اپنا اپنا قید خانہ اور چھوٹے بڑے پنجرے


کراچی کی جیل چورنگی سے گزرنے والے کم ہی لوگ جیل کی بڑی بڑی دیواروں پر غور کرتے ہیں۔ وہاں سے گزرنے والوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ ان دیواروں کے اندر کیسے لوگ رہتے ہیں، ان کی زندگی کیا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ قیدی نام نہاد اچھی بیرکوں اور کھولیوں میں جانے کے لئے رشوت دیتے ہیں اور اس کے خواب دیکھتے ہیں۔ لوگ مہینوں تک کوشش کرکے اور اپنا سارا زار لگا کر اپنی بیرک تبدیل کرواتے ہیں۔ یا یہ بھی کون سوچ سکتا ہے کہ کچھ قیدی فخر سے بتاتے ہیں کہ ’میں بی کلاس قیدی ہوں‘ اور بی کلاس میں چند قیدی فخر سے بتاتے ہیں کہ ’میں تو سترہ نمبر کا قیدی ہوں‘ ۔ ’سی‘ کلاس، مگر پیسے والے (یا سیاسی طور پرباثر) قیدی ہسپتال کی کھولیاں حاصل کرتے ہیں۔ جو یہ نہیں کر پاتے وہ زور لگا کر ”47“ نمبر بیرک میں تبادلہ کرواتے ہیں۔

باہر والوں کے لئے جیل کی بڑی بڑی فصیلوں کے اس پار صرف قید رہتی ہے۔ صرف پنجرہ ہے۔ اندر والوں کے لئے اندر ایک دنیا ہے۔ اندر بھی فخر اور شرم کے مراتب ہیں۔ اندر بھی دولت و طاقت کے اشتہار ہیں۔ اندر بھی اثر و رسوخ کا استعمال ہے۔ مگر اثر و رسوخ یا مال و دولت سے آزادی نہیں خریدی جاسکتی (یا آزادی بہت مہنگی ہے)۔ جو خریدا جاتا ہے وہ ہے جیل کے ہی اندر کا ایک بہتر پنجرہ، بڑا پنجرہ، صاف پنجرہ۔ پھر پنجرے پر فخر کیا جاتا ہے۔

پنجرے کی دھونس جمائی جاتی ہے۔ تمکنت سے دوسرے قیدی کو بتایا جاتا ہے کہ ’میں سترہ نمبر میں ہوں‘، ’میں بی کلاس میں ہیں‘، ’میں ”47“ میں ہوں‘، میں ہسپتال کی کھولی میں ہوں ’۔ غور کیجئے کہ فخر کرنے والا کس چیز پر فخر کر رہا ہے اورمرعوب ہونے والا کس چیز پر مرعوب ہورہا ہے؟ پنجرے پر فخرکیسا؟ اور پنجرے سے مرعوبیت کیسی؟

کاش یہ بڑے اور چھوٹے پنجرے اوران کا فخر صرف قید خانوں تک ہی محدود ہوتا۔ کاش قید خانوں سے باہر لوگ آزاد ہوتے۔ مگر قید خانوں کے باہر بھی طرح طرح کے پنجرے ہیں اور الگ الگ انداز کی قید ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آزاد قیدیوں کو معلوم بھی نہیں کہ وہ قید ہیں اور ان میں طلب بھی نہیں کہ وہ آزاد ہوں۔ مگر میرے ان دعوؤں کے دلائل کیا ہے؟ دلائل حاضر ہے۔

ایک تو قید ہے امیج کی۔ ہمارے سماج کے لوگ امیج کے بدترین قیدی ہیں۔ عورتیں اپنے امیج کو لے کر مری جارہی ہیں۔ ان کا امیج ان کی شکل سے ان کے عمل تک پر چیز پر پھیلا ہے۔ جو عورت اس پر پوری نہیں اترتی اسے دوسری عورتیں ہی چونچ مار مار کر ہلاک کردیتی ہیں۔ مرد بھی اپنے امیج کے لئے سر کٹوانے پر تیار ہیں۔ جو پڑھے لکھے ہیں وہ ایک خاص پڑھی لکھی شخصیت کی بیرک میں قید ہیں۔ وہ اب ایک نام نہاد تہذیب کی اداکاری میں جیئیں گے۔

