خدا نے مرنا حرام کیا اور دنیا نے جینا


سوشل میڈیا پر ایک صحافی دوست کی وال پر کراچی کی صبا کی خود کشی کی خبر پڑھی۔ ‏نارتھ کراچی سیکٹر 5 C 2 کی رہائشی صباء جس کی شادی کو صرف 7 ماہ ہی گزرے تھے کہ شوہر کے رویے کی وجہ سے اس نے ہمیشہ کے لئے یہ دنیا چھوڑ دی۔ لڑکے نے جھوٹ بول کر شادی کی لڑکی کنواری تھی، لڑکا شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ پھر بھی صباء نے سمجھوتہ کیا۔ جس بات کا اندازہ اس کے آخری خط پڑھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اس خط کو پڑھ کر ہر شخص کی آنکھ ایک بار تو اشکبار ہو گی ہی۔ والدین جب بیٹیوں کو رخصت کرتے ہین تو بہت کم والدین ان کے دکھ میں بھی انہیں سپورٹ کرتے ہین، ورنہ یہاں یہی کہا جاتا ہے اس گھر سے تمھارا جنازہ نکلنا چاہیے۔ تو نکل پڑا صبا کا بھی جنازہ۔

یہ ایک صبا کی نہی، ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ بہت سے لوگ عورت کو بھی قصوروار ٹھہرائیں گے۔ ہو سکتا ہے، ہوتا بھی ہے۔ عورت چک چک بہت کرتی ہے، کچھ ناجائز فرمائشیں بھی کرتی ہیں۔ مگر چونکہ مرد حاکم ہے تو وہ سود سمیت بدلہ لینا جانتا ہے۔ معاشرے میں زیادہ تر عورت مظلوم ہی ہے۔

کیا پہلے کی نسبت عورت پر تشدد آج زیادہ ہو گیا ہے؟

آج کل ایسے واقعات عام اس لیے ہیں کہ پہلے کی عورت گونگی بہری تھی، نا سکول نا کالج، اس کی فطرت میں تھا ٹھڈے کھا لینا مگر گھر بسانا۔ آج تعلیم اور ذرائع ابلاغ نے عورت کو سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان ہے۔ اسے بھی انسانوں کی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے۔ تو جب حقوق معلوم ہو گئے ہیں تو تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جب درد کا احساس ہوتا ہے تب ہی چیخیں نکلتی ہیں۔

صباء خود کشی نا کرتی تو کیا کرتی۔ کیا طلاق یافتہ عورت کو معاشرہ قبول کرتا۔ ماں باپ طلاق دلوا بھی دیتے تو اس کا خرچہ کون اٹھاتا؟ دوسری شادی کی صورت میں کیا اگلا شوہر عزت دیتا؟

خود کشی کرنے والا جھٹ سے خود کشی تو نہی کر پاتا۔ ان خطوط کو پڑھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا ہچکچائی تھی، کتنی راتوں سے پلاننگ جاری تھی، کئی بار سوچا کہ شوہر ٹھیک ہو جائے گا۔ خود کشی کرنے والے کے تو اپنے قدم ہی بھاری ہوتے ہیں، لیکن طلاق جیسا حلال کام کر کہ بد کرداری کا ٹیگ لینے سے بہتر ایک عورت کو خود کشی جیسا حرام کام ہی محسوس ہوتا ہے۔

کہاں جائے عورت نا جینا آسان ہے نا مرنا۔

خدا کے لیے اپنی بیٹیوں کے ہاتھ انسانوں کے ہاتھوں میں دیں۔ اس کو زندگی کا دوست اور ساتھی ڈھونڈ کر دیں۔ مادیت پرستی چھوڑ دیں۔ دولت کبھی بھی خوشیوں کی ضمانت نہی ہوتی ہے۔

آج کی جنریشن کے مسائل اور ہیں۔ ہمیں ذہنی سکون بھی چاہیے۔ اس چک چک کو اپنے اردگرد ناکام شادیوں میں بہت دیکھ لیا ہے۔ ہمیں ساتھی چاہیے، ساتھی کا مطلب ہوتا ہے ساتھ نبھانے والا، عزت دینے والا۔ احترام کے ساتھ اختلاف کرنے والا، وہ جس میں مرد ہونے کی رعونت نا ہو۔ ۔ ۔

دنیاوی تقاضے اور رسم و رواج بدل دیں۔ توڑ دیں یہ سارے بت۔ زندگی کو آسان بنائیں۔ بیٹی کا ہاتھ کسی سلجھے ہوئے ہاتھ میں دیں۔ اور خدارا اسے اتنا معاشی مضبوط بنائیں کہ اگر کل کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ اپنا دینی حق استعمال کرتے ہوئے الگ ہونے کا فیصلہ کر سکے، اور نا آپ پر بوجھ بنے نا کسی اور پر۔

اور آخر میں اگر چاہتے ہیں صبا جیسے واقعات ہر دوسرے گھر میں نا ہوں تو بیٹوں کی بھی تربیت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).