انصار عباسی بھی ریپ شیپ کی شکایت کرنے کے قائل نہیں


ویک اینڈ کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت خوبصورت شام تھی لیکن مجھ سے بڑی سستی ہوئی۔ کمپیوٹر کے ساتھ چپکا رہا اور اٹھ کر کچن تک بھی نہیں گیا۔ نتیجہ یہ کہ سکون کے چند لمحے بھی ہاتھ نہ آئے اور شام حقیقی ماحول میں گزار دی۔ اپنی تعلیم و تربیت کے لیے انصار عباسی صاحب کے ٹویٹر پر گیا کہ فحاشی اور عریانی کے موضوع پر ان کا ٹویٹ تو دیکھوں لیکن ابھی وہاں پہنچا ہی نہیں تھا کہ عباسی صاحب کا بالکل تازہ ولاگ سامنے آ گیا۔ فحاشی اور عریانی کے موضوع پر اس ولاگ میں جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ صاحب کا ذکر پہلے چار منٹ تک کہیں نہیں تھا۔

انصار عباسی صاحب نے بتایا کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب پاکستان میں فحاشی اور عریانی کے بہت بڑے مخالف ہیں لیکن وہ، یعنی جنرل صاحب، مایوس نہیں ہیں۔ جنرل صاحب کا حوصلہ وزیراعظم صاحب کی باتوں کی وجہ سے بلند ہے۔ وزیراعظم صاحب پرعزم ہیں کہ وہ پاکستان سے فحاشی اور عریانی کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ جنرل صاحب کا اس بات پر خوش ہونا ان کے نیک آدمی اور اچھے مسلمان ہونے کی بہت مضبوط دلیل ہے۔ اور اس سلسلے میں جنرل صاحب نے عباسی کو ملاقات کے لیے بلایا تھا۔

دونوں نے ایک دوسرے کے خیالات کی جی بھر کر تعریف کی اور ثواب کمایا۔ عباسی صاحب نے جنرل صاحب کو تسلی دی کہ آپ جب ٹی وی پر عریانی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے کام شروع کریں گے تو کچھ پرائیویٹ ٹی وی چینل آپ کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا بھی شروع کر دیں گے لیکن آپ ان سے بالکل نہ گھبرائیں اور اپنے کام پر ڈٹ جائیں کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ایک آزمودہ نسخہ بھی ہے کہ ہم فحاشی اور عریانی کے خلاف بات کر کے اپنا کھویا ہوا امیج واپس لا سکتے ہیں۔

عباسی صاحب نے عورتوں کے حقوق پر مزید بات چیت کی اور ان کے خلاف جو ریپ شیپ ہو جاتے ہیں اس کا ذکر بھی کیا۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے ریپ جیسے جرم کو ریپ شیپ کہہ کر انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب منور حسن صاحب کے نظریات کے قائل ہیں جنہوں نے عورتوں کو یہ مشورہ ٹی وی پر دیا تھا کہ اگر آپ چار ایماندار مردوں کے سامنے ریپ نہیں کروا سکتیں تو پھر کم از کم اپنا منہ بند رکھیں۔ تھانے یا عدالت جا کر واویلا مچائیں نہ مزید بے عزتی کرائیں۔ عباسی صاحب بھی ریپ شیپ کی شکایت کرنے کے قائل نہیں ہیں اور اسے سی پیک کے خلاف دیسی لبرل کی سازش ہی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے عورتوں کے حقوق پر مزید بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹی وی والے عورتوں کو نچا کر پیسے کماتے ہیں۔ انہیں شرم آنی چاہیے کہ جو ناچ رہی ہے وہ بھی کسی کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہو سکتی ہے۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ ایسی عورتوں کو نچائیں جو کسی مرد کی رشتہ دار نہ ہوں۔ اس فقرے سے انہوں نے دیسی لبرلز کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ عورت کے بحیثیت انسان تو کوئی حقوق نہیں ہیں لیکن ان رشتوں کے اندر وہ کسی رعایت کی حقدار ہو سکتی ہے۔

عباسی صاحب نے یقیناً بڑے اہم مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ پاکستانی ٹی وی پر فحاشی اور عریانی ہی کی وجہ سے پاکستان میں اتنی غربت ہے، تعلیم کا معیار انتہائی گھٹیا ہے، ہسپتال گندے اور ناکافی ہیں، دوائیاں اور خوراک ملاوٹ سے اٹی ہوئی ہیں۔ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ لاکھوں ماؤں کے پاس فیملی پلانگ کی سہولت ہے نہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی جس وجہ سے انہوں نے اپنے بچوں کو مدرسوں کے عذاب میں دھکیل کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

ملک میں بے پناہ جھوٹ ہونے کی وجہ سے کسی کو ہم پر ٹرسٹ نہیں ہے۔ چوری سے پہلے ہی پولیس کو چور کا علم ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ریزلٹ طے ہوتے ہیں۔ فرقہ واریت ہے۔ انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، جنس اور مذہب کی بنیاد پر بے پناہ تفرق ہے۔ یہاں قائداعظم کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں کی جانے والی تقریر ڈرامہ اور ترکی کا ڈرامہ ارطغرل ہماری تاریخ ہے۔ یہ سب مسائل صرف اس لیے ہیں کہ ہمارا ٹی وی فحاشی اور عریانی دکھاتا ہے۔ ہمارے ٹی وی پر برقع پہنے بغیر کوئی عورت نہ آئے تو یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ عباسی صاحب پاکستان کی پسماندگی کے مسئلے کو جڑ سے پکڑنے کا بہت شکریہ۔ دنیا کے صرف انہی ممالک نے ترقی کی ہے جن کے ٹی وی پر عورتوں کو فحاشی پھیلانے کی اجازت نہیں۔ سوچنا صرف منع ہی نہیں گناہ بھی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik