بشری ببوشکا سیکس ورکر کیسے بنی؟


میرا نام بشری تھا۔ اپنا یہ نام مجھے کبھی کبھی ہی یاد آتا ہے۔ کیونکہ میرے کئی نام رکھے اور بدلے گئے۔ یہ بشری نام بھی عجیب ہے۔ جب اوپر تلے کئی لڑکیاں پیدا ہو جائیں تو ایک کا نام بشری رکھ دیا جاتا ہے کہ یہ آنے والے بیٹے کی بشارت لائے گی۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بڑی بہنوں مہ ناز اور مہ جبیں کے بعد میرا نام بالکل الگ سا لگتا۔ لیکن یہ ٹوٹکا بھی کام نہ آیا اور اماں اگلی بار بھی اسپتال سے بیٹی ہی لے کر لوٹیں۔ اس کا نام مہوش رکھ دیا گیا۔ میں اور میرا نام اور بھی اوپرے اوپرے سے لگنے لگے۔ لیکن مہوش کے بعد بھی اماں نے ہمت نہ ہاری اور دو برس بعد بیٹا لے کر سرخرو اسپتال سے لوٹیں۔ اس کے بعد ایک اور بیٹے کی چاہ میں دو بیٹیاں لے آیں۔ ماہم اور ماہا۔ ان کے بعد ایک مردہ بیٹے کو جنم دیتے ہوئے خود بھی جان دے دی۔

میں نے اسکول میں داخلہ لیا تو ابا کو مجھ پر ترس آگیا اور وہاں میرا نام مہتاب لکھوایا تاکہ باقی بہنوں کے ناموں جیسا لگے۔ گھر والوں کو بھی تاکید کی کہ مجھے اسی نام سے پکارا جائے۔ کوئی بشری کہتا تو میں جواب ہی نہ دیتی۔ مہتاب پھر تابی بن گیا۔ اب شاید ہی کسی کو یاد ہوا کہ کبھی میرا نام بشری بھی تھا۔

ابا کچھ سوچ کر نئی ماں لے آئے۔ اس کے اپنے تین بچے تھے۔ وہ دل کی بری نہیں تھی، لیکن غربت نے چڑچڑا کردیا تھا۔ ابا مزدوری کرتا تھا۔ غذا کی کمی اور پیسے کی تنگی ہمیشہ رہی۔ نئی ماں بچوں کو دھنک کر غصہ نکالتی۔

اب گھر بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ بڑی بہنیں چوتھی، پانچویں کے بعد گھر بیٹھ گیں۔ گھر کے کاموں اور چھوٹے بچوں کو سنبھالنے میں نئی اماں کی مدد کرتیں۔ روکھا سوکھا کھا کر اور پھٹا پرانا پہن کر ہم جیسے تیسے بڑے ہو گئے۔ مہ ناز ماموں کے گھر اور مہ جبین چاچا کے گھر ایک غربت سے نکلا کر دوسری غربت میں بیاہ دی گئیں۔

میں آٹھویں میں آ گئی۔ شادی کی عمر تو گھر والوں کے حساب سے کب کی آ چکی تھی۔ پر ستم یہ تھا کہ خاندان اور برادری میں میرے جوڑ کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ جو ہم عمر تھے وہ شادی شدہ ہو چکے تھے۔ باقی بہت چھوٹے تھے ابا کو فکر لگ گئی۔ نئی ماں نے بھی کوششیں شروع کر دیں۔ اور ایک رشتہ ڈھونڈ ہی لیا۔

برادری ہے اور دور کی رشتہ داری بھی۔ لڑکا انگلینڈ میں رہتا ہے۔ آگے پیچھے کوئی نہیں۔ چھٹی پر آیا ہے جلدی میں ہے۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں فی الفور بلا لیا گیا۔ جیسا کہ سب لڑکیاں کرتی ہیں میں بھی کھڑکی کا پردہ ہلکا سا سرکا کر دیکھ رہی تھی۔ میرے بہنوئی کے ساتھ ایک پکی عمر کا شخص ساتھ تھا۔ انہیں کرسیوں پر بٹھا کر ابا نے کہا ”اچھا ہوتا آپ لڑکے کو بھی ساتھ لے آتے۔ ملاقات ہو جاتی“ بہنوئی نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ”چاچا جی یہی ہیں اپنے برخوردار کمال دین صاحب“۔ ابا نے قدرے دکھ سے اسے دیکھا۔ کمال برمنگھم کی ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ وہاں ایک حادثے میں زخمی ہو گیا۔ ٹانگ میں لنگ آ گیا۔ بیساکھی سے چلتا تھا۔ پنشن ملتی ہے گذارا اچھا ہو رہا ہے۔ بہنوئی نے مجھ سے کہا ”دیکھ میں جانتا ہوں تیرا اور کمالے کا جوڑ نہیں لیکن اس جہنم سے نکل کر ولایت جائے گی تو کم سے کم سانس تو لے سکے گی۔ “۔ ابا کے جھکے کندھے دیکھ کر میں نے بھی سر جھکا دیا۔

