بچوں والی عصمت


منٹو سے کسی نے پوچھا تھا کہ عصمت نے آپ سے شادی کیوں نہیں کی۔ منٹو اور عصمت یہ دونوں ہستیاں مل جاتیں تو الگ ہی افسانوی دنیا بس جاتی۔ میں یہی سوال اپنے عزیز دوست شعبان سے کرتا ہوں کہ عصمت نے آپ سے شادی کیوں نہیں کی؟ شعبان اور عصمت شادی کے بندھن میں بندھ جاتے دونوں کی زندگی خوشگوار ہوتی۔ یہ میری سوچ ہے کہ دونوں خوش رہتے وجہ یہ ہے کہ دونوں نے بچپن اکٹھے گزارہ، دونوں کی سوچ اور فکر ایک جیسی تھی۔

دونوں ایم۔ اے اردو کر رہے تھے۔ ایک غزل سناتا دوسرا نظم، ایک افسانے کی قرات کرتا تو دوسرا ناول کا قاری بنتا، غرض آپس میں باتوں سے زیادہ شعروں اور مصرعوں میں تبادلہ خیال کرتے۔ اب یہ خیال بیکار ہے یہ بہت پہلے میرا ذہن سوچتا تھا اب مجھے ایسے خیالات نہیں آتے اور اب یہ سوال بھی لایعنی ہے۔ سنا ہے کہ عصمت کی شادی ہو گئی ہے اب وہ کسی اور کی عصمت ہے اور شعبان، شعبان کا کیا ہے ابھی کنوارہ ہے اور امید ہے کہ کنوارہ ہی مرے گا۔ عصمت نے شادی سے پہلے مجھے لکھا تھا کہ ”میں تو کو بھی ٹاک سا“ شادی پہ بلانا تو درکنار جب سے شادی کی تب سے مجھ سے ”ٹاک“ تک نہیں کی۔ اس کا کس کو افسوس ہے کہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی، پہلے کون سی ہم دونوں کے درمیان ہر روز باتیں ہوا کرتی تھی۔

عصمت کا تعلق اوڑی سے تھا ان سے ملاقات شعبان کے توسط سے شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں ہوئی۔ مخروطی شکل، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، عمدہ لباس، دوپٹہ عجیب نزاکت سے اوڑھا تھا میں نے اس سے پہلے یہ وضع نہیں دیکھی تھی، رکھ رکھاؤ سے خوب واقف تھی، شکل صورت کی اچھی، بہتر ہے کہ خوبصورت کہا جائے۔ لباس کون زیب تن نہیں کرتا پہناوے کا سلیقہ اور طریقہ آنا چاہیے۔ اس سلیقے اور طریقے سے عصمت خوب واقف تھی۔ جب بات کرتی تھی تو ناک کی آواز نمایاں رہتی۔ باتوں میں جو ناک کی ہلکی سی سانس آواز میں شامل ہوتی وہ نہایت بھلی سنے میں لگتی۔ آواز سریلی تھی اپنی سریلی آواز میں پہاڑی اور کشمیری کے ملے جلے لہجے میں کشمیری گانا ”ڈوپٹہ گومے آبس دریاوس ترن ترن“ کلاس میں گایا تھا اس کو کون بھول سکتا ہے۔

شعبان سے میری پہلی ملاقات کشمیر یونیورسٹی میں ہوئی ہمارا رشتہ دوستی یاری تک محدود نہیں رہا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ میرا بھائی بن گیا۔ میں شعبان کا ذکر کرتا ہوں تو عصمت کا ذکر آتا ہے عصمت کا ذکر کروں تو شعبان کی بہت ساری یادیں خودبخود ذہن پہ دستک دیتی ہیں۔ میں اور شعبان شعبہ اردو کے باہر پارک میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک لڑکی ”شعبان بھیا شعبان بھیا“ کہتے ہوئے قریب آئی۔ شعبان نے بتایا کہ یہ عصمت ہے میری کزن۔ اوڑی والے رشتوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں بھلے ہی دور دراز کے ہوں۔ شاید عصمت شعبان کی کزن نہیں بلکہ دور دراز کے رشتے میں تھی۔ مجھے رشتہ دار کم دوست زیادہ لگتی تھی۔ اکثر یونیورسٹی دونوں گھر سے اکٹھے آتے اور واپس اکٹھے گھر جاتے۔

ہر نسوانی آواز سننے میں بھلی لگتی ہے اور بعض آوازوں سے انسان اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ ان آوازوں سے عشق ہوجاتا ہے۔ ریڈیو پہ آپ کسی کی میٹھی آواز سنتے ہیں آپ بولنے والے کا چہرہ نہیں دیکھ پاتے صرف آواز سنائی دیتی ہے اور آپ اس آواز کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ بعض آوازیں بہت پسند کرنے کے قابل ہوتی ہیں عصمت کی آواز بھی کانوں میں رس گھولتی تھی۔ اپنی سریلی آواز میں مجھے پکارتی ”معشوق بھیا“ مجھے بہت اچھا لگتا تھا حالانکہ جوان اور خوبصورت لڑکی کسی کو بھیا کہہ کر مخاطب کرے بچارے کو افسوس ہوتا ہو گا کہ ہٹلر اس دور میں کیوں نہیں ہے اور یہ اس کی نظر میں کیوں نہ آئی۔

ایسے بھی لوگ ہیں جو رشتہ بنانے کے لیے لفظ ”بھیا“ اور ”بہنا“ کا سہارا لیتے ہیں بعد میں کوئی اور ہی رشتہ نکل آتا ہے لیکن عصمت کی میں زبان سے نہیں بلکہ دل سے عزت کرتا تھا اور لفظ بھیا کی لاج رکھتا تھا۔ اور شاید اب بھی ان کا میرے دل میں وہی مقام ہے جو پہلے تھا۔ لیکن صرف اتنا ہے کہ اب ان کی شکل غور کرنے پہ ہی یاد آتی ہے۔ کسی کو بھول جانا بڑی بات ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑی بات کسی کو یاد رکھنا ہوتا ہے مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں کم ہی سرزد ہوتی ہیں۔

جب یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے تو بہت سارے احباب نے اس اقرار نامے پہ دستخط کیے تھے کہ چاہیے کچھ بھی ہو جائے ایک دوسرے کے حال سے واقف رہا کریں گئے۔ وعدے اور ارادے کیے گئے تھے کچھ وعدے توڑنے کے لیے ہی ہوتے ہیں ہاں البتہ ارادے زندہ رہتے ہیں اور کسی حد تک کوئی ارادہ نبھایا بھی جاتا ہے۔ یونیورسٹی سے نکلے آٹھ نو سال ہونے کو آئے تب سے کبھی عصمت سے ملاقات نہیں ہوئی صرف عصمت کے بارے میں مختلف خبریں سننے کو ملتی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اب خالی عصمت نہیں رہی بلکہ بچوں والی عصمت بن گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).