شکست سے کیا سیکھا؟


صبح 7 بجے آل انڈیا ریڈیو اردو سروس نے 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کا اعلان کیا۔ مغربی پاکستان میں مٹھی بھر افراد کے علاوہ زیادہ تر نے ہندوستانی ”پروپیگنڈا“ سمجھ کر اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ ریڈیو پاکستان اب بھی قومی ترانے چلا کر قوم سہانے خواب دکھلا رہا تھا۔ خون کے آخری قطرے تک مغربی محاذ پر لڑنے کے اعلانات کے ساتھ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے جا رہے تھے۔

قوم کے لئے ایک واضح شکست تھی مگر فوجی اور سول بیوروکریسی خیال تھا کہ اس نے ملک کے مغربی حصے کو بنگالیوں کے قبضے سے بچا لیا تھا۔ یہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی تھی۔

عوام کے نمائندوں کو اختیارات سونپنا ایک شکست سمجھا جاتا ہے۔ جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں فوجی بیوروکریسی کے لئے نہ تو ہزاروں پاکستانیوں کی ہلاکت اور نہ ہی 90، 000 فوجی اور سول افراد کا ہتھیار ڈالنے اور جنگی قیدی بننے کی کوئی اہمیت تھی۔

ڈھاکہ کے سقوط کی کہانی یوں تو آزادی کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی لیکن جس واقعہ نے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا وہ 1965 میں ہندوستان کے ساتھ جنگ تھی۔ یہ جنگ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی سخت نا مقبولیت کے تاثر کو دور کرنے کے لیے شروع کی گئی تا کہ ایوب کے اقتدار کو دوام حاصل ہو۔ 1965 کی جنگ نے پاک سیاست میں بہت سارے تاثرات، تمثیلات اور توازن کو بدل دیا۔ بے بس بنگالیوں اور ان کے رہنماؤں نے دیکھا کہ فوجی اشرافیہ کو صرف اس علاقے یعنی مغربی پاکستان کی فکر لاحق ہے جس کو وہ اپنا اصل علاقہ سمجھتی ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں مجیب کے چھ نکات سامنے آئے جو ایک ایسا سیاسی پروگرام تھا جس نے 1970 کے انتخابات میں بنگالیوں کو متحد کیا اور انہوں نے متفقہ طور پر اپنے قومی حقوق کے لیے سیاسی طور پر نمٹنے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 1970 میں ایک دھواں دار انتخابی مہم دیکھی گئی۔ مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم کے نتیجے میں شیخ مجیب کے قوم پرست نعروں کو زبردست مقبولیت ملی اور اس پر ایک قدرتی آفت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بھٹو نے سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل کی۔ دو مختلف جماعتوں نے ملک کے دو الگ الگ حصوں میں اکثریت کا دعوی کیا۔ سیاسی بساط کے تین سفاک کھلاڑیوں، جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان ایک خونی کھیل شروع ہو گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مجیب کا چھ نکاتی ایجنڈا بنیادی طور پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے ہی تیار کیا گیا تھا اور اس کے نفاذ کے نتیجے میں پاکستان کو بالآخر موجودہ شکل میں باقی نہیں رہنا تھا۔ مشرقی پاکستان کے پاکستان سے علیحدگی کے لئے شیخ مجیب جو کچھ سامنے لے لائے تھے وہ ایک واضح ایجنڈا تھا۔ اس پروگرام میں دو کرنسیوں، دو دارالحکومتوں، اور دو مرکزی بینکوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بصیرت رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں، فوج اور بھٹو نے مجیب کے ہدف کا صحیح اندازہ کیا۔

لیکن ایک سیاسی پروگرام کا ہونا اور اس پر مکمل عمل درآمد کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ بنگالیوں میں اس وقت بھی پاکستان کے حامی مضبوط دھارے موجود تھے۔ بنگالی متوسط ​​طبقے کو مغربی پاکستان کے اشرافیہ سے شدید شکایات تھیں لیکن اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ وہ پاکستان سے علیحدگی کے لئے تیار تھے۔ ممکنہ صورتحال میں فوج نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہوگا کہ اگر مجیب پہلی بار کامیاب نہیں ہوا تو بالآخر اگلے مرحلے میں ایک آزاد مشرقی پاکستان ضرور بن جائے گا۔

یہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی واضح وجہ تھی۔

بھٹو کا اعلان جسے عباس اطہر نے ”ادھر ہم، ادھر تم“ کی سرخی سے بیان کیا، کوئی جذباتی نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ فوج کے لئے ایک اشارہ تھا کہ وہ فوج کے لئے خدمت کرنے کو تیار ہیں۔ مجیب کے لئے یہ بھی اشارہ تھا کہ آگے کیا ہونا ہے۔ مجیب نے یہ اشارہ سمجھ لیا۔ فوج اور مجیب کے درمیان کبھی کوئی سنجیدہ مذاکرات نہیں ہوئے۔ عوامی لیگ کی قیادت نے ہندوستان کی طرف جانا شروع کیا، اور جب آخر کار فوجی کارروائی شروع ہوئی تو عوامی لیگ کے بیشتر رہنما گرفتاری سے بچ گئے۔ مجیب واحد رہنما تھے جنہیں فوج نے گرفتار کیا تھا۔

بنگالی شورش کو ختم کرنے کے لئے فوجی حکومت نے دو طرفہ حکمت عملی استعمال کی۔ پہلے ڈھاکہ یونیورسٹی سمیت شہری درمیانے طبقے کے علاقوں میں پرتشدد کارروائی کا آغاز کیا گیا اور مجیب کی حمایت کو توڑنے کے لئے شہری متوسط ​​طبقے کو سختی سے ڈرایا گیا جس کا مقصد شہری آبادی کو احتجاج سے دور رہنے پر مجبور کرنا تھا۔ دوئم، فوجی حکومت نے دیہی علاقوں میں شدید خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا۔ اس اقدام نے لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ پر امن ہندو اقلیت کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک بڑی آبادی خوف کے سبب ہمسایہ ملک ہندوستان کی طرف جان بچانے کے لئے روانہ ہو گئی۔ لاکھوں مہاجرین بالآخر ہندوستان کی مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنے۔

بھارتی فوج کی مداخلت کے بعد مشرقی پاکستان سے نکلنا فوجی بیوروکریسی کے 16 دسمبر 1971 کو زوال سے شاید پہلے ہی سے پروگرام کا حصہ تھا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فوجی اشرافیہ سیاسی مسائل سے نمٹنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ جانتی ہے۔ فوجی اقدامات بہت سارے سیاسی راستوں کی موجودگی کے باوجود استعمال کیے گئے نتیجتاً پاکستان کو فوجی شکست کے ساتھ سیاسی ہزیمت بھی برداشت کرنی پڑی۔ بد ترین المیہ تو یہ ہے کہ اس قومی شکست کے بعد بھی ہم ووٹ اور عوامی رائے کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).