وہ یہی اداکاری کرتے کرتے مریں گے۔ لوگ اپنے سینگ اور پنجے کاٹ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ جو جوان ہیں وہ کچھ جوانی کے مخصوص ’اسٹیریو ٹائپس‘ کے پنجروں میں خود کو قید رکھنا چاہتے ہیں۔ شراب بھی امیج کے لئے پی جاتی ہے۔ عورت بازی بھی امیج کے لئے ہوتی ہے۔ بدکاری و نیکوکاری دونوں سے ہی صرف انا کی آبیاری ہوتی ہے۔ نہ جسم کو مزا آتا ہے نہ نشہ چڑھتا ہے۔ جوان بالکل اپنے ہم عمروں کی طرح ’ٹرینڈ‘ کے مطابق نظر آنا چاہتے ہیں۔

یہی ’ٹرینڈی‘ نوجوان محض چالیس سال کو پہنچتے ہی اپنے باپ کی deformed copy بن جاتے ہیں۔ عمریں بھی قید خانے ہیں۔ بچپن میں کوئی بچہ اپنی عمر کے قید خانے میں نہ ہو بلکہ فلسفیانہ باتیں کرتا ہو تو اسے کھینچ کھینچ کر اس کی عمر کے پنجرے میں بند کیا جاتا ہے۔ اسے بچہ بنایا جاتا ہے۔ جو بوڑھا جوان لگے اسے کھینچ کھینچ کر بڑھاپے کے ڈبے میں بند کیا جاتا ہے۔ اسے بوڑھا بنایا جاتا ہے۔ لوگ خوشی خوشی ہر امیج کا طوق گلے میں پہنتے ہیں۔ نوکری کرنے والے فخر سے اپنی چاکری کے کارڈ گلے میں لٹکا کر گھومتے ہیں۔ اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنے پیشے کے قید خانے کا بھی فخر سے اشتہار کرتے ہیں۔ لوگ اپنی کمپنیوں کا سستا سا اشتہار بن جاتے ہیں۔

پھر ایک قید شرافت کی ہے۔ شرافت کی قید ہے کہ خاندانوں میں نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہماری تو سات پشتوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی، کبھی عدالت کی شکل نہیں دیکھی۔ اور اگر کوئی ایسے گھر سے جیل چلاجائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی تربیت میں کیا کمی رہ گئی؟ شرافت کا پنجرا تو جیل سے بھی خوفناک ہے کہ جس میں سات سات پشتیں فخر سے ناک اونچی کرکے گزارا کرتی ہیں۔ یہ سات سات پشتیں کوئی جرم تو نہیں کرسکیں مگر ان پر کوئی ظلم بھی نہیں کر سکتا کہ ظلماً ان کو جیل میں بند کروا دے اس لیے کہ یہ اتنے غیر اہم ہیں۔ یہ کسی سے محبت نہیں کرسکتے، نفرت نہیں کرسکتے۔ بچپن کی آزادی میں خم ٹھونک کر ہر ایک سے لڑنے والے بچے بعد میں بینک میں نوکری کرلیتے ہیں۔ پھر ان کو اپنی سفید شرٹ کی اور چشمے کی فکر رہتی ہے۔ پینشن اور گریجویٹی کے وعدے پر اپنی آزادی قربان کردی جاتی ہے۔

دوسرے انسانوں کی رائے کی فکر، ایک بہت عظیم پنجرہ ہے۔ لوگ اپنی تعریف کرتے کرتے نہیں تھکتے۔ اپنی کامیابیوں کی کہانی سب کو سناتے رہتے ہیں۔ فیس بک پر تصاویر ڈالی جاتی ہیں۔ سوچ سوچ کر اپنا تعارف لکھا جاتا ہے۔ پھر اپنے نام نہاد نظریات کی اشتہار بازی کی جاتی ہے۔ لوگ گھنٹوں تک اپنے پروفائل خود ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی دکھ میں کڑھتے رہتے ہیں کہ ان کی تصاویر کو لائک نہیں کیا گیا، ان پر تعریفی رائے نہیں لکھی گئی۔ یہی سوچ سوچ کر زیر لب مسکراتے رہتے ہیں کہ فلاں نے ان کے بارے میں کیا سوچا ہوگا۔ وہ کتنے عظیم لگے ہوں گے ۔

لوگوں کے دفتروں پر تو ان کے ناموں اور ڈگریوں کی تختیاں ہوتی ہی ہیں مگر اپنے گھروں کی تختیوں پر بھی اپنے نامو ں کے ساتھ اپنی ڈگریاں اور اپنا ’ڈیزگنیشن‘ لکھتے ہیں۔ شادی کارڈز پر بھی ڈاکٹر، انجنئیرلکھا جاتا ہے۔ ڈیزگنیشن اور ڈگری کی قید ہے کہ پنجرے کی طرح ہر جگہ مسلط ہے۔ لوگ زیادہ پڑھ لکھ جائیں تو ہنس بول نہیں سکتے، بھارتی فلمیں نہیں دیکھ سکتے، گانا نہیں گاسکتے، ناچ نہیں سکتے۔ امیج کی شریعت میں یہ سب حرام ہے۔

کبھی جامعہ کراچی کے قبرستان جائیے گا تو معلوم ہوگا کہ لوگ مر کر بھی پروفیسر ڈاکٹر رہ گئے۔ لوگ مر گئے مگر پھر بھی ’سابقہ صدر شعبہ‘ رہ گئے۔ جب یہ جامعات کے قیدی زندہ تھے تو کون ان کو پوچھتا تھا کہ مر کر اس ویرانے میں بھی اپنی ڈگریوں کابکس ساتھ لے آئے؟ مگر قیدی کو قید پیاری تھی۔ مر گئے پر انسان نہیں بن سکے، پروفیسر ہی رہ گئے۔

اس معاشرے کو قید سے اتنا پیار ہے کہ یہاں اب گھر بھی جیل کے نمونے پر تیار ہوتے ہیں۔ ہر طرف دیواریں بنائی جاتی ہیں جیل کی سرچ لائیٹس جیسی روشنی کا انتظام ہوتا ہے۔ ہر کھڑکی پر گرل لگائی جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ محلے ویسے ہی بیریئر اور دیواروں میں بند ہیں مگر دیواروں پر خار دار تار لگائے جاتے ہیں۔ اپنے ہی محلے میں چہل قدمی کریے تو لوگ گھور کر دیکھتے ہیں۔ محلے کا چوکیدار پوچھتا ہے کہ ’آپ کہاں جا رہے ہیں؟

‘ اس معاشرے کے گھر اور محلے اس کی روحانی ونفسیاتی بیماریوں کے ہی تو عکاس ہیں۔ لوگ قیدی ہیں اور ان کو یہ قید قبول ہے۔ لوگ غلام ہیں اور ان کو یہ غلامی قبول ہے۔ جو آزاد ہیں وہ انہیں بھی قیدی بنادینا چاہتے ہین۔ وہ ان کو بھی کھینچ کر اپنے قید خانوں میں بند کر دینا چاہتے ہین۔ لوگوں کو اپنی قید پر فخر ہے۔ لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ’میں ڈاکٹر ہوں‘ ، ’میں یوٹیوبر ہوں‘ ، ’میں انجنئیر ہوں‘ ، ’میں پی ایچ ڈی ہوں‘ ، ’میں اچھا بچہ ہوں‘ ، ’میں سات پشتوں سے نا مرد (یاشریف، جو کہئے ) ہوں‘ ۔

جیل میں قدیوں کو تھوڑی دیر کے لئے اپنی بیرکوں اور کھولیوں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ اس دورانئے کو جیل کی بولی میں ’ٹوٹل کھلنا‘ کہتے ہیں۔ قیدی ’ٹوٹل بند‘ ہونے سے پہلے ہیں اپنے قفس میں بیٹھ جاتے ہیں اور تالا بند کرنے والے ’مقدم‘ سے کہتے ہیں ہمیں جلدی بند کردو۔ تالا بند کرنے والا ’مقدم‘ خود بھی قیدی ہے۔ وہ تالابند کرکے فخر سے حوالدار کے پاس جائے گا اور بتائے گا کہ اس نے اپنی ڈیوٹی کرلی۔ اس کے بعد حوالدار اس کو اس کے مقدم اور منشیوں کے پنجرے میں بند کرکے اپنے گھر چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).