پائلٹس کے ’مشتبہ اور جعلی لائسنسز‘ کا معاملہ: کیا ایئر لائنز کی جانب سے ’غلط تفصیلات‘ کی فراہمی متعدد پاکستانی پائلٹس کو ’مشتبہ‘ قرار دینے کی وجہ بنی؟


پی آئی اے

وفاقی حکومت اور وزارتِ ہوا بازی کی جانب سے پاکستان میں ’جعلی اور مشتبہ لائسنس کے حامل پائلٹس‘ کے معاملے پر چوتھا مؤقف سامنے آیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایئر لائنز نے اپنے پائلٹس کے حوالے سے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 'غلط تفصیلات' فراہم کیں جن کی بنیاد پر متعدد پائلٹس کو غلطی سے ’مشتبہ لائسنس یافتہ‘ قرار دیا گیا۔

چند ماہ قبل جعلی اور مشکوک لائسنسز کے اجرا سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اب بالآخر ‘پائلٹس کی غلط تفصیلات کی فراہمی‘ پر پہنچ چکا ہے اور سی اے اے کی جانب سے غلط معلومات کی فراہمی کا ذمہ دار ایئرلائنز کو قرار دیا گیا ہے اس حقیقت سے قطع نظر کہ ایئرلائنز کا پائلٹس کی لائسنسنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان میں شہری ہوا بازی کے نگراں ادارے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ نے ملک کی تین ایئرلائنز کو لکھے گئے ایک خط میں دعویٰ کیا ہے کہ ’(اس حوالے سے قائم ہونے والے) بورڈ آف انویسٹیگیشن کے جواب کے مطابق یہ رائے قائم ہوئی کہ ایئرلائنز نے پائلٹس کا خامیوں والا اور غلط ڈیٹا بورڈ آف انویسٹیگیشن کو فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں سول ایوی ایشن ریکارڈ کے فرانزک آڈٹ کے دوران 262 مشتبہ پائلٹس کی فہرستوں میں متعدد پائلٹس کی غلط نشاندہی کی گئی تھی اور انھیں اس معاملے میں ملوث کیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پی آئی اے نے ’مشتبہ لائسنس‘ کے حامل 141 پائلٹس گراؤنڈ کر دیے

پاکستان میں پائلٹس کو لائسنس کے اجرا کا عمل معطل ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

’مشکوک پائلٹس نے امتحانات کے نظام تک غیر مستند طریقے سے رسائی حاصل کی‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ خالد محمود نے مزید لکھا کہ ’ایئرلائن آپریٹرز سے پائلٹس کے نظرثانی شدہ ڈیٹا کی وصولی کے بعد بورڈ آف انویسٹیگیشن کو درخواست کی گئی تھی کہ مذکورہ پائلٹس کے کمپیوٹرائزڈ پائلٹ لائسنس امتحان کے ریکارڈ کی دوبارہ تصدیق کی جائے۔

’اس کے مطابق بورڈ آف انویسٹیگیشن نے ایئرلائن کی جانب سے فراہم کردہ نظرثانی شدہ ڈیٹا کی دوبارہ تصدیق کی اور یہ بتایا کہ 30 پائلٹس کے امتحانی ریکارڈ درست نکلے ہیں۔ اس سے قبل جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی وہ پائلٹس کے غلط شناختی نمبرز کی وجہ سے ہوا جو ایئرلائن آپریٹرز کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔‘

اس خط میں سی اے اے کی جانب سے ایئرلائنز کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ اُن حکام کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے پائلٹس کا غلط ڈیٹا فراہم کیا، جس کے نتیجے میں ان پائلٹس کو غلط انداز میں اس معاملے میں ملوث کرتے ہوئے مشتبہ قرار دیا گیا۔

