منچھر جھیل کب تک زندہ رہے گی؟


حالیہ بارشوں میں جہاں جنوبی سندھ میں لوگوں کی فصلیں گھر اور زمینیں زیرآب آکر تباہ ہوئیں وہیں کھیرتھر کی پھاڑوں میں گھری میٹھے پانی کی سب سے بڑی قدرتی منچھر جھیل کے باسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہیں، برساتی ندیوں کے پانی نے اس قدرتی جھیل کو ایک بار پھر (عارضی ہی سہی) نئی زندگی بخش دی ہے، منچھر جھیل سے وابستہ انسانوں کے ساتھ آبی جیوت، چرند اور پرند کی موجودگی نے اس قدرتی جھیل کی خوبصورتی میں نئے رنگ بھرے ہیں۔

سندھ کے ضلع جامشورو اور دادو میں قائم پاکستان کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی قدرتی منچھر جھیل سیوھن شریف سے 18 کلو میٹر کے مفاصلے پر دریائے سندھ کے قریب کھیر تھر پھاڑ کے دامن میں واقع ہے، منچھر جھیل کا رقبہ عام طور پر 250 مربع کلومیٹر تک ہوتا ہے، لیکن مون سون کی بارشوں کے بعد یہ جھیل 520 مربع کلومیٹر تک پھیل جاتی ہے۔

قدرت کی اس حسین جھیل کو کسی وقت ایشیا بھر میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی قدرتی جھیل کے طور پر جانا جاتا تھا جس سے کئی لوگوں کا ذریعہ معاش جڑا ہوا کرتا تھا، منچھر جھیل میں جہاں مچھیرے طرح طرح کی مچھلیوں کا شکار کرکے اپنی زندگی بصر کرتے تھے وہیں تفریح کے لئے لوگوں کی آمد سے کئی گھرانوں کا گزر سفر بھی منسلک تھا۔ اس قدرتی جھیل میں بڑی تعداد میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی چھوڑنے اور حکمرانوں کی لاپرواہی سے پانی اب کھارا اور زہریلا بن چکا ہے، آلودگی کے باعث اس قدرتی جھیل سے آب جیوت ختم ہوچکی ہیں اور گندے پانی کے استعمال سے وہاں کے لوگ جلد کے امراض سمیت ٹائفائیڈ، جگر اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

1990 ع میں جب سے منچھر جھیل میں سیم نالے رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرین ( 1۔ RBOD) کے ذریعے مین نارا ویلی ڈرین کا زیریلا پانی چھوڑا گیا تب سے اس کی تباہی شروع ہوئی، کھارے اور زہریلے پانی کے باعث آبی جیوت کے ساتھ معیشت بھی مکمل طور پر ختم ہوگئی، منچھر جھیل میں زہریلا پانی بھرنے سے اس کے گردونواح میں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زرعی زمینیں سیم اور تھور کی وجہ سے ویران پڑی ہیں جس سے کاشتکار اور کسان پریشان اور ملکی معیشت پر برا اثرا پڑا ہے۔

منچھر کے کنارے آباد کچھ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سنگین صورتحال کے بعد ہزاروں سالوں سے مکین لوگ اب روزگار کی تلاش میں مختلف علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، بارشوں کے بعد جھیل میں پانی بھرنے کی صورت میں ہی کچھ لوگ روزگار کی امید سے اپنے آبائی علاقے کی طرف لوٹ آتے ہیں اور کچھ ماہ کہ بعد وہ دوبارہ روزگار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پہلے انہیں مچھلی کی قیمت بہت اچھی مل جاتی تھی لیکن جب سے جھیل کا پانی زہریلا ہوا ہے، تب سے مچھلی ناقص اور قیمت کم ہوگئی ہے، اب وہ روزگار کے لئے محنت مزدوری ہی کرتے ہیں۔

میٹھے پانی کی یہ جھیل قدیم ترین پتھر کے دور سے موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ 8 ہزار سال قبل دریائے سندھ کے بہاؤ سے یہ جھیل اس کرہ ارض پر نمودار ہوئی، قدیم دور میں جب دریائے سندھ یا اس کے ایک چھاڑ نے یہاں سے بہتے ہوئے اپنا راستہ تبدیل کیا تو بدلے میں منچھر جھیل کا وجود آیا۔ محققین کا خیال ہے کہ موہن جو دڑو کے زوال کے بعد وہاں کے باسیوں نے بھی اس جھیل کے کنارے اپنا دیرا جمایا تھا اور اس دور میں بنائی گئی کشتیوں کے ڈزائن آج بھی منچھر جھیل میں موجود کشتیوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو کہ نسل در نسل منتقل ہوتے آرہے ہیں۔

منچھر جھیل میں پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارشوں کے دوران کھیر تھر کے پھاڑوں سے بہنی والی ندیاں ہیں، زیادہ تر ”نئے“ گاج (ندی) اس جھیل کے بننے کا سبب بنتی ہے اس کے علاوہ جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح منچھر سے زیادہ ہوتی ہے تو اس کا پانی جھیل میں جاتا ہے۔ 1990 ع کے بعد منچھر جھیل میں نہیں گاج کے ذریعے آنے والے برساتی پانی سے آر بی او ڈی 1 کے گندے پانی کی مقدار کئی زیادہ ہے جس کے باعث قدرتی جھیل میں گندگی اور زہریلے پانی کا مقدار بڑھتا جا رہا ہے، آر بی او ڈی 1 کا پانی بلوچستان سے ہوتا ہوا قمبر شہدادکوٹ سے گزر کر منچھر جھیل میں داخل ہوتا ہے۔

منچھر جھیل کو بچانے کے لئے ”آر بی او ڈی 2“ منصوبے پر کام شروع کیا گیا ’آر بی او ڈی 2‘ کا منصوبہ جو سیہون شریف سے گھارو کریک تک 273 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اس کا بنیادی مقصد، منچھر جھیل میں زہریلا پانی لے آنے والے آر بی او ڈی کا بہاؤ منچھر میں جانے سے روکتے ہوئے آگے آر بی او ڈی 2 سے ملا کر گھارو کے راستے سمندر میں بہانا تھا۔ سندھ میں صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کے نکاسی پر بننے والی عدالتی واٹر کمیشن کے پٹیشنر اور نامور قانوندان شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ 2018 ع میں اعلیٰ عدلیہ اور کمیشن کے احکامات کی روشنی میں آر بی او ڈی 2 منصوبے پر کام میں تیزی آئی لیکن بدقسمتی سے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی بدانتظامی کے سبب اب تک اس منصوبے پر 73 فیصد ہی کام ہوسکا ہے، منصوبے کی لاگت بڑھنے کے باوجود اس پر کام کرنے والی کنسٹرکشن کمپنی نے کام روک دیا ہے نتیجن منچھر کی بحالی تو دور کی بات اس میں آنے والے زہریلے پانی کی مقدار بھی بڑھا دی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت منچھر میں آلودگی کی شرح 7 ہزار ٹی ڈی ایس تک پہنچ چکی ہے، جھیل میں میٹھا پانی نہ چھوڑا گیا تو آنے والے دنوں میں اس جھیل میں زندگی کا ہونا ایک کرشمہ ہوگا۔

پاکستان میں ماحولیات پر کام کرنے والے نامور صحافی امر گرڑو کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا منچھر جھیل پر برا اثر پڑا ہے، دادو کے مختلف کینال سے منچھر کو میٹھا پانی نہ ملنے اور کھیرتھر کے پھاڑوں میں بارشیں نہ ہونے سے جھیل میں پانی کی سطح مزید کم ہوگئی اور پھر واپڈا کی جانب سے آر بی او ڈی 1 کا منصوبہ اس قدرتی جھیل پر تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

زراعت میں استعمال ہونے والی کھاد او دیگر کیمیائی مواد (PESTICIDES) سے بھرپور مواد کو بڑی تعداد میں آر بی او ڈی کے ذریعے منچھر جھیل میں چھوڑا جا رہا ہے، شہروں کا سیوریج کا پانی، انسانی اور انڈسٹریز کا فضلہ منچھر میں شامل ہونے سے ماحول گندگی کا شکار ہے، جھیل میں آلودگی کے ناصرف انسانی زندگی پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ اس سے پودے اور مچھلیوں سمیت دیگر حیاتیات (Aquatic) بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے اور یہ پانی جہاں جہاں پہنچ رہا ہے وہاں (Aquatic life ground) اور دوسری (Vegetation) کو برباد کر رہا ہے، اب موسم سرما میں سائبیریا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پرندوں کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے، پانی پینے لائق نہ ہونے کے سب جنگلی جیوت بھی ان علاقوں سے کنارا کشی کر چکی ہے۔

شہاب اوستو کا کہنا ہے منچھر جھیل کو دوبارہ اپنے عروج پر لانے کے لئے سب سے پہلے اس میں شامل ہونے والے زہریلے پانی کو روکنا ہوگا، بارشوں میں کھیرتھر کی پھاڑی سلسلوں سے بہنے والی ندیوں پر با اثر لوگوں نے قبضے کرکے پانی کا راستہ روک دیا ہے جس سے منچھر میں بارش کا پانی بہت کم شامل ہورہا ہے، ان قبضہ مافیا سے ندیوں کے اصل راستے بحال کرنے ہوں گے تاکہ منچھر میں میٹھا پانی شامل ہو سکے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ واپڈا کو بھی آر بی او ڈی 2 منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ منچھر کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں بحال کیا جا سکے۔

حالیہ بارشوں سے منچھر میں میٹھا پانی شامل ہونے سے لوگوں کو جو عارضی خوشیاں ملی ہیں ان کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، منچھر کی بحالی اس میں میٹھے پانی کا تسلسل ہی ہے، قدرتی جھیل کی رونقیں بحال ہونے سے نہ صرف مقامی آبادی کی زندگی لوٹ آئے گی بلکہ وہاں پنپنے والی دوسری زندگیاں بھی کھل اٹھیں گی، قدرت کی اس جھیل کو زندگی دینے سے بہت سی زندگیاں دربدر ہونے سے بچیں گی اور ملکی معیشت پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).