مجھے سانس لینے کی بہت خواہش تھی۔ میری شادی ہو گئی۔ بری میری بڑی اچھی آئی۔ قیمتی جوڑے اور زیور کا سیٹ اور چوڑیاں بھی۔ بہنیں رشک کر رہی تھیں۔ سب یہی کہہ رہے تھے ”تابی انگلینڈ جا کر ہمیں بھی بلا لینا“۔ شادی کے بعد کمال مجھے ایک کرائے کے کمرے میں لے گیا۔ اپنے گھر سے یہاں آ کر مجھے یہ بہت پر سکون لگا۔ رات ہوئی تو وہ بولا ”دیکھ میں نہیں چاہتا کہ تجھ سے کوئی تعلقات بناؤں۔ بچے وچے کا سلسلہ ہو گیا تو تجھے مشکل پڑ جائے گی۔ تیرا ویزا آتے آتے سال دو سال لگ جائیں گے۔ آرام سے رہ۔ پیسے میں بھیجتا رہوں گا۔ اور جلد سے جلد تجھے بلا لوں گا“ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ میرا اپنا دل بھی کون سا اس کے لئے دھڑک رہا تھا۔

کمال دو ہفتے بعد واپس چلا گیا۔ میری ضرورت سے کہیں زیادہ پیسے دے گیا اور میں اپنے گھر واپس آ گئی۔ گھر کے پاس ایک دوکان میں ہر مہینے کی چار تاریخ کو شام پانچ بجے اس کا فون آتا۔ میں پہلے ہی وہاں پہنچ جاتی۔ فون پر وہ حال پوچھتا۔ اور ویزا جلد آنے کی امید دلاتا۔ پیسے بھی باقاعدگی سے بھیجتا رہا۔ میں نے ابا کے ساتھ جا کر اپنا پاسپورٹ بھی بنوا لیا۔ سال بعد میرا ویزا آگیا۔ کمال نے ٹکٹ کے پیسے بھی بھیجے اور تیاری کی شاپنگ کے لئے بھی۔ میں نے سوٹ کیس خریدا۔ گرم کپڑے کے سوٹ بنوائے۔ کڑھائی والی شالیں خریدیں۔ کمال کے لئے شلوار ْقمیض کے سوٹ بھی۔

مجھے ولایت جانے کا شوق تو تھا لیکن دل خالی خالی سا تھا۔ اسلام آباد ایرپورٹ سے برمنگھم جانے والے کئی پاکستانی تھے۔ ابا نے ایک فیملی کو میرا خیال رکھنے کو کہہ دیا۔ برمنگھم ایر پورٹ پر کمال آیا ہوا تھا۔ میں نے کھلی فضا میں گہری سانسیں لیں۔ ہم وہاں سے ٹرین میں بیٹھے۔ ایک اسٹیشن پر اتر کر ٹیکسی لی۔ کمال کا گھر اچھا تھا۔ چھوٹا سا لیکن صاف ستھرا اور ہوا دار۔ کھانا بھی اس نے بنایا ہوا تھا۔ ”میں سب کچھ بنا لیتا ہوں پر روٹی مجھ سے نہیں بنتی۔ وہ بازار سے لاتا ہوں۔ “ وہ ہنسنے لگا۔ ”میں بنایا کروں گی روٹی۔ کوئی مشکل نہیں۔“ ”ارے نہیں چھوڑ یہ جھنجھٹ۔ دوکان سے مل جاتی ہے“

میں ہاتھ منہ دھو کر آئی تو اس نے کھانا میز پر لگا دیا تھا۔ آلو گوشت اور دال چاول۔ کھانا واقعی اچھا تھا۔ کھانے کے بعد اس نے کہا ”تو تھک گئی ہو گی اتنا لمبا سفر کر کے۔ جا آرام کر لے۔ میں رات دیر تک ٹی وی دیکھتا ہوں ادھر صوفے پر ہی سو جاوں گا۔ تیری نیند خراب نہ ہو“ میں بیڈ روم میں جا کر آرام سے سو گئی۔ صبح اٹھی تو ناشتہ تیار تھا۔ آملیٹ، ٹوسٹ، جیلی اور گرم گرم چائے۔ میں نے ساری عمر دوسروں کی خدمت کی اور دوسروں کے آگے پکا کر رکھا۔ اب یہاں اپنی اتنی خاطریں دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی۔

کمال میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں تھی جس پر میرا دل دھڑکتا لیکن اس کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ اتنی شفقت سے بات کرتا کہ مجھے ابا یاد آ جاتے۔ دوسری رات بھی وہ صوفے پر سویا۔ پھر تیسری اور چوتھی بھی اور پھر پورا ہفتہ۔ وہ مجھے گھمانے لے گیا۔ شاپنگ بھی کرائی۔ باہر کھانا بھی کھلایا۔ لیکن فاصلہ رکھا۔ عجیب نا سمجھ میں آنے والا تعلق تھا ہمارا۔ ایک رات کھانے کے بعد وہ بولا۔

”دیکھ تابی میں تیرے قابل نہیں ہوں۔ وہ تو برادری کا دباؤ تھا کہ میں نے شادی کر لی۔ تو مجھے اچھی بھی بہت لگی۔ لیکن تیری زندگی برباد ہو یہ مجھے گوارا نہیں۔ ترس آتا ہے تجھ پر۔ میں تیری مدد کروں گا“ میں سنتی رہی۔ ”میں تیرے لئے کوئی اچھا سا بندہ ڈھونڈوں گا، جو تیرے قابل ہو اور جو تجھے پسند ہو۔“ میں اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔

چند دن بعد ہی اس نے بتایا کہ اس نے کچھ دوستوں کو کھانے پر بلایا ہے جو کسی لڑکی کو اپنانا چاہتے ہیں۔ ”تو دیکھ لے ان کو کوئی اچھا لگے تو بتا دے تیری بات طے کر دیں گے“ وہ اور بھی عجیب باتیں کر رہا تھا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے بھلا۔

میں نے کھانا میز پر لگا دیا۔ کمال اور اس کے دوست بھی آ گئے۔ میں نے دیکھا کہ مہمانوں میں سے ایک بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت سجیلا سا مرد تھا۔ اس کے چہرے پر کرختگی نہیں تھا۔ میں بھی نظر بچا بچا کر اسے دیکھنے لگی۔ دونوں کی نظریں ٹکراتیں تو ہم دونوں جھینپ کر پلیٹوں پر جھک جاتے۔ مجھے لگا کمال نے بھی ہماری یہ چوری پکڑ لی تھی۔ اگلے دن اس نے کہا ”امجد ملک کو تو پسند آ گئی ہے“ ”کون امجد ملک؟ “ میرا دل دھڑک اٹھا۔ ”وہی جسے تو چوری چوری تک رہی تھی“ وہ ہنسا میں شرما گئی۔ ”چل پھر بات طے ہو گئِی۔ تو امجد ملک کے ساتھ ہو جا“ ”کیسے؟ میں تو تمہارے نکاح میں ہوں“

 ” نکاح کا کیا ہے۔ ابھی تجھے طلاق دے دیتا ہوں۔ میں نے تجھ طلاق دی۔ طلاق دی۔ طلاق دی۔ عدت کی بھی ضرورت نہیں۔ میرا تیرا تعلق ہی نہیں بنا“ اس نے تین بار کہہ دیا اور میں آزاد ہو گئی۔ کیا واقعی؟ امجد آیا اور میں نے کہا پہلے نکاح ہو۔ وہ سب ہنسنے لگے۔ ”بالکل ان چھوئی ہے ملک صاحب“ وہ ہنسا۔ اگلے دن دو چار لوگ آگئے کمال نے زبانی نکاح پڑھایا اور میں نے قبول ہے کہہ دیا۔ امجد میرے ساتھ ایک ہفتہ رہا۔ اور وہ پورا ہفتہ کمالا کہیں اور چلا گیا۔ ادھر امجد گیا ادھر کمالا واپس آ گیا۔ ”ملک صاحب کو اچانک پاکستان جانا پڑ گیا۔ کوشش کریں گے جلد واپس آنے کی“ مجھ ہر بجلی گر گئی۔ مجھ سے کچھ نہیں کہا اس نے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے میں بیوی ہوں اس کی۔

دن گزرتے گئے امجد کی کوئی خبر نہ آئی۔ کمال کی منتیں کیں کہ امجد کا فون نمبر دے لیکن وہ ٹال گیا۔ میں رو رو کر چپ ہو گئی۔ تین مہینے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ کمالے نے سر پیٹ لیا ”اوئے تو نے احتیاط نہیں کی تھی؟ اوئے ملک تیرا ستیاناس“ اسپتال جا کر نام لکھوایا۔ کمالا بولا ”ادھر کاغذوں میں تو میں ہی تیرا خاوند ہوں۔ “ میں چپ ہو گئی۔ بیٹا پیدا ہوا۔ بالکل باپ جیسا سجیلا۔ ولدیت میں کمال کا نام ہی تھا۔ میں یہ بات بھی سہہ گئی۔

گھر والوں سے میرا رابطہ اب کم ہو گیا تھا۔ میں کیا بتاتی کیسے بتاتی کہ مجھ پر کیا گزر گئی۔ اتنا ضرور ہوا کہ جب بھی گھر والوں کو مدد کی ضرورت پڑی کمال نے رقم بھیجی۔ برسات میں چھت ٹپکنے لگی، ابا کی آنکھ کا آپریشن ہوا۔ مہوش کی بات پکی ہوئی۔ کمال نے ہر موقعے پر مدد کی۔ بیٹا پیدا ہوا تو کمالے نے بڑے فخر سے اسے گود میں لے کر تصویریں بنایں اور پاکستان بھیجیں۔ وہاں سے مبارکیں آئیں۔ کمال کا نام کمال دین تھا بیٹے کا نام زیک دین رکھا۔ اس نے کہا یہاں ایسے ہی نام ٹھیک رہتے ہیں۔ میں نے اعتراض نہیں کیا۔

زیک سال کا ہوگیا تو کمال پھر پیچھے پڑ گیا ”کب تک سوگ منائے گی؟ اب آگے کی فکر کر۔ روزی روٹی تو کمانی ہے نا۔ میری پنشن میں تین کا گذارا نہیں ہو سکتا“ میں اب بہت کچھ سمجھ چکی تھی۔ وہ میرے لئے پھر مناسب بندا لے آیا۔ اس بار نہ تو کوئی طلاق دینے والا تھا اور نہ ہی کسی نے نکاح کا تردد کیا۔ میرے کمرے میں ایک اور آگیا۔ اور پھر ایک اور۔ کمالا زیک کے ساتھ دوسرے کمرے میں سوتا۔ بیٹا رات کو روتا تو میں بے چین ہو جاتی۔ پھر ایک کے بعد ایک آیا اب گنتی بھی یاد نہیں۔ احتیاط کرنا بھی میں نے سیکھ لیا تھا۔

یہ روز روندے اور مسلے جانا کا کھیل تھا۔ میں ذہنی، جذباتی اور کبھی کبھی جسمانی تشدد کا شکار ہوتی رہی۔ کوئی مارتا، کوئی کاٹتا، کوئی حد سے آگے نکل جاتا۔ یہ روزی روٹی کے لئے کیا کیا سہنا پڑتا ہے۔ جاتی تو کہاں جاتی؟ پیچھے کون تھا؟ بچوں سے بھرا گھر۔ بیمار باپ، سوتیلی ماں اور غربت۔ میں سیکس ورکر بن گئی۔ آپ ضرور میرے بارے میں رائے قائم کریں۔ مجھے کہیں کہ میں ایسی زندگی کیوں گذارنے پر تیار ہوئی۔ واپس کیوں نہیں گئی۔ آپ کے لئے ایک جواب ہے، معاش مضبوط نہ ہو تو اخلاق کی بلندی چڑھنا ممکن نہیں ہے۔ سانس اکھڑتی ہے۔

پھر ایک نرم خو آیا۔ یہ گورا تھا۔ نشے میں دھت۔ لیکن دوسروں کی طرح وحشی نہیں تھا۔ اس نے نرمی سے مجھے چھوا، پیار کیا۔ میری آنکھوں اور بالوں کی تعریف کی۔ میرا دل بھر آیا۔ اس کے سینے سے لگ کر میں نے روتے ہوئے کہا ”ہلیپ می پلیز“ وہ بڑبڑانے لگا۔ کچھ نہ سمجھا۔ اس کے جانے کا وقت آیا تو میں نے پھر ہمت کی ”مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے بچا لو“

 ” اوہ ہنی میرا مزا خراب مت کرو۔ میں پھر آوں گا۔ “ میں نے غصے سے اسے دھکا دیا وہ نشے میں تو تھا ہی لڑکھڑا کر گرا اور سر پر چوٹ لگی۔ کمال نے پہلی بار مجھے ڈانٹا کہ گاہکوں کے ساتھ ایسی بد تمیزی نہیں کرتے۔

ایک دن کمال کے ساتھ دو لڑکیاں آئیں۔ یوکرین سے تعلق تھا اور دونوں بہت کم عمر تھیں۔ ٹوٹی پھوٹی انگلش میں ہم نے بات کی۔ میرے سر پر کسا دوپٹہ دیکھ کر ایک نے کہا ”تم بالکل ببوشکا ہو“ مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ کیا ہے اس نے اپنے بیگ میں سے ایک گڑیا نکال کر مجھے دکھائی۔ ”یہ ہے ببوشکا اور تم بالکل ایسی ہو“ اور یہاں سے میرا نام ببوشکا پڑ گیا۔ ببوشکا سیکس ورکر۔

ان لڑکیوں کو کسی نے نوکری اور اچھے مستقبل کے خواب دکھا کر یہاں بلایا اور اب جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ میں اب اس پیشے میں سینیر تھی۔  کمال نے کہا میں انہیں دھندے کے گر سکھاوں لیکن میں نکمی نکلی۔ کمال نے کہا کہ ہمیں اب ایک اور گھر میں جا کر رہنا ہوگا۔ کیونکہ اب کاروبار بڑھ گیا ہے اور یہ جگہ چھوٹی پڑ رہی ہے۔ ان لڑکیوں کی تربیت بھی کرنی ہے۔ ہم ایک اور شہر میں آ گئے۔ ایک بڑے سے گھر میں کمال کچھ دن رہ کر ہمیں وہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ عجیب پر اسرار سا ماحول تھا۔ کچھ لڑکیاں اور کچھ مرد۔ یہاں کھانا بھی چلتا اور پینا بھی۔ یہ ایک اڈا تھا اس اڈے کو دو پاکستانی باپ بیٹا چلا رہے تھے۔ بیٹا میاں صاحب اور ابا بڑے میاں صاحب کہلاتے۔ گھر کے بیسمنٹ میں کئی لڑکیاں تھیں۔ ان میں کئی تو بہت کم عمر تھیں۔ 13 سال تک کی بچیاں بھی تھیں۔ کوئی اغوا کی ہوئی، کچھ گھروں سے بھاگی ہوئیں۔ کچھ نشے کی عادی۔ کچھ چوٹے موٹے جرائم میں ملوث۔ ان لڑکیوں کو دھندے کے آداب اور ان کی ”گرومنگ“ میاں صاحبان خود سکھاتے اور کراتے تھے۔ میرے رنگ روپ پر غموں کی تاریکی چھا چکی تھی۔ چہرے پر کوئی دلکشی نہیں تھی۔ کمزور جسم میں کوئی جاذبیت نہ تھی۔ بڑے میاں صاحب نے جب پہلی بار مجھے دیکھا تو کمال سے کہا

 ” اوئے یہ امچور کی پھانک کہاں سے اٹھا لایا تو؟ “۔ اور مجھے ایک اور نام مل گیا۔ امچور۔ ”یہ کسی جوگی نہیں اسے کھانا وانا بنانے پر لگا دو۔“ میاں صاحب نے حکم دیا میں نے ایک عرصے بعد گہرا سانس لیا۔ میرا کام اب کچن کو سنبھالنا تھا۔ تنخواہ بھی ملنے لگی۔ میرا اور بیٹے کا گذارا ہونے لگا۔

جو لڑکیاں یہاں لائی جاتیں وہ کچھ دنوں بعد کہیں اور روانہ کر دی جاتیں۔ اور پھر نئی لڑکیاں آ جاتیں۔ بڑی تعداد انگریز لڑکیوں کی تھی۔ یہاں ایک بنگالی عورت بھی تھی ہم دونوں مل کر کھانے کا انتظام کرتے۔ اس کا میاں ڈرائیور تھا جس کے ساتھ جا کر میں سودا وغیرہ لاتی۔ ایک افغان تھا جو چوکیداری بھی کرتا اور جو لڑکیاں شور مچاتیں، انہیں ڈراتا دھمکاتا بھی اور کبھی کبھی مار پیٹ بھی۔ مجھ پر ان لوگوں کو اعتماد تھا۔ باہر آنے جانے کی بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ کئی بار سوچا کہیں بھاگ جاوں۔ لیکن کہاں؟

کمال ملنے آتا رہتا۔ زیک سے اسے بہت محبت تھی جب بھی آتا اس کے لئے کوئی کھلونا لاتا۔ زیک بھی اسے بہت چاہتا تھا اسے ڈیڈی کہتا۔ دونوں مل کر خوب کھلیتے۔ کمال چلا جاتا تو زیک اسے یاد کر کے روتا۔

ایک دن میں زیک کو لے کر ڈرائیور کے ساتھ ایشین دوکان سے حلال گوشت خریدنے گئی۔ کیونکہ میاں صاحبان گوشت حلال ہی کھاتے تھے۔ میرے پاس ہی ایک شخص کھڑا تھا ”چار کلو مٹن بنا دیں“ اس نے آرڈر دیا اور اپنے موبائل کو دیکھنے لگا۔ میرا دل زور سے دھڑکا۔ وہ امجد تھا۔ ہاں وہی تھا۔ ”ملک صاحب“ میں نے پکارا۔ اس نے غور سے مجھے سر سے پیر تک دیکھا۔ چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے۔ لمحہ بھر کو آنکھوں میں شناسائی ابھری پھر ڈوب گئی۔

وہ کچھ نہ بولا۔ میں نے زیک کا ہاتھ پکر کر اسے ان کے سامنے کیا اور سرگوشی میں کہا ”یہ آپ کی نشانی ہے“ اس کا چہرا زرد پڑ گیا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ زیک پر نگاہیں جم سی گیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر اجنبی بن گیا۔ ”کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں“ پھر تیزی سے سودا لئے بغیر دوکان سے نکل گیا۔ میرا دل پتھر کا ہو چکا تھا ورنہ تو ٹوٹ کر بکھر جاتا۔ میں یہ بھی سہہ گئی اور کمال سے اس کا ذکر تک نہ کیا۔

زیک اب بڑا ہو رہا تھا۔ سوال کرنے لگا تھا۔ ”ہم ڈیڈی کے پاس چل کر کیوں نہیں رہتے؟“ یہ اتنے سارے لوگ کیوں ہیں یہاں؟ کون ہیں؟ ”وہ ڈراسہما سا رہتا تھا۔ ۔ زیک کے اسکول جانے کی عمر آئی تو مجھے فکر لگ گئی۔ کمال سے ذکر کیا تو وہ بھی پریشان ہو گیا۔“ اسکول میں داخلہ لینے کے لئے گھر کا ایڈریس مانگیں گے۔ کاغذوں میں تیرا ایڈرس تو میرے گھر کا ہی ہے۔ بدلنا مشکل ہے کچھ اور مسئلے پڑ جائیں گے۔ ”

 ” کمالے مجھے لے چل یہاں سے“ میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ لئے۔ میں نوکری کر لوں گی۔ اپنا اور زیک کا خرچا اٹھاوں گی۔ تجھ پر بوجھ نہیں بنوں گی“

