سویٹی : ٹونی ماریسن کی ایک کہانی


میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے؟ مجھ پر تم لوگ کیوں الزام دھر رہے ہو؟ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھے پتہ نہیں یہ کیسے ہو گیا؟ کیوں ہو گیا؟ بس اتنا معلوم ہے کہ اس کی پیدائش کے آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کوئی بہت بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ بڑا غضب ہو گیا ہے۔ بچی کا رنگ اتنا کالا تھا کہ میں بری طرح سے ڈر گئی تھی۔ آدھی رات کی طرح کالا۔ کولتار کی طرح کالا۔ حبشیوں کی طرح کالا۔

میری اپنی رنگت سفید نہ سہی، کم از کم گندمی تو ہے۔ بچی کے باپ کا رنگ بھی خاصا کھلتا ہوا ہے۔ میرے بال بھی بہت گھنے گھنگریالے نہیں۔ لیکن یہ بچی، یہ تو بالکل سیاہ بھٹ تھی۔

ہمارے سارے خاندان میں کوئی اور اتنا گاڑھا کالا نہیں تھا۔ میری نانی تو اتنے صاف رنگ کی تھی کہ بعض دفعہ لوگوں کو دھوکا ہو جاتا۔ سمجھتے تھے کوئی گوری ہے۔ اسے تو کسی بڑے سٹور میں کوئی کپڑوں کو ہاتھ لگانے سے بھی منع نہیں کرتا تھا۔ سیکورٹی کے لوگ اس کو چور سمجھ کر گھورتے نہیں تھے۔

نانی کو اپنی گوری رنگت کا بڑا مان تھا۔ اس نے تو میری ماں اور خالاؤں سے ملنا جلنا بھی بند کر دیا تھا۔ اپنی بیٹیوں کو خط تک لکھنے کی روا دار نہیں تھی۔ جب بھی میری ماں اسے کوئی خط لکھتی تو وہ بغیر کھولے ڈاک سے واپس کروا دیتی۔ مرتے دم تک اس نے اپنی بیٹیوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

حالانکہ میری ماں کی رنگت بھی نانی کی طرح خاصی صاف تھی لیکن اس نے اپنی پہچان نیگرو نسل ہی کی رکھی جس کی اسے بہت مہنگی قیمت چکانی پڑی۔ بہت سی ذلتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وہ اپنی شادی کی رجسٹریشن کے لئے سٹی ہال گئی تو وہاں دو بائیبل رکھی تھیں۔ ایک گورے اور دوسری کالے لوگوں کے لئے۔ میرے ماں اور باپ کو نیگرو بائیبل پر ہاتھ رکھ کر شادی کا حلف اٹھانا پڑا۔ اندازہ کرو اس سے زیادہ بکواس بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ میری ماں ایک امیر گھرانے کے ہاں ملازم تھی جہاں وہ ان کے لئے کھانا پکاتی، مالکن کی کمر دباتی، اسے نہلاتی دھلاتی، گھر گرستی کی ہر چیز کی صفائی ستھرائی کرتی، جس چیز کو چاہے ہاتھ لگاتی۔ لیکن گوروں کی بائیبل کو نہیں چھو سکتی تھی؟ کیا بیہودگی ہے؟

تم لوگ سوچتے تو ہو گے کہ ہم خود کیوں نیگرو نسل میں صاف اور کالی رنگت میں اتنا فرق کرتے ہیں؟ اگر یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ میری ماں اپنی صاف جلد کی وجہ سے اس روز مرہ کی ذلت سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتی تھی جو زیادہ کالی رنگت والو ں کو پیش آتی ہے۔ جن کے منہ پر کئی دفعہ گورے لوگ تھوکنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ جو فٹ پاتھ پر سامنے سے کسی گورے کو آتے دیکھیں تو انہیں نالی میں اتر کر چلنا پڑتا ہے۔ اور جو ہر دم کی گالم گلوچ ہے، وہ تو خیر ہے ہی۔

نرس نے میری بیٹی کو پیدا ہوتے ہیں میری چھاتی پر لٹایا۔ اکثر نئے پیدا ہوئے بچوں کی طرح اس کی جلد بھی پیلی سی تھی۔ لیکن تم میری گھبراہٹ کا اندازہ کرو جب میری آنکھوں کے سامنے ہی اس کی رنگت بدلنی شروع ہو گئی۔ اسی دن شام تک وہ بالکل نیلی کالی ہو چکی تھی۔ کہنا تو نہیں چاہیے مگر مجھے اسے دیکھ دیکھ کر شرم آ رہی تھی اور غصہ بھی۔ میں نے تو ایک لمحے کے لئے کمبل سے اس کا منہ ڈھانپ کر اس کا سانس بھی دبائے رکھا لیکن پھر خوف زدہ ہو کر چھوڑ دیا۔ میں اسے مار تو نہیں سکتی تھی۔ آخر تھی تو میری ہی اولاد۔

میں نے اسے یتیم خانے کو دینے کے بارے میں سوچا۔ مجھے ان ماؤں کا خیال بھی آیا جو اپنے بچوں کو رات کے اندھیرے میں چرچ کی سیڑھیوں پر چھوڑ جاتی ہیں۔

میرا شوہر، بچی کا باپ، دوسرے کالوں کی طرح بات بات پر فحش زبان استعمال نہیں کرتا تھا۔ مگر جب وہ اگلے دن ہسپتال میں مجھے ملنے آیا تو ایک نظر دیکھتے ہی سب نرسوں کے سامنے گالی دے کر کہا کہ یہ کیا منحوس چیز پیدا کی تم نے؟

ہماری شادی کو تین سال ہو چکے تھے لیکن بچی کی پیدائش کے بعد شادی تین مہینے بھی نہیں چلی۔ اس نے بچی کو گود میں کیا لینا، اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا لگتا جیسے وہ بچی کو اجنبی ہی نہیں بلکہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ میں اسے کبھی قائل نہ کر سکی کہ یہ اس کی اپنی بیٹی ہے۔ وہ یہی سمجھتا رہا کہ میرا کسی اور سے تعلق رہا ہے۔ ہم میں روز روز لڑائیاں ہونے لگیں۔ ایک دن میں نے بھی غصے میں کہہ دیا کہ بچی کا کالا رنگ اس کے اپنے خاندان کی طرف سے آیا ہو گا۔ اس دن وہ گھر سے نکلا اور دوبارہ واپس نہیں لوٹا۔

میں نے کوئی سستا سا اپارٹمنٹ کرائے پر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ میں بیٹی کو ساتھ لے کر نہیں جاتی تھی ورنہ اس کی کالش دیکھ کر مالک مکان مجھے بلڈنگ میں بھی نہ گھسنے دیتا۔ بڑی مشکل سے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر ملا۔

میں گھر سے بہت کم باہر نکلتی۔ کبھی بیٹی کو سٹرولر میں لے جاتی تو اکثر عورتیں دور سے مجھے دیکھ کر مسکراتیں اور نزدیک آ کر بچی کو دیکھنا چاہتیں۔ جیسے ہی ان کی نظر بچی پر پڑتی ایک جھٹکے سے وہ پیچھے ہٹ جاتیں۔ کچھ تو اس کا رنگ دیکھ کر زور سے چیخ پڑتیں۔ اگر بچی سفید، اور میں سیاہ، ہوتی تو شاید وہ مجھے اس کی آیا سمجھ کر در گزر کر دیتیں۔ لیکن کالی بچی کی کون سفید عورت آیا ہو سکتی ہے؟

جب میری بیٹی ذرا بڑی ہوئی تو میں نے اسے کہا مجھے ماما یا ممی کی بجائے سویٹی کہا کرے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے سب کے سامنے ماں کہے اور میں اس کی رنگت، موٹے موٹے ہونٹوں، اور کوئلے جیسی کالی آنکھوں کی وجہ سے دیکھنے والوں کے تجسس سے بھرے سوالوں کے جواب دیتی پھروں۔

کافی عرصے تک صرف ہم دونوں ماں بیٹی ہی ساتھ رہے۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ رد کی ہوئی بیوی کی زندگی کوئی کھیل نہیں۔ کچھ عرصے تک کھانے تک کے لالے پڑے رہے۔ بعد میں میرے میاں نے مجھے ہر مہینے پچاس ڈالر بھجوانے شروع کر دیے تھے۔ شاید میرے ساتھ زیادتی پر اس کے ضمیر نے ملامت کی ہو۔ اسی رقم کے طفیل مجھے سرکاری ویلفئیر لینے سے نجات مل گئی تھی۔ ویلفئیر کے دفتر کے کلرکوں سے گالیاں سنتے سنتے میں تنگ آ گئی تھی۔ وہ کالی عورتوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے تھے۔ شاید میں غلط کہہ رہی ہوں۔ کتوں سے تو سفید لوگ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔

جب مجھے ایک گھریلو ملازمہ کی نوکری مل گئی تو میرے حالات خاصے بہتر ہو گئے۔ اب میں ان گورے، کوڑے پر پھینکنے کے قابل، کلرکوں سے زیادہ پیسے کمانے لگی تھی۔ لیکن مجھے ہمیشہ بہت محتاط رہنا پڑتا۔ اسی لئے میں جولی این کی تربیت خاصی سخت گیری سے کر رہی تھی۔ ارے، میں نے ابھی تک تمہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ میں نے بیٹی کا نام جولی این رکھا تھا۔ بہر حال مجھے ہر ہر قدم پر جولی این کی نگہداشت کرنی پڑتی۔ اسے اکثر باتوں پر ٹوکنا پڑتا۔ اگر وہ سر اٹھا کر چلتی تو میں اسے ڈانٹتی۔ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا کالی جلد والی لڑکی کے لئے صرف مصیبت ہی لا سکتا ہے۔ وہ چاہے جتنا اپنے آپ کو تہذیب یافتہ بنا لے، کالے رنگ کی صلیب تو ساری عمر اسے اٹھائے رکھنا ہی ہو گی۔

اگرچہ میں اس کی کالی رنگت کی ذمہ دار نہیں تھی۔ مجھے کبھی کبھی یہ احساس ضرور ہوتا کہ بچپن میں میں نے اس پر بہت سخت گیری کی۔ اس تمام سختی کے باوجود، میرا مقصد ہر حال میں اس کی حفاظت کرنا تھا۔ اسے دنیا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ جب جلد کی یہ رنگت ہو تو کسی سفید عورت یا مرد کی بات کا تڑاق سے جواب دینا صرف مصیبت کو مول لینا ہے۔

اسے اندازہ تو تھا کہ گورے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، اسے حقیر جانتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ وہ اس کے کالے رنگ سے خوفزدہ بھی تھے۔ میرے علاوہ کون اس کو یہ باتیں سمجھا سکتا تھا؟

میں ایک بری ماں نہیں تھی۔ میں نے شاید کچھ باتیں ایسی کی ہوں گی جس سے میری اکلوتی اولاد کو تکلیف پہنچی، لیکن یہ صرف اس کے بھلے کے لئے تھا۔ بہر حال، آخر میں وہ ٹھیک ٹھاک ہی نکلی۔ سکول میں اچھے نمبر آئے۔ پارٹ ٹائم نوکریاں کر کے اس نے کالج کی تعلیم بھی مکمل کر لی۔ پھر اچھی ملازمت بھی ڈھونڈھ لی۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے دل میں وہ کبھی کبھی سوچتی تو ہو گی کہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ سب اس کے لئے ہی کیا۔

جیسے ہی نوکری ملی اس نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ وہ مجھ سے جتنا دور جا سکتی تھی چلی گئی تھی، مجھے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر۔ وہ کیلیفورنیا جا کر بس گئی تھی۔ وہیں اس نے اپنا کامیاب کیرئیر بنا لیا تھا۔

اب وہ مجھ سے ملنے نہیں آتی۔ لیکن باقاعدگی سے مجھے پیسے بھجواتی ہے اور اکثر تحفے تحائف بھی۔ خدا جانے کتنے عرصے سے میں نے اسے نہیں دیکھا۔ آخری مرتبہ جب وہ مجھ سے ملی تھی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ سفید ڈریس میں کس قدر خوبصورت اور پر اعتماد لگ رہی تھی۔ اس نے اپنی کالی رنگت کو اپنے فائدے کے لئے بڑی عقل سے استعمال کیا تھا۔

ایلفنسٹن پلیس میں میرا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ مجھے سینئیر لوگوں کی یہ رہائش گاہ پسند ہے۔ دونوں وقت نرسیں دیکھنے آتی ہیں۔ ہفتے میں ایک دفعہ ڈاکٹر بھی چکر لگاتا لیتا ہے۔ میں تریسٹھ سال کی ہو گئی ہوں۔ ابھی زندہ رہنے کی تمنا ہے۔ اس نرسنگ ہوم میں بیماری سے زیادہ بوریت میرا مسئلہ ہے۔ نرسیں بہت اچھی ہیں۔ ایک نرس نے ابھی میرے گالوں کو بڑی شفقت سے چوما جب میں نے اسے بتایا کہ میں نانی بننے والی ہوں۔ میں نے اسے چھوٹا سا رقعہ دکھایا جو جولی این نے مجھے لکھا تھا۔

”سویٹی، بوجھو کیا؟ میں اتنی خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔ میں بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ امید ہے تم بھی خوش ہو گی۔“

دستخط میں نام کی جگہ لکھا تھا ”دلہن“

خدا جانے کوئی دلہا بھی تھا یا نہیں؟ اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ پتہ نہیں وہ بھی اسی کی طرح کالا ہے یا کچھ بہتر؟ خیر مجھے کیا؟ اگر ہے بھی تو اسے اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں جتنی مجھے تھی جب جولی این پیدا ہوئی تھی۔

رقعے کے لفافے پر واپسی کا پتہ درج نہیں تھا۔ شاید اس کی نظروں میں ابھی تک میں ایک بری ماں ہوں جس نے اس پر ظلم توڑے ہیں۔ اپنا پتہ چھپا کر وہ مجھے سزا دے رہی ہے۔ ساری عمر تک دیتی رہے گی۔ میرے مرنے تک۔ حالانکہ میری ہر سختی صرف اس کی بہتری کے لئے تھی۔

مجھے معلوم ہے وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔ بچپن میں اس سے جو سلوک میں نے کیا تھا اس کی وجہ سے۔ اب ہمارا رشتہ صرف منی آرڈر تک محدود ہے۔ میں اس کی احسان مند ہوں۔ مجھے پیسے ادھار نہیں مانگنے پڑتے۔ اگر مجھے تاش کے پتوں کا نیا ڈیک چاہیے تو میں خرید لیتی ہوں۔ بجائے ان گندے پھٹے ہوئے پتوں سے کھیلنے کے۔ یا شاید وہ پیسے اس لئے بھی بھجوا دیتی ہو کہ بلآخر اس کا ضمیر بھی تو کبھی کبھی جاگتا ہو گا۔

مجھے صرف ایک ہی پچھتاوا ہے، وہ اس بات کا کہ میں نے اس کے لئے جو کر سکتی تھی نہیں کیا اور وہ کیا جو شاید نہیں کرنا چاہیے تھا۔

مجھے یاد ہے جب اس نے بچپن حدوں کو پھلانگا تھا اور بچی سے ایک عورت بن گئی تھی۔ اس وقت میں نے اسے سہارا دینے کی بجائے اس کے ساتھ کیسا غلط سلوک کیا تھا۔ میں خوف زدہ ہو گئی تھی۔ ایک ابھرتی ہوئی جوان عورت کی ذمہ داری سنبھالنے سے۔

یہ سچ ہے کہ اس کی پیدائش پر میں اس سے نفرت کرتی تھی۔ وہ پیدا ہوتے ہی مر بھی جاتی تو مجھے برا نہ لگتا۔ لیکن بعد میں میں نے اپنی ساری جوانی اس کی حفاظت میں لٹا دی۔ وہ میری زندگی کا محور تھی۔ لیکن اس کا کتنا غلط اثر پڑا۔ بچے کوئی بات بھولتے نہیں۔

اب وہ مجھ سے متنفر ہے۔ مجھے دیکھنے کی روادار نہیں۔ مجھ سے اپنا پتہ چھپاتی ہے۔ مجھے یہ تک معلوم نہیں کہ اس کی شادی ہوئی ہے یا نہیں؟

ہاں میں نے اس پر سختی کی۔ لیکن میں نے اس کی جیسی بھی تربیت کی، کچھ تو صحیح بات کی ہو گی۔ ورنہ وہ اتنی کامیاب کیسے ہوتی؟ ایک کامیاب کیرئیر والی نوجوان نیگرو عورت۔

اب وہ ایک بچے کی ماں بننے والی ہے۔ بہت خوب جولی این۔ اب پتہ چلے گا کہ ماں ہونا صرف بچے کی چوما چاٹی ہی نہیں۔ اس میں بڑے بڑے امتحان آتے ہیں۔ اب تمھاری زندگی میں مامتا کے جھٹکے آنے والے ہیں۔ تمھاری اور شاید تمھارے گمنام شوہر، بوائے فرینڈ، ایک رات کا ساتھی، یا جو کوئی بھی وہ ہے، اس کی زندگی میں، اگر وہ اب بھی تمھاری زندگی کا حصہ ہے تو؟ جولی این بیٹی، اب تمہیں پتہ چلے گا۔ بچے پالنے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ چیتھڑے، پوتڑے دھونے پڑتے ہیں۔ رات گئے دودھ پلانے کے لئے نیندیں حرام کرنی پڑتی ہیں۔ بچہ پالنا کو، کو، کو اور کچی، کچی، کچی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

بہر حال جیسے رہو خوش رہو۔ جولی این۔ خدا تمھاری بچی کی حفاظت کرے۔ خدا یا میری بچی کی حفاظت کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).