میاں صاحب کے لیے تالیاں


تب وہی میاں نواز شریف، جنھیں بڑے زورو شور سے گرفتار کیا گیا تھا اسی قدر باوقار انداز میں انگلستان سدھار گئے، پیچھے ارباب حل و عقد بقول شخصے ’کچیچیاں‘ لیتے رہ گئے۔

ان کے جانے بعد یہاں کیا کیا نہ ہو گیا؟ ایکسٹینشن کا شور مچا، وبا پھوٹی، بارشوں نے تباہی مچائی لیکن اپوزیشن کے محاذ پر خاموشی طاری رہی اور جوں ہی سورج کی تمازت کم ہوئی، اے پی سی کا غلغلہ مچ گیا۔

اے پی سی میں میاں صاحب کی تقریر پر کوئی آہ کر رہا ہے اور کوئی واہ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بس ایک تقریر تھی۔ ویسی ہی تقریر جیسی کوئی بھی سیاستدان، کسی بھی جلسے میں کھڑا ہو کر کرتا ہے۔ آفاقی نظریات، انقلاب کے نعرے، کسی ان دیکھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان جنگ اور مادر وطن کی محبت میں جلاوطنی کاٹنے والے لیڈر کی جذباتی تقریر۔

سچ یہ ہے کہ میاں صاحب کی سیاست بطور اپوزیشن لیڈر مجھے کبھی متاثر نہ کر سکی۔ شاید آج بھی لوگوں کو ان کی وہ تقریر یاد ہو جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔

جلد ہی ان کے دور اقتدار کا خاتمہ ہوا اور اس کے بعد پھر وہ دو بار اقتدار میں آئے۔ اب یہ کسی کے لیے بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس ملک میں جو بھی، جب بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہے اس نے ڈکٹیشن بھی لی اور اسے لانے والے بھی ہمیشہ عوام نہیں ہوتے۔

میاں صاحب کسی پریشر گروپ کے سربراہ نہیں۔ مسلم لیگ نون ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور تحریک انصاف کے مقابلے میں اس کا ووٹ بینک یقیناً زیادہ ہے۔ ایسی پارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تب بھی اس کو عوام کے ساتھ کھڑا رہنا چاہیے۔ رہی بات لیڈرز کی پکڑ دھکڑ اور ان پر کرپشن کے مقدمے قائم کرنے کی تو یہ سب سیاست کا حصہ ہے۔

ان ہی سخت وقتوں سے گزرنے اور سیاسی انتقام کا شکار ہونے کے بعد آپ کا وہ ووٹ بینک بنتا ہے جو کسی صورت آپ کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ ایک حقیقی پارٹی ایسے وقت میں اپنے کارکنوں اور ووٹرز کی طاقت سے بڑی سے بڑی قوت کو جھکا سکتی ہے لیکن پاکستانی سیاست میں ایسے وقتوں میں جو ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

بظاہر اے پی سی، جمہوریت کی سربلندی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے لیکن عوام کو ان سے بھی کوئی امید نہیں۔

دو پارٹی سسٹم میں دونوں پارٹیوں پر اسی عدم اعتماد نے پاکستان تحریک انصاف کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ یہ اور بات کے اقتدار کے دروازے اس کے لیے اسی قدیم کہانی کے مصداق کھلے، جس میں علی الصبح فصیل شہر میں داخل ہونے والے پہلے شخص کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔

میاں صاحب کی تقریر اچھی ہو گی، شاید کسی کو اس پر یقین بھی ہو لیکن معاش کی چکی میں پستے ہوئےعوام کو یہ چمکیلے نعرے، سماجی انصاف، غیر مرئی قوتوں سے جنگ کے نادیدہ خواب اور کوہ ندا کی کہانیاں سمجھ نہیں آتیں۔

آپ کا ووٹر آپ کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے دور دیس میں بسنے والے اور ویڈیو خطاب کرنے والے لیڈر، ’کھیل بتاشوں‘ کی سلطنت کے خواب دکھانے والے لیڈرز نہیں چاہیے۔

اسی طرح وہ لوگ (جن میں متوسط طبقہ اور نوجوان نسل بھی شامل تھی) جو تحریک انصاف کے رنگین نعروں اور انقلاب کے رومان پرور تصور سے متاثر ہوئے تھے وہ بھی دو برس میں سمجھ گئے ہیں کہ فقط چوکھٹا بدلا ہے تصویر وہی پرانی ہے۔

ان حالات میں میاں صاحب کی تقریر جس میں کسی ‘ویب سیریز’ کے پراسرار ولن کی طرح ’ان‘ کا ذکر ہے میرے لیے ایک ’پھس پٹاخہ‘ ہی ثابت ہوئی۔ اسی طرح جواب میں محمد زبیر صاحب کی آرمی چیف سے ملاقات کا بم بھی سیلن زدہ بلکہ پھپھوندی زدہ نکلا۔

سچ یہ ہے کہ اس قوم کا ولن نہ فوج ہے، نہ بیوروکریسی، نہ سیاستدان اور نہ ہی ان سب کو ملا کر بنایا گیا ولن ’خلائی مخلوق‘ اور ’محکمہ زراعت۔‘ ہمارا ولن ایک مشترکہ سوچ ہے اور یہ سوچ کسی ایک شخص کی یا ادارے کی نہیں ہر اس طاقتور کی سوچ ہے جو اپنے حصے سے زیادہ کھانا اور اپنی قامت سے طویل قبا پہننا چاہتا ہے۔

یہ کچھ لوگوں کے مفادات کی جنگ اور اقتدار کی میوزیکل چیئر ہے جس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ ہمارا تو اپنے لیڈروں سے فقط تقریر اور تالی کا رشتہ ہے۔ چاہے تقریر کرنے والا اپنی تقریر کا آغاز ’میرے عزیز ہم وطنو‘ سے کرے، چاہے ہر جملے میں ’جب میں لندن میں تھا‘ کہے یا بگڑے تلفظ میں اظہار خیال کرے یا ہر جملے میں ’خلائی مخلوق‘ کا ذکر کرے۔

ہمیں بس تالی بجانی ہے اور ایک تقریر سے دوسری تقریر کے وقفے میں گدھے کی طرح کام کر کے خود کو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو زندہ رکھنا ہے کیونکہ اگر ہم مر گئے تو تالیاں کون بجائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).