”ذرا صبر کر کچھ سوچتا ہوں۔ یہ لوگ تجھے اتنی آسانی سے جانے نہیں دیں گے”۔

دو مہینے اور گزر گئے۔ گرمیاں شروع ہو گیں۔ پھر اسکول کے داخلے شروع ہو جائیں گے میرے بیٹے کا کیا بنے گا۔ ایک روز افغان چوکیدار نے کہا ”امچور نیچے بیسمنٹ میں جو لڑکی ہے وہ کھانا نہیں کھا رہی چل کر اسے سمجھا“۔ میں کھانے کی ٹرے لے کر نیچے گئی۔ وہ سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی نازک سی لڑکی تھی۔ برٹش تھی۔ عمر بارہ تیرہ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کے ایک پیر میں زنجیر تھی جو اتنی ہی لمبی تھی کہ وہ واش روم تک جا سکے۔ لڑکی نے مجھے دیکھا نقاہت سے آنکھیں کھولیں اور کمزور سی آواز میں کہا ”ہیلپ می پلیز“ میرا سانس رک سا گیا۔ ذہن کے دروازے پر ایک یاد نے دستک دی۔ میں نے اسے کھانا کھلایا اور اسے پیار کیا۔ وہ دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی۔ ”میرا نام میگی اسمتھ ہے۔ میں ایڈلیڈ میں رہتی ہوں۔ مجھے یہاں سے جانے دو میرے ماں باپ کو خبر کردو۔ وہ پریشان ہوں گے“ میرا خیال تھا کہ میرا دل پتھرا چکا ہے لیکن میگی کی باتوں سے وہ کانپ سا گیا۔

اگلی شام مجھے کمال کا فون آیا وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ ”تو فورا زیک کو لے کر آجا۔ سامان کچھ نہ لانا بس سارے ضروری کاغذات لے آ۔ برمنگھم کی ٹرین لے کے سیدھی گھر آ جا۔ “

میں نے ایسا ہی کیا۔ جانے سے پہلے میں نے ایک کاغذ پر میگی کا نام اس کے شہر کا نام اور جس گھر میں ہم سب رہتے تھے اس کا پتہ لکھ لیا۔ اسٹیشن پر ایک ٹرین میں سوار ہونے سے ذرا پہلے سامنے آتی ہوئی ایک عورت کے ہاتھ میں پرچہ پکڑا کر میں نے کہا ”یہ پولیس میں دے دو پلیز“ اور جلدی سے ٹرین میں سوار ہو گئی۔ وہ مجھے دیکھتی ہی رہ گی۔ گھر پہنچی تو کمال نے بتایا کہ کوئی شہر ہے روتھرہام وہاں اسی طرح کا اڈا چلایا جا رہا تھا۔ پولیس نے چھاپا مارا۔ سب کو پکڑ لیا۔ اب اسی طرح کے اور اڈے بھی پولیس تلاش کر رہی ہے۔ ”جو پرچہ میں نے اس عورت کو پکڑایا تھا وہ اس نے پولیس تک پہنچا دیا تھا۔ اسی کی مدد سے وہاں بھی چھاپا مارا۔ میگی کو بازیاب کر لیا۔

اور پھر پولیس ہمارے گھر تک بھی آ گئی۔ مجھے پولیس اسٹیشن بلایا گیا۔ کئی بیانات لئے گئے۔ اڈے سے کئی لوگ پکڑے گئے۔ کچھ فرار ہوگئے۔ میاں صاحبان پر کیس بنا۔ میگی کی مدد کرنے پر مجھے رعایت ملی۔ میگی نے بھی میرے حق میں گواہی دی۔ مجھے سرکاری گواہ بنا لیا اور گواہ کا تحفظ بھی ملا۔ بڑے میاں صاحب تو پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔ چھوٹے پر مقدمہ چلا۔ آٹھ افراد کوسزا ہوئی۔ مجھے بری کر دیا گیا۔ کمال کا نام کہیں نہ آیا۔ پتہ لگا کہ ایک بڑا مافیا تھا جو لڑکیوں کی خرید و فروخت کر رہا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں ٹیکسی ڈرائیورز، دوکاندار اور مسجد میں قران پڑھانے والے شامل تھے۔ ان اڈوں کے مالک بہت اثر رسوخ والے تھے اور معاشرے میں معزز سمجھے جاتے تھے۔ ان پر سنگین الزامات تھے اور انہیں سزائیں بھی سنگین ملیں۔ اغوا، انسانی ٹریفکنگ، کم سن بچیوں کے ریپ، لڑکیوں کو نشے کا عادی بنانا اور فحاشی کا اڈا چلانا وغیرہ۔ ٹی وی اور اخبارات میں یہ خبریں چھائی رہیں۔ اور ہر کوئی اسی کے بارے میں بات کرتا نظر آتا۔ گرفتار ہونے والوں میں اکثریت پاکسنایوں کی تھی۔ کچھ افغان، انڈین اور کچھ مقامی بھی تھے۔ مردوں کے علاوہ چند عورتیں بھی تھیں۔

زیک واپس اپنے ڈیڈی کے پاس آ کر بہت خوش تھا۔ اسکول بھی جانے لگا۔ مجھے بھی زمانے نے بہت کچھ سیکھا دیا تھا۔ میں نے کمال سے کہا کہ مجھے برٹش نیشنلیٹی چاہیے۔ وہ راضی ہو گیا۔ ہم نے دفتر جا کر کاغذوں پر سائن کر کے جمع کرا دیئے۔

ایک شاپنگ مال میں مجھے صفائی کا کام مل گیا۔ میں وہاں فرش صاف کرتی ہوں ٹایئلٹ دھوتی ہوں۔ زندگی ایک ڈھب پر آ گئی تھی۔ رکی رکی سانسوں میں روانی آ ہی گئی۔ کمالا اب بوڑھا ہو گیا تھا اور بیمار بھی رہتا۔ مجھ سے معافیاں مانگتا رہتا ہے۔ میں چاہ کر بھی کمال سے نفرت نہ کر سکی۔ زیک پندرہ سال کا ہو گیا۔ باپ کی طرح سجیلا اور قدآور۔ اسے میں نے سچ میں کچھ جھوٹ ملا کر بتایا۔ کہ میری شادی اس کے باپ سے ہوئی تھی وہ مجھے چھوڑ گیا تو ڈیڈی نے سہارا دیا۔ میں اس بڑے گھر میں کام کرتی تھی۔ جانتی ہوں کہ جیسے جیسے وہ بڑا ہو گا اور بہت کچھ جان جائے گا۔

ایک شام کام سے واپس آئی اور کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ امجد ملک کھڑا تھا۔ میں نے کئی سال کتنی ہی پار اپنے تصور میں یہ منظر دیکھا تھا کہ اچانک ایک دن گھنٹی بجے گی اور وہ وہاں کھڑا ہو گا۔ لیکن آج اسے دیکھ کر نہ دل دھڑکا زور سے دھڑکا نہ سانسیں بے ترتیب ہویں۔

اسے کمرے میں بٹھا کر میں کمالے کو بلا لائی۔ ”کیسے آنا ہوا ملک صاحب؟ “ ”بس یار تم لوگوں کی یاد آئی تو چلا آیا“ اتنے میں زیک بھی آ گیا۔ ”یہ ہمارا بیٹا ہے زیک دین“ کمالے نے تعارف کروایا۔ مہمان کو سلام کر کے زیک کمال سے بولا ”ڈیڈی کل میرا فٹ بال کا میچ ہے۔ آپ اور ممی کو لازمی آنا ہے۔ میں ضرور گول کروں گا۔ “ کمالا ہنس دیا ”ضرور بیٹا جی میں اور تیری ماں ضرور آئیں گے“ ”موم میری جرسی آپ نے دھو دی ہے نا؟“ میں نے سر ہلایا۔ امجد ملک زیک کو دیکھے جا رہا تھا۔ اور میں اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی۔ اداسی تھی۔ وہ مجھے بیمار اور تھکا تھکا لگا۔ زیک اپنے کمرے میں چلا گیا۔

 ” میں بیمار ہوں“ وہ بولا۔ ”میرے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں۔ ڈائلیسس ہوتا ہے۔ “ ہم چپ رہے۔

 ” ٹرانسپلینٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں“

ہم اب بھی چپ تھے۔ ”دو بیٹیاں ہیں دونوں شادی شدہ۔ ٹسٹ کروایا، ان کا میچ نہیں ہے“

باقی بات ان کے کہے بنا ہی سمجھ آ گئی تھی۔ لیکن میں انجان بنی بیٹھی رہی۔ سات دنوں کے ساتھ کی اتنی بڑی قیمت؟

کمال اور میں وہاں سے اٹھ گئے اور تھوڑی ہی دیر بعد باہر کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).