چند روز قبل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی جواب داخل کروایا جس میں ان وجوہات کی نشاندہی کی گئی جن کی وجہ سے لائسنسنگ کے معاملے میں یہ گڑبڑ ہوئی۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے لائسنسنگ کے معاملے پر یہ بورڈ آف انویسٹیگیشن 22 فروری 2019 کو تشکیل دیا تھا۔ اس بورڈ کی جانب سے جاری کی گئی فہرستوں کو بنیاد بنا کر وفاقی وزیر برائے ہوابازی نے پارلیمان میں بیان دیا تھا کہ پاکستان میں ڈھائی سو سے زیادہ پائلٹس مشتبہ یا جعلی لائسنس کے حامل ہیں۔

وفاقی حکومت اور ادارے اب تک کیا کیا مؤقف اختیار کر چکے ہیں؟

کراچی میں پیش آئے طیارہ حادثے کے بعد رواں برس 24 جون کو وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے پارلیمان میں دعویٰ کیا تھا کہ ’پاکستان میں 860 فعال پائلٹس میں سے 262 ایسے پائلٹس ہیں جنھوں نے خود امتحان نہیں دیا بلکہ ان کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا، پیسے دے کر ڈمی امیدوار بٹھائے گئے جبکہ چار پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔‘

اِس بیان کے دو دن بعد یعنی 26 جون کو غلام سرور خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام 262 پائلٹس ’مشتبہ لائسنس کے حامل ہیں۔‘

تاہم اس پریس کانفرنس کے بعد 13 جولائی کو ڈائریکٹر جنرل سی اے اے حسن ناصر جامی، جو سیکریٹری ایوی ایشن بھی ہیں، کا ایک خط منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے عمان کے سول ایوی ایشن حکام کو لکھا تھا کہ پاکستان سول ایوی ایشن کی جانب سے جاری کیے گئے تمام لائسنس درست ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے دنیا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ‘جتنی بھی ناکامی ہوئی ہے اس سے بہت بڑی ناکامی ہونی تھی اگر ہمیں یہ پتا چل جاتا کہ ہمارے پاس ایک انکوائری رپورٹ میں آ گیا ہے کہ 160 پائلٹس کے مشکوک لائسنس ہیں۔ جیسے ہم نے اس معاملے کو پیش کیا وہ بہتر ہو سکتا تھا، بدقسمتی سے ہم نے اس طرح پیش نہیں کیا۔’

عمران خان نے وزیر ہوا بازی کو اس معاملے کو غلط انداز میں پیش کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھوں نے تفصیلی رپورٹ دی جو سات، آٹھ مہینے میں تیار ہوئی۔ جو رپورٹ سامنے آئی وہ بڑی خوفناک تھی۔ یہ میں اپنی حکومت کی کمزوری مانتا ہوں کہ اس کو ایسے بھی پیش کر سکتے تھے کہ اتنا برا ردِ عمل نہ آتا۔‘

اس صورتحال کے بعد سے اب تک پاکستان سول ایوی ایشن نے خاموشی سے تقریباً 100 سے زیادہ پائلٹس کے لائسنسوں کو کلیئر کر دیا ہے جنھیں ابتدا میں مشکوک قرار دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے حتمی صورتحال واضح اس لیے نہیں کہ کیونکہ لائسنسوں کی معطلی کی احکامات جاری کرتے وقت ساری خط و کتابت ایئرلائنز کے ساتھ کی گئی تھی۔

تاہم اب پائلٹس کی کلیئرنس کے خطوط براہِ راست بھجوائے جا رہے ہیں۔

ڈیٹا درست فراہم نہیں کیا گیا اس دعوے میں کتنی جان ہے؟

پائلٹس کے ڈیٹا کا مرکز سی اے اے اور خصوصاً اِس کی لائسنسنگ برانچ ہوتی ہے۔ اور ایئر لائنز کو غلط ڈیٹا فراہم کرنے کا خط بھی اسی برانچ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے لکھا ہے۔

اس سے یہ امکان بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سی اے اے نے مبینہ طور پر اپنے ڈیٹا بیس کو دیکھنے کی بجائے ایئرلائنز کی جانب سے ملنے والے ڈیٹا پر مکمل انحصار کیا اور یہ زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ایئرلائنز سے ملنے والے ڈیٹا کی تصدیق اپنے ڈیٹا بیس سے کی جائے۔

پی آئی اے کا بوئنگ

صحافی طاہر عمران سے بات کرتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ خان نے کہا ہے کہ ’سول ایوی ایشن نے ہم (پی آئی اے) سے جو بھی ڈیٹا مانگا وہ انھیں مطلوبہ فارمیٹ کے تحت مہیا کیا گیا۔ اپریل 2020 میں مانگے گئے ڈیٹا فارمیٹ میں صرف نام، ملازمت کا نمبر اور لاگز مانگے گئے جو سی اے اے کو فراہم کر دیے گئے تھے۔ لیکن درحقیقت لائسنسنگ سے متعلقہ معلومات بشمول پائلٹس کے لائسنسنگ نمبرز بھی مانگے جانے چاہییں تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پی آئی اے انکوائری کی اصل سمت یا تفصیلات سے واقف نہیں تھا لہٰذا سی اے اے کی جانب سے جو تفصیلات طلب کی گئی تھیں وہ فراہم کر دی گئیں۔

’اب اس معاملے پر پی آئی اے یا دیگر آپریٹرز (ایئرلائنز) کو ذمہ دار ٹھہرانا صحیح نہیں ہو گا۔ لائسنس سول ایوی ایشن کے فرائض میں سے ایک ہے اور پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز کے پائلٹس اور دیگر عملہ لائسنس کے اجرا یا تجدید یا کیٹیگری کی بہتری کے لیے اُن ہی سے رجوع کرتے ہیں۔‘

ایک نجی ایئرلائن کے سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پائلٹس کا سارا ریکارڈ سول ایوی ایشن کے پاس ہوتا ہے، ایئرلائنز کو اس سلسلے میں موردِ الزام ٹھہرانا جائز نہیں ہے۔‘

اب تک ڈیڑھ سو سے زائد ایسے پائلٹس اپنا نام کلیئر کروا چکے ہیں جنھیں پہلے مشکوک اور مشتبہ قرار دیا گیا تھا جبکہ بہت سے پائلٹس ایسے ہیں جو اپنا کیس عدالتوں میں لے جا چکے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی اس سارے معاملے پر بہت سے سوالات اٹھا چکا ہے اور اب سوال یہ ہے کہ سی اے اے کی جانب سے لکھے گئے اس نئے وضاحتی خط اور اس میں سامنے آنے والے نئے دعوے کے بعد صورتحال کیا نیا موڑ اختیار کرے گی؟

سی اے اے کا مؤقف

سی اے اے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سول ایوی ایشن کے پاس بہت سارا ڈیٹا ہوتا ہے مگر ایئرلائنز کے پاس بھی اس کے علاوہ بہت سارا ایسا ڈیٹا ہوتا ہے جو سول ایوی ایشن تک نہیں پہنچتا جیسا کہ ڈیوٹی روسٹر، فلائنگ آورز، شیڈول، اور یہی معلومات حاصل کرنے کے یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ڈیٹا اس لیے بھی حاصل کیا جانا ضروری تھا تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ پائلٹس کو امتحانات کی تیاری کے لیے وقت کیوں نہیں دیا گیا۔ یہ سب ڈیٹا پائلٹس سے نہیں، ایئرلائن سے حاصل کیا جانا تھا۔‘

اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ ’ایئرلائنز ڈیٹا دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں اور بار بار کہنے پر ڈیٹا فراہم کیا گیا جو کہ براہِ راست وزیراعظم کی مداخلت پر بلآخر سول ایوی ایشن کو دیا گیا۔‘

پی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ایئرلائن نے ڈیٹا سب سے پہلے فراہم کیا اور سب سے پہلے تعاون کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp