ لوگوں کی پست ذہنیت کا مقابلہ کیا۔ ہم نے اپنے ہی ساتھیوں کے تیروں کا مقابلہ کیا۔ کھڑے رہے بس ڈٹ گئے۔ اس سارے کام کے لئے نہ کوئی ایکسٹرا معاوضہ مانگا نہ چھ مہینے سے چھٹی کی۔ نہ کوئی اضافی مرعات ملیں۔ نہ شیلڈیں ملیں۔ نہ تمغے ملے نہ ہم نے ڈیمانڈ کیے۔

یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد وہ رویہ ہے جو اذیت دیتا ہے صرف اذیت۔ اپنوں کا اپنے ساتھیوں کا عوام کا۔ ہمارے ہی لوگوں کا خیال تھا کہ ان کو پانچ ہزار روپیہ روزانہ ملتا ہے اس لیے جان کی پرواہ نہیں۔ جو مشکوک مریض آتے ان کے لواحقین کا خیال تھا کہ ہر پازیٹیو کیس کے بدلے پانچ لاکھ روپیہ ہسپتال انتظامیہ کو ملتا ہے اس لیے یہ اتنی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا خیال تھا کہ آئسولیشن یا سکرینگ پہ کام کرنے والوں کو یقیناً بھاری معاوضہ ادا کیا جاتا ہے تب ہی ان کو جان کی پرواہ نہیں اور وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں انتظامیہ کو یہ پیغام دیتے کہ ہمیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے دیے جائیں۔

اس سب کے باوجود مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر انور بٹ صاحب نے اس نازک موقع پر جس انداز میں حوصلہ افزائی کی اور حفاظتی سامان کی فراہمی کے لئے ذاتی طور پر دن رات کام کیا وہ قابل تحسین اور قابل فخر ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سامان کی ترسیل مشکل ہو گئی تو وہ اپنی ذاتی گاڑی لے کے مظفرآباد جاتے اور حفاظتی سامان ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتے۔ اپریل کے بعد ہمیں کسی قسم کے سامان کی قلت کا سامنا نہیں رہا۔ وہ ہر وقت کہتے کہ جو لوگ فرنٹ لائن پہ ہیں ان کو حفاظتی سامان کی قلت کی وجہ سے وائرس نے متاثر کیا تو اس کا ذمہ دار میں خود کو سمجھوں گا۔

میری تمام انسانوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ کچھ کر نہیں سکتے تو بے شک نہ کریں لیکن اپنی خفت مٹانے کے لئے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہر گز نہ کریں جو آپ کا کفارہ بھی ادا کر رہے ہوں۔ آج اللہ کے فضل سے کورونا کا زور ٹوٹ گیا آج ہم سمجھ چکے ہیں کہ یہ اتنا خطرناک ثابت نہیں ہوا جتنا ہم نے سوچا تھا۔ لیکن جب یہ شروع ہوا تھا اس وقت جو لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوئے تھے وہ صرف شہادت کی نیت لے کے آئے تھے۔ وہ جان کی قربانی پیش کرنے آئے تھے۔

جن لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی ان کا بہت بہت شکریہ۔ لیکن جنہیں اس سے سازش کی بو آتی تھی مال و زر کی لالچ دکھتی تھی ان سے گزارش ہے کہ آپ سرحد پر لڑ نہیں سکتے تو کوئی بات نہیں لیکن جو سپاہی سرحد پر کھڑا ہے دھوپ بارش برف میں۔ اپنے گھر اور گھر والوں سے دور تو اس سے یہ تو نہ کہیں کہ یہ تنخواہ کے لئے کھڑا ہے۔ تنخواہ تو اے سی والے روم میں بھی ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).