چین اور انڈیا تنازع: کیاانڈیا تعلقات میں بہتری امید پر تبت کارڈ استعمال کرنے میں ہچکچا رہا ہے؟


تبت پر مظاہرہ

Getty Images
</figure>انڈیا اور چین کے فوجی ہمالیہ کی پہاڑی چوٹیوں کے انتہائی دشوار علاقے میں سرد ترین موسمی حالات میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں جبکہ انڈیا کا قوم پرست میڈیا حکومت پر زور ڈال رہا ہے کہ تیت کے تنازع کو زندہ کر کے سفارتی محاذ پر تازہ جھگڑے کو تیز کیا جائے۔

انڈیا کی حکومت جس کی چین کی جارحانہ سفارت کاری کے سامنے ماضی میں بہت کم چلی ہے ابھی تک میڈیا کی طرف سے تبت کے مسئلہ کو اٹھانے کے مطالبوں کو بظاہر نظر انداز کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی طرف سے رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں کی مخالفت، پاکستان میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف اقدامات کو رکوانے اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے متنازع علاقوں میں انڈیا کے احتجاج کے باوجود ترقیاتی منصوبوں میں چین کی مدد، چین کی طرف سے جارحانہ سفارت کاری کی چند مثالیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور انڈیا کے سرحدی تنازع میں تبت کا کیا کردار ہے؟

چین کا مارشل آرٹ ٹرینرز کو تبت بھیجنے کا فیصلہ، انڈیا بھی ’جواب دینے کے لیے تیار‘

سنکیانگ کی طرح تبت میں بھی چین وسیع پیمانے پر لوگوں کو ’تربیتی‘ کیمپ میں ڈال رہا ہے

چینی صدر کا ’نئے جدید سوشلسٹ تبت‘ کی تعمیر کا اعلان

ان سب کے باوجود انڈیا میں بہت سے فوجی اور خارجہ پالیسی کے مبصرین چین سے تیزی سے بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں تبت کے مسئلہ کی ایک ایسے تنازع کے طور پر نشاندہی کر رہے ہیں جس پر انڈیا سفارتی کاری کے محاذ پر بڑی آسانی سے پیش قدمی کر سکتا ہے۔

تبت کے معاملے پر انڈیا کی مشکل

سنہ 1950 میں چین کی طرف سے تبت میں فوج اترا کر اس خطے پر اپنی ملکیت کے دعوے کو عملی شکل دینے کے معاملے پر انڈیا نے تاریخی طور پر خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ اس خاموشی کے باوجود انڈیا نے تبت کے لوگوں کو بڑی تعداد میں اپنے علاقوں میں پناہ لینے کی اجازت دی جس میں ان کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ بھی شامل تھے۔ نئی دہلی کی پالیسی میں اس تضاد کی ایک بڑی وجہ دونوں ملکوں کی فوج قوت اور معاشی ترقی کی رفتار میں بڑا واضح فرق تھا۔

انڈیا میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار شیشادری چاری کے مطابق انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سنہ 1950 میں برطانوی حکومت کے مشورے پر چین کے دعوے کو تسلیم کر لیا تھا۔ برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ تبت کی آزادی کو تسلیم کرنا مشکل ہو جائے گا۔

انڈیا ماسکو

EPA
ماسکو میں بھی انڈیا اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات ہوئے

چاری نے ‘دی پرنٹ’ نامی ویب سائٹ پر اپنے ایک تبصرے میں لکھا کہ فوجی عدم توازن کی وجہ سے نہرو نے انڈیا کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے اور چین سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے چین کے دعوے کو تسلیم کر لیا۔

آئندہ آنے والے برسوں اور دہائیوں میں انڈیا نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کی پالیسی کو جاری رکھا اور انڈیا میں جو بھی حکومت آئی اس نے تبت کی قیادت کے ساتھ اپنے روابط کو محدود رکھا۔

چین کو اس حساس معاملے پر ناراض نہ کرنے کی وجہ نریندر مودی کی حکومت نے سنہ 2018 میں سرکردہ سیاست دانوں اور اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ تبت سے متعلق کسی تقریب یا سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔

اس کے ساتھ ہی تبت کی جلا وطن حکومت نے دلائی لامہ کی جلاوطنی کے 60 سال مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کو نئی دہلی سے شمالی ریاست ہماچل پردیس کے دارالخلافے دھرم شالا منتقل کر دیا۔ انڈیا کی دونوں بڑی جماعتوں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے رہنماؤں نے اس تقریب میں شرکت کرنے کے دعوت نامہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔

چین کے امور پر انڈیا کے معروف تجزیہ نگار بھرما چلانے نے کانگریس کے رہنما نہرو اور ان کے بعد بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو مور د الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ تبت کے معاملے پر چین کو جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 1954 میں نہرو تبت پر قابض چین کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے انڈیا کے اس خطے پر اپنے دعوئے سے دستبردار ہو گئے، سنہ 2003 میں واجپائی نے باضابط طور پر تبت کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا اور سنہ 2018 میں مودی نے دلائی لاما اور تبت کی جلاوطن حکومت سے تمام سرکاری روابط منقطع کر لیے۔

چلانے کا کہنا تھا کہ کیا تاریخ ان تینوں کو معاف کر دے گی۔

پالیسی میں تبدیلی کے مطالبے

انڈیا کے ذرائع ابلاغ کے بڑے اداروں کے مطابق تبت چین کے خلاف انڈیا کی جارحانہ سفارت کاری میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر انڈیا کے ہندی زبان میں شائع ہونے والے بڑے اخبار نے چھ ستمبر کو اپنے ایک اداریے میں لکھا کہ امریکہ کی طرح انڈیا کو تبت کے معاملے پر للکارنا چاہیے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ ‘یہ سب سے زیادہ مناسب وقت ہے کہ انڈیا بین الاقوامی سطح پر اپنی آواز اٹھائے اور چین سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ تبت خالی کر دے۔ جارحانہ سفارت کاری مغرور چین کے خلاف ضروری ہے کیونکہ وہ امن اور دوستی کی زبان سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔’

انڈیا کے مقبول ٹی وی چینلوں رپبلک ٹی وی اور انڈیا ٹوڈے نے بھی اسی نوعیت کے تبصرے نشر کیے جن میں تبت کی جلاوطن حکومت کے سربراہ لوبسنگھ سنگے سے انٹرویو بھی شامل ہے۔

سنگے نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ تبت کے لوگوں کو انڈیا کی حکومت اور لوگوں کی طرف سے بھرپور حمایت ملی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح چین تبت کو اپنے لیے ایک اہم مسئلہ قرار دیتا ہے بالکل اسی طرح انڈیا کو بھی اس اپنے اہم مسائل کی طرح اٹھانا چاہیے اور چین سے اس کے لیے تصفیہ کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔

مزید اسی بارے میں

کیا چین انڈیا جنگ میں پاکستان غیر جانبدار تھا؟

لداخ کشیدگی: چین اور انڈیا کے درمیان فوجی مذاکرات کا چوتھا دور منگل کو

انڈیا چین تنازع: کیا انڈیا کے مقابلے میں چین بہتر پوزیشن میں ہے؟

کیا انڈیا کا کوئی برتری حاصل ہے

انڈیا کی حکومت جس نے چین کے خلاف مختلف معاشی اقدامات اٹھائے ہیں اس نے اب تک تبت کے بارے میں اپنی پالیسی کی تبدیلی کے بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔

تاہم کچھ ذرائع ابلاغ کی طرف سے انڈیا کی طرف سے چین کے ساتھ سرحدوں پر سپیشل فرنٹیئر فورس (ایس ایف ایف) جو انڈیا کی فوج میں تبت سے بھرتی کیے گئے خصوصی دستوں پر مشتمل ہے کو تعینات کیے جانے کو چین کے لیے ایک پیغام قرار دیا جا رہا ہے۔

میڈیا نے چین کی سرحد پر حال ہی میں ایک حادثاتی دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایس ایس ایف کے جوان کے جنازے میں سات ستمبر کو بی جے پی کے سیاست دان رام مداہو کی شرکت کو خصوصی کوریج دی۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ مداہو کی شرکت بھی چین کے لیے ایک پیغام تھا۔

بی جے پی کے سیاست دان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ‘ایس ایف ایف کے کمپنی کمانڈر کے جنازے میں شرکت کی، تبت کے ایک شہری جس نے لداخ میں سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے جان دی۔ کاش اس بہادر فوجی کی قربانی سے تبت اور انڈیا کی سرحد پر امن قائم ہو جائے۔ اور یہ اس شہید کو اصلی خراج عقدیت ہو گا۔

مداہو نے بعد میں یہ پغام ‘ڈیلیٹ’ کر دیا۔

اس طرح کے نیم دلانہ اقدامات سے ظاہر ہوت ہے کہ مودی کی حکومت پوری طرح تبت کے مسئلہ کو ایک ایسے وقت اٹھانے پر تیار نہیں ہے جب چین اپنے مبینہ توسیع پسندانہ رویے پر پوری دنیا کی مخالفت کے لیے ڈٹا ہوا ہے۔

نئی دہلی شاید چین سے اپنے تعلقات میں بہتری کی توقع میں تبت کا کارڈ ابھی تک استعمال نہیں کر رہا۔ موبائل فون کی اپلیکیشن پر پابندی اٹھانا آسان ہو گا لیکن ستر سال سے جاری تبت کے بارے میں پالیسی کو بدل کر دوبارہ قلیل مدت میں واپس اپنانا ممکن نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp