سو سنار کی ایک لوہار کی


پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں آئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا اور کوئی مزاحمتی اپوزیشن نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کارکردگی نہیں دکھا سکی بلکہ الٹا ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور خارجی امور میں بھی ملک کو تنہا کر دیا۔ تمام اداروں کی سپورٹ کے باوجود ملک میں انتظامی معاملات بہتر نہ ہو سکے بلکہ لاقانونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی اور مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونیوالا طوفان ملک میں بر پا ہے۔

حکومت کا پورا زور اپوزیشن کی حیثیت ختم کرنے اور انہیں کرپٹ ثابت کرنے پر ہونے کے باوجود بھی اپوزیشن کی ایک اے۔ پی۔ سی نے حکومت کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا اور اس وقت ملک میں ایک افرا تفری کا سماں ہے۔ نہ حکومت کو عوام کی فکر ہے اور نہ ہی اپوزیشن عوام کی آواز، مگر ان دونوں کی مزاحمتی سیاست کا سب سے زیادہ نقصان ملک و عوام کو ہو رہا ہے۔

نواز شریف ملک کے تین دفعہ کے وزیر اعظم رہے، ان کو نا اہل کر کے پہلے جیل کی ہو ا کھانی پڑی پھر بیمار ہوئے تو ملک سے باہر علاج کے لیے بھیج دیامگر اب حکومت کے نمائندے کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بیمار ہی نہیں بلکہ صحت مند ہیں اس کی وجہ وہ خوف ہے جو انہیں مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف سے ہے کہ اگر کوئی ہمارے راستے میں مزاحم ہو سکتا ہے تو وہ صرف نواز شریف ہے اور ان کا یہ خوف اپوزیشن کی ایک اے۔ پی۔ سی نے ثابت کر دیا۔ جس میں نواز شریف نے خصوصی خطاب کیا اور حکومت کی اہلیت پر سوالات اٹھا دیے۔ پچھلے دس سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کے چور چور کے نعروں کے باوجود بھی نواز شریف کی کی ایک تقریر نے ان کے بیانیے کو ریت کی دیوار ثابت کر دیا۔

نواز شریف ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور موقع پہ چوکا مارنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ اگر ہم ان کی سیاسی جدوجہد پہ نظر کریں تو انہوں نے ہمیشہ بہترین وقت پہ انٹری لی اور اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا سوائے ایک موقع کے جس سے وہ اتنا نقصان اٹھا گئے اور وہ تھا جے۔ آئی۔ ٹی کے سامنے پیش ہونا۔ مگر اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ اس وقت انٹری کی جب انہیں یقین ہو کہ کھیل ان کے حق میں ہو گا۔ دو سال سے زیادہ عرصہ خاموش رہنے کے بعد ان کی ملکی سیاست میں انٹری حالات کے تناظر میں بہترین وقت کا انتخاب ہے۔

جیسے ملک میں عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں اور ابھی حکومت نے آئی۔ ایم۔ ایف سے اگلی قسط لینے کے لیے مذاکرات کرنے ہیں تو یقیناً بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو گی اور عوام کا غم و غصہ بھی۔ اسی طرح قرضوں کی قسط جو کہ G 20 کی طرف سے کرونا کی وجہ سے ایک سال کے لیے ملتوی کی گئیں تھیں وہ بھی اب ادا کرنی ہیں جس کی وجہ سے روپیہ مزید گرنے کا امکان ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ حکومت عین اس وقت میں گلگت، بلتستان کو صوبہ بنانے کا سوچ رہی ہے جو کہ کشمیر موقف سے رو گردانی ہے ککیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق گلگت، بلتستان ریاست کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر کے حل کے بغیر اسے پاکستان کا صوبہ بنانا ایسے ہی ہے جیسے بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 ختم کر کے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی، اسی طرح پاکستان بھی اپنے آئین کی شق 257 ختم کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کرے اور بھارت کے اس اقدام کو صحیح قرار دے دے۔ اسی لیے اپوزیشن نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں اسے سقوط کشمیر قرار دیا۔ حکومت کو اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ گلگت، بلتستان کے عوام کو حقوق دینا جتنا ضروری ہے پاکستان کے آئین کی پاسداری اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

پاکستان کی معیشت اور موجودہ صورتحال میں اپوزیشن اور حکومت تصادم، کسی بھی صورت میں پاکستان کے حق میں بہتر نہیں بلکہ اس میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں، جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا۔ اس لیے ان دونوں جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہیے اور کوئی بہتر صورتحال نکالنی چاہیے تاکہ ملک خانہ جنگی سے بچا رہے اور مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ اور اسی بات کا عندیہ گورنر پنجاب چودھری سرورصاحب نے دیا ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔ خدارا اپنی سیاست اور بقا کی بجائے پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).