نمرا علی: ’وائرل گرل‘ کا ہندو برادری سے متعلق ڈرامے کا متنازع ڈائیلاگ ادا کرنے پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید


حالیہ دنوں میں پاکستانی سوشل میڈیا میں ہر جانب لاہور سے تعلق رکھنے والی نمرا نامی لڑکی کا خاصا چرچا رہا ہے، اپنی سادگی اور پُرلطف باتوں سے ہر جانب مسکراہٹیں بکھیرنے والی نمرہ دیکتھے ہی دیکھتے وائرل ہو گئیں اور سب کی ہر دل عزیز شخصیت بن گئیں۔

تاہم نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں نمرا کے منھ سے کچھ ایسی بات نکل گئی جو بہت سے سوشل میڈیا صارفین کو پسند نہ آئی۔

چینل سٹی 42 پر اپنے ایک انٹرویو سے مشہور ہونے والی نمرا کو اب مختلف ٹی وی چینلز اور ویب شوز میں بطور مہمان مدعو کیا جا رہا ہے اور اسی سلسلے میں وہ گذشتہ روز چینل جی این این کے ایک مارننگ شو میں بھی انٹرویو دیتی نظر آئیں۔

انٹرویو کے شروع میں نمرا اپنے ساتھ بیٹھے اینکرز سے یہ کہتی ہیں کہ ’(انٹرویو کے) بیچ میں ٹوکیں گے تو میرا فلو خراب ہو جائے گا اور میرے ذہن میں جو باتیں آ رہی ہیں وہ میں بھول جاؤں گی، اس لیے مجھے بیچ میں مت ٹوکیں۔‘

اس لائیو انٹرویو کے دوران نمرا نے جانے انجانے میں کچھ ایسی باتیں کر دیں جن کا پاکستان میں رہنے والی ہندو برادری نے بُرا منایا اور ان کے بقول ’نمرہ کے الفاظ سے اُن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ چند روز پہلے تک مسکراہٹیں بکھیرنے والی لڑکی اب سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہے۔

کئی افراد انٹرویو میں ان کے ساتھ بیٹھے اینکرز اور چینل پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں تو کئی یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ پیمرا اقلیتوں کے خلاف اس طرح کے مواد کی روک تھام کا کوئی انتظام کیوں نہیں کرتا۔ تاہم نمرا کی حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی سنجے ماتھرانی پوچھتے ہیں ’نمرا جی، پاکستان میں 40 لاکھ ہندوؤں کی آبادی ہے۔ ایسا سب کچھ بولنا، تالیاں بجانا اور پھر نارمل ہو جانا ٹھیک ہے؟ یہ توہین نہیں؟‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سنجے ماتھرانی کا کہنا تھا کہ ’میں نے آنگن نامی ناول پڑھا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ نصابی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ کافر کے معنی ہیں بتوں کی پوجا کرنے والا۔ ایک ہندو کے طور پر ہمیں اکثر ایسی ایسی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں جنھیں میں دہرانا نہیں چاہتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹھیک ہے آپ انھیں نوعمر یا بچی کہہ لیں، لیکن جب ایک مین سٹریم میڈیا کے کسی چینل پر بیٹھ کر میں نے نمرہ کو ایسی بات کرتے سنا اور پھر انھیں روکنا تو درکنار کسی نے ان کی تصحیح تک نہیں کی، یہ دیکھ اور سُن کر بہت افسوس ہوا۔‘

بی بی سی نے جب نمرا کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو ان کی بہن سحرش نے بتایا کہ نمرہ انٹرویوز میں بہت مصروف ہیں اور بات نہیں کر سکتیں۔

نمرا کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی رضا رومی لکھتے ہیں: ’افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ بات۔ نئی نسل کو یہی تو سکھایا ہے کہ بزدل اور مکار ہندو۔ جبکہ پاکستان میں لاکھوں ہندو رہتے ہیں۔‘

پریم راتھی کا کہنا ہے کہ ’اگر نمرا نے کسی طرح ہندوؤں کو انڈیا سے ملا دیا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔‘

وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ کیا آپ نے میڈیا، سیاستدانوں، دوستوں وغیرہ کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ یہ تو ہر پاکستانی ہندو نے سنا ہے ’انڈیا سے آئے ہو؟‘

محمد ہزران لکھتے ہیں ’نمرا نے ہندو برادری کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ جاہلیت تھی۔ یہ المیہ ہے کہ ہمیں ہندو اور بھارتی دو ہم معنی الفاظ کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں،اور بھارت سے دشمنی، محب وطن ہونے کا پیمانہ ہے۔ یہ بچی اور ناظرین کی اکثریت بھی ایسا سوچتی ہے۔ بس اسی لیے تصحیح نہیں کی گئی۔‘

منوج پارمر لکتھے ہیں ’ہم بار بار نمرا کو سمجھائیں گے کہ انڈیا کا مطلب ہندو نہیں اور نا ہی پاکستان کا مطلب مسلمان ہے۔‘

کیتھی نامی صارف کا کہنا ہے کہ ابھی نمرا کو گھر بیٹھ کر ملک میں موجود دیگر مذاہب کے بارے میں کشادہ ذہنی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک صارف لکھتی ہیں کہ ’انھیں اس چیز کی توقع نہیں کہ اس ملک کے نوجوان، ہندوؤں یا اقلیتوں کے بارے میں کوئی حساسیت رکھتے ہوں گے۔ کیونکہ ہماری نصابی کتب میں پاکستانی ہندوؤں کی کوئی مثبت نمائندگی نہیں کی گئی ہے۔ ہندوؤں کو صرف اور صرف دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔‘

سوہا کا کہنا ہے کہ نمرا علی نے جو کچھ کہا وہ وہی ہے جو ایک اوسط پاکستانی سمجھتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی صارفین کا کہنا ہے کہ ’اس میں نمرا کا قصور نہیں۔ ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، میڈیا ریٹنگ والے اور تالیاں بجانے والے اینکر سبھی شامل ہیں۔‘

’پاکستان سب کے لیے‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے کپل دیو نامی صارف نے لکھا کہ ’نمرا کو دیکھنا بہت ہی اچھا لگتا تھا لیکن بہت سے دوسرے لاعلم لوگوں کی طرح وہ جانتی نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنے لاکھ ہندو رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چلیں نمرا تو بچی ہے، لیکن اینکرز بچے نہیں ہیں۔ جب نمرا نے ہندو برادری کے خلاف ایسی بات کی، تو اینکرز کو ان کے تعصب سے بھرے تبصرے پر تالیاں بجانے کے بجائے ان کی تصیحیح کرنی چاہیے تھی۔‘

پروفیسر امبر مغل بھی کپل کے خیالات سے متفق ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ چینل اور نمرا دونوں کو ہندو کمیونٹی سے معذرت کرنی چاہیے۔

میاں طارق نامی صارف کا ماننا ہے کہ ’اینکرز کا تربیتی کورس ضرور ہونا چاہیے۔‘

ٹویٹر پر شدید تنقید کے جواب میں اب سے کچھ دیر قبل جی این این چینل نے ٹویٹ میں لکھا ہے ’جی این این مارننگ شو میں نمرا علی کے ہندو برادری کے بارے میں کہے گئے الفاط سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو جی این این اس پر معذرت خواہ ہے۔‘

جی این این کے مذکورہ پروگرام کے میزبان عمیر بشیر اور عائشہ یوسف نے بھی معافی مانگتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ پروگرام کا سکرپٹ پہلے سے نہیں لکھا گیا تھا اور ہم نے تالیاں نمرا کی انرجی اور سٹائل پر بجائیں تھیں۔

ٹوئٹر پر نمرا علی کے نام سے بنائے گئے اکاؤنٹ سے بھی کپل دیو سے معافی مانگی گئی ہے۔ اس اکاؤنٹ سے کی گئی ٹویٹ میں لکھا گیا ہے ’میں معافی چاہتی ہوں، میں صرف ایک کردار (سجل علی) کی نقل کر رہی تھی اور میرا مقصد آپ یا ہندو برادری میں سے کسی اور کی دل آزاری نہیں تھا۔‘

جہاں اتنے افراد نمرا کے تبصرے پر تنقید کر رہے ہیں وہیں کئی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ نمرا نے تو صرف خدیجہ مستور کے لکھے گئے ڈرامے آنگن کے ایک ڈائیلاگ کی نقل کی ہے اگر تنقید کرنی ہے ہے تو ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کاروں پر کریں۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک صارف لکھتے ہیں ’اتنا رد عمل اس وقت آنا چاہیے تھا جب خدیجہ مستور صاحبہ کے لکھے ڈرامے آنگن میں یہ ڈاٸیلاگ نعرے کی طرح لگایا گیا۔ اس وقت سوئے ہوئے تھے سب؟ نمرا نے تو صرف دہرا دیا تو کی بورڈ جہادیوں کو ہندو کمیونٹی کے حقوق و جذبات یاد آگٸے۔ ڈرامہ لکھنے ،بنانے والوں کو پکڑیں پہلے۔‘

تاہم کئی صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ڈرامے کا ڈائیلاگ کہتے ہوئے آپ اتنے تعصب بھرے تبصرے کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟

البتہ نمرا کے معافی مانگنے پر ان کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مزید نصحیتیں بھی کی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp