وزیر اعظم عمران خان اور نجی چینلز کے نیوز ڈائریکٹرز کی ملاقات: ’میں ہی فوج کا انچارج ہوں‘


پاکستانی فوج اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کے حوالے سے بیانات، الزامات اور وضاحتیں گذشتہ چند روز سے سامنے آ رہی ہیں لیکن اس ساری صورتحال میں نواز شریف کی تقریر ہو مریم نواز اور بلاول بھٹو کے بیانات ہوں، آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا پہلا انٹرویو ہو، سابق گورنر محمد زبیر کی وضاحت ہو یا پھر اب مولانا فضل الرحمن اور شیخ رشید کی ایک دوسرے کے بارے میں بیان بازی ہوملک کے وزیراعظم عمران خان نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے آن لائن خطاب کیا لیکن اس سے قبل ان کی پاکستان کے چند نجی ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات ہوئی۔

آج ان تقریباً نو ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات کے بعد میڈیا پر چلنے والے ٹکرز سے لگا وزیراعظم نے چُپ توڑ دی ہے۔

فوج اور سیاست: سہیل وڑائچ کا کالم

’فوج کی سیاست میں دلچسپی نہیں تو یہ ملاقاتیں کیوں؟‘

نواز شریف کی سیاست کا آغاز یا اختتام

’گلگت بلتستان کا معاملہ پارلیمان میں حل ہونا چاہیے نہ کہ جی ایچ کیو میں‘

’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی‘

نشست کا کیا ایجنڈا تھا؟

اس ملاقات کا احوال جاننے کے لیے ہم نے وہاں شریک دو نجی ٹی وی چیلنز کے ڈائریکٹر نیوز سے رابطہ کیا۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد نے بتایا کہ ‘گذشتہ شام وزیراعظم ہاؤس سے ٹیلی فون آیا تھا کہ وزیراعظم ڈائریکٹر نیوز سے ملنا چاہتے ہیں۔ آج یہ ملاقات ہوئی سوا گھنٹے تک جاری رہی۔‘

وزیراعظم نے شروع میں کوئی بیانیہ تو نہیں دیا لیکن انھوں نے کہا کہ آپ مجھ سے پوچھیں حالات حاضرہ پر، بیرونی اور اندرونی پالیسیوں کے حوالے سے اور معیشت کے حوالے سے جو اپ کے ذہن میں سوال ہیں۔

راشد محمود آج نیوز میں ڈائریکٹر نیوز ہیں ان کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نیوز کے ساتھ اس سے پہلے کبھی باضابطہ طور ہر میٹنگ نہیں ہوئی۔ ملاقات کا ایجنڈا تو نہیں تھا لیکن یہ ملاقات اچھی رہی۔ ایک دوسرے سے رابطہ بڑھانے کے لیے بھی اچھی رہی۔

اپوزیشن کے ملنے بیٹھنے پر کیا کہا؟

رانا جواد نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا کہ ‘انھیں ‘اپوزیشن کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اگر اپوزیشن ایجیٹیشن کرنا چاہتی ہے تو ان کے پاس لوگ نہیں ہیں اور میں خود اس کا بڑا ماہر ہوں۔` انھوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ اگر اپوزیشن کے ممبران حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مستعفی ہوتے ہیں تو فوری طور پر ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے اور اپوزیشن تمام سیٹیں ہار جائے گی۔

نواز شریف کی تقریر دکھانے کا فیصلہ کس کا تھا؟

راشد محمود کہتے ہیں کہ میں نے نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کے معاملے پر سوال اٹھایا کہ کیا یہ دکھانا درست تھا یا نہیں؟

جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’بہت لوگوں کا دباؤ تھا۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا بہت دباؤ تھا کہ ہمیں یہ دکھانا چاہیے یا نہیں دکھانا چاہیے بہت تنازع تھا لیکن آخر میں فیصلہ میں نے ہی کیا۔‘

رانا جواد کہتے ہیں کہ نواز شریف کی تقریر کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ تقریر بوکھلاہٹ میں تھی۔ تقریر تھی جو کہتا ہے نہ میں کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا۔

رانا جواد کے مطابق وزیراعظم نے سوالات کے جوابات میں الزام لگایا کہ ’نواز شریف کا ایجنڈا یہ ہے کہ فوج اور حکومت میں لڑائی کروائی جائے۔ وہ اس ہم آہنگی کو توڑنا چاہتے ہیں۔‘

نواز شریف

نواز شریف نے کیا کہا تھا ؟

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کا کوئی رکن آئندہ انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا۔

جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’حالیہ واقعات سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی اور کس طرح بعض کی تشہیر کر کے مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔ یہ کھیل اب بند ہو جانا چاہیے۔‘

اس سے پہلے بدھ کی رات پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی جماعت کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کی تھیں۔

بعد ازاں محمد زبیر نے آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں کی تصدیق کی تھی مگر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان ملاقاتوں کا مقصد نواز شریف یا مریم نواز کے لیے کسی ریلیف کے بارے میں بات کرنا نہیں تھا اور نہ ہی وہ جنرل باجوہ سے نواز شریف کے نمائندے کے طور پر ملے تھے۔

میں ہی فوج کا انچارج ہوں

اس وقت ملک میں فوج اور وزیراعظم کے اختیارات اور دائرہ کار پر بھی بات ہو رہی ہے اور وزیراعظم کی خاموشی کو ان کی بے بسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے کیا اس بارے میں کوئی سوال ہوا؟

راشد محمود کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے واضح طور پر بتایا کہ ’جو بھی میرا ایجنڈا ہوتا ہے فوج اسے فالو کرتی ہے۔‘

وزیر اعظم کا کہنا تھا ’پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں فوج اور سویلین حکومت کے درمیان بہتر رابطہ ہے اس سے پہلے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا اس لیے کچھ اپوزیشن گروپ اور لوگوں کو یہ بات ٹھیک نہیں لگ رکھی۔‘

رانا جواد کہتے ہیں کہ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ فوج وہ کرتی ہے جو بطور وزیراعظم وہ انھیں ہدایات دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں ہی فوج کا انچارج ہوں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں چلنے والی پالیسیز ان کی ہی پالیسیز ہیں اور وہ فوج کے انچارج ہیں۔ اس میں انھوں نے انڈین پائلٹ کی واپسی کرتار پور راہداری کا حوالہ بھی دیا۔

بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے کسی سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ وہ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور سوالات بھی یہیں سے شروع ہوئے کہ ملک میں جو سیاسی تنازع چل رہا ہے جس میں سیاست دانوں کی عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں ہیں اور وزیراعظم کی کابینہ کے وزیر کا بیان بھی شامل ہے۔

‘وزیراعظم نے اس حوالے سے بتایا کہ عسکری حکام اور سیاست دانوں کی ملاقات گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے تھی کیونکہ وہاں سکیورٹی خطرات ہیں۔۔ وزیراعظم نے ملاقات میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بھی آپ نے دیکھا کہ جب بھی اپوزیشن سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہوں تو ان کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ ان کو احتساب کے عمل میں کوئی ریلیف ملے۔ اور انھیں کسی قسم کا این آر او دیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جن ملاقاتوں میں قانون سازی کی بات ہوتی ہے اسے اس طرح ذاتی ایجنڈے میں بدلا جاتا ہے اس لیے وہ اس طرح کی بات چیت سے اور شرکت سے احتراز برتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے واضح کیا کہ جو بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ میرے علم میں ہیں۔

رانا جواد بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نے جہاں نواز شریف کی تقریر کا ذکر کیا وہیں مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری پر بھی بات کی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’زرداری اور نواز شریف نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پہنچا دیا ہے اور فوج اس لیے میرا ساتھ دیتی ہے کیونکہ فوج کو پتہ ہے کہ پچھلی حکومتیں کرپٹ تھیں۔ اپنے حوالے وزیراعظم نے کہا کہ وہ کرپشن کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ‘

راشد محمود کہتے ہیں کہ اس ملاقات میں جہاں وزیراعظم نے ملک کی معیشت اور حکومتی اصلاحات پر بات کی وہیں میں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ بہت سے معاشی امور پر بات کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے لوگ ملتے نہیں ہیں اسے ایجنڈا بنا کر اس پر بات نہیں کرتی اور اس پر حکومت کو فوکس کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے معاملے کو تسلیم کیا۔ رانا جواد کہتے ہیں کہ اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت کے پاس فقط چار لوگ ہیں جو معیشت اور فنانس پر بات کر سکتے ہیں۔ خسرو پرویز، حماد اظہر، حفیظ شیخ اور اسد عمر۔

تو کیا میڈیا پر مبینہ طور پر لگنے والی قدغنوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بات ہوئی۔

رانا جواد نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا کہ `پاکستان میں میڈیا کو بہت آزادای ہے اور پچھلے دو سال سے جب سے میری حکومت ہے مجھے ہی سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا نے ہی انھیں بنایا ہے اور میری آواز کو اٹھایا۔`

تاہم وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اظہارے رائے کی آزادی کو ذمہ داری کے ساتھ نہیں نبھایا جا رہا۔

فحاشی اور سیکس کرائم کی وجہ انڈین اور انگریزی فلمیں

کیا اس ملاقات میں شعبہ نیوز سے منسلک افراد سے موٹر وے پر ریپ اور جرائم کی بڑھتی تعداد پر بات ہوئی؟

وزیراعظم نے نیوز ڈائریکٹرز کو بتایا کہ پاکستان میں عریانی، فحاشی اور سیکس کرائم بڑھ گیا ہے اس کی وجہ انڈین فلمیں اور انگریزی فلمیں ہیں۔

اس ضمن میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے احیا کے لیے انھوں نے جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ سے کہا ہے کہ وہ اس کا ایک کاؤنٹر کلچر بیانیہ جاری کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp