بابری مسجد گرائے جانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے چہرے کون؟


بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی کا نام ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ انڈیا کے سینٹرل بیورو آف انویسٹگیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں جج بابری مسجد انہدام کیس میں فیصلہ سنانے والے ہیں جس میں ایل کے اڈوانی کے علاوہ دیگر ہندوتوا سیاستدان جیسے مرلی منوہر جوشی اور ونے کٹیار کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔

ایودھیا میں مغل بادشاہ جلال الدین بابر کے نام پر تعمیر کی گئی بابری مسجد چھ دسمبر 1992 کو سخت گیر خیالات کے حامل ہندؤوں نے منہدم کر دی تھی۔

’ایل کے اڈوانی سخت گیر ہندوتوا سیاست کا چہرہ ہیں‘

آج کی نوجوان نسل جو سنہ 2000 کے آس پاس یا اُس کے بعد پیدا ہوئی ہے، وہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ان کے والدین کی جوانی کے دور میں ایل کے اڈوانی کا کیا سیاسی کردار تھا۔ ایل کے اڈوانی نے پورے ملک کو ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کام کیا جس میں کئی ایسے اقدامات تھے جو اپنے پیچھے لہو اور فرقہ وارانہ فسادات کے نشانات چھوڑ جاتے تھے۔

لیکن انھی اقدامات کی وجہ سے دائیں بازو نے متاثر کن کارکردگی دکھائی اور اس کی مدد سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اقتدار کی چوٹی پر پہنچا دیا۔

پرانے دنوں کو دیکھنے اور جاننے والوں میں اس بات پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہندوتوا کی سیاست کا سب سے بڑا چہرہ کون ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا بابری مسجد کا تالا راجیو گاندھی نے کسی معاہدے کے تحت کھلوایا تھا؟

کیا بابری مسجد کسی مندر کی باقیات پر بنائی گئی تھی؟

بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟

موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ہر ایک کا فطری انتخاب ہو سکتے ہیں لیکن ماضی میں نریندر مودی کے سرپرست اور گورو لال کرشن اڈوانی زیادہ پیچھے بھی نہیں ہوں گے۔

ایودھیا کے پجاری چھبیلے سرن اڈوانی کی طرف سے شروع کی جانے والی رام مندر تحریک میں رضاکار (کارسیوک) تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ برس نومبر میں، جب سپریم کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ دیا تو میں خوشی سے بھر گیا۔ میں نے دل سے اڈوانی جی کا شکریہ ادا کیا۔ میں لاکھوں نڈر کار سیوکوں میں شامل تھا جو ان کے مداح ہوا کرتے تھے۔ اڈوانی جی کی وجہ سے ہمیں رام مندر ملا ہے، مودی جی نے اس کی ڈلیوری یا وصولی کی ہے۔‘

معروف صحافی اور تجزیہ کار پنکج ووہرا لال کشن اڈوانی کو قومی سیاست میں ابھرنے سے پہلے سے جانتے ہیں۔

انھوں نے قطب مینار کی تعمیر کی مثال دیتے ہوئے کہا: ’قطب مینار کی بنیاد التماس نے رکھی تھی لیکن اسے قطب الدین ایبک کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جس نے اسے مکمل کیا تھا۔ رام مندر کی تعمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔‘

’حالانکہ اڈوانی نے اب عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے لیکن وہ اس معاملے کو عدالت میں نہیں لے جانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ ابلتا رہے۔ اڈوانی کے اس ٹال مٹول والے حربوں سے مودی کو فائدہ ہوا۔ انھوں نے ہمیشہ مندر کی تعمیر کی حمایت کی، عدالت میں بھی۔ اب جب کہ وہ اقتدار میں ہیں، وہ اس کی تعمیر کا سہرا بھی لیں گے۔‘

تاہم سینئر صحافی سنجے نے خود 1992 میں کارسیوک سکواڈ میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت پورے ملک میں اڈوانی کے اثرات کو دیکھا تھا۔ ان کا اصرار ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا سہرا اڈوانی کو دیا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایودھیا کے انماد کو اڈوانی نے اکسایا تھا اور انھیں رام مندر کا سہرا دیا جانا چاہیے۔ ان کی قیادت میں ہی بی جے پی 90 کی دہائی میں سیاسی منظرنامہ پر تیزی سے ابھری، یہ سب انھی کی وجہ سے ہوا۔‘

تاہم سنجے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذاتی طور پر انھیں اڈوانی کی سیاست کبھی بھی پسند نہیں تھی۔

سنہ 1980 میں تشکیل پانے کے بعد سے، اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار کے قریب تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ پاکستان کہ شہر کراچی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑے اڈوانی بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ایک ہیں۔

ایل کے اڈوانی

اڈوانی اپنی مسلم مخالف اور کٹر ہندوتوا کی سیاست اور اس سے پیدا ہونے والی تفریق کی وجہ سے قومی منظر نامے پر نمایاں طور پر ابھرے۔ ستمبر۔ اکتوبر 1990 کے دوران گجرات کے سومناتھ سے بہار کے سمستی پور تک ایک ہزار کلومیٹر لمبی رام رتھ یاترا کے دوران، اڈوانی بار بار نعرہ لگاتے رہے کہ ’مندر وہیں بنائیں گے۔‘

اڈوانی کی گرفتاری کے بعد رتھ یاترا رک گئی اور ہجوم منتشر ہو گیا لیکن تب تک اس نے عام لوگوں کی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی اور آزاد انڈیا میں اس طرح کا جنون پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

انھوں نے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیا کہ مندر بالکل اسی جگہ تعمیر ہو گا جہاں بابری مسجد کھڑی ہے۔ انھوں نے اس کو ایمان کا معاملہ قرار دیا اور اس میں عدالت کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’جہاں رام پیدا ہوئے تھے، وہاں کوئی طاقت ہمیں رام مندر بنانے سے نہیں روک سکتی اور ہم مندر وہیں بنائیں گے۔‘

انھوں نے بابری مسجد کے مقام پر رام کی پیدائش سے وابستہ ہندو مذہب پر یقین رکھنے والوں کے عقیدے کے لیے حکومت کے دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کیا۔ انھوں نے کہا ’ہمیں کون روک سکتا ہے؟ کون سی حکومت؟‘

اس وقت رتھ یاترا کو ذات پات کی سیاست سے بھی وابستہ دیکھا گیا تھا کیوںکہ اس وقت کے وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے اقتدار میں رہنے کی خواہش کے ساتھ منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیا تھا۔

پنکج وہرا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’اڈوانی کی سومناتھ سے ایودھیا جانے والی رتھ یاترا کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اجازت نہیں دی تھی لیکن وہ وی پی سنگھ کے منڈل کمیشن کو نافذ کیے جانے کی وجہ سے سامنے آنے والی ذات پات کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھتے رہے۔‘

اڈوانی کی قیادت میں جارحانہ ہندتوا کی سیاست کا کافی فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سنہ 1996 کے عام انتخابات میں اس وقت پہنچا جب پارٹی نے 161 نشستیں حاصل کیں۔ یہ اس پارٹی کے لیے ایک بڑی چھلانگ تھی جس نے 1984 میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں۔

لیکن اڈوانی کی مقبولیت کے باوجود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بنی بی جے پی کی یہ پہلی حکومت صرف 13 دن تک چلی۔ تیرہ دن بعد پارلیمان میں اکثریت ثابت نہ کر پانے کی وجہ سے یہ حکومت گر گئی۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اڈوانی کے کیریئر میں سیاسی ڈھلوان آہستہ آہستہ آیا۔ اس کی وجوہات میں سنہ 2005 کے دو واقعات اہم رہے۔

ایل

اڈوانی نے جون میں کراچی کا دورہ کیا جہاں انھوں نے جناح کو سیکولر رہنما قرار دیا اور اس کے بعد اسی سال نومبر میں انھوں نے ممبئی میں پارٹی صدر کا عہدہ چھوڑ دیا۔

جناح سے متعلق اڈوانی کے بیان کی وجہ سےسیاسی طوفان کھڑا ہو گیا۔ اڈوانی، جو جارحانہ ہندوتوا کا چہرہ سمجھے جاتے تھے، انھیں ہمسایہ اور دشمن سمجھے جانے والے ملک میں ایک نرم ہندو کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

لیکن اڈوانی نے اپنے اس بیان پر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔

پاکستان کے دورے کے چھ ماہ بعد انھوں نے ایک رسالے کے سینئر ایڈیٹر سے کہا تھا ’میں نے جو پاکستان میں کہا اور کیا اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے جن مقاصد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، اس میں اس بات کا بھی کردار ہے۔ مجھے اپنے ہندو ہونے پر فخر ہے۔‘

’میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں، میں اسلام کے خلاف نہیں ہوں، میں پاکستان کے خلاف نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے نظریے اور مقصد دونوں کی خدمت کی ہے۔‘

بطور صحافی مجھے 2005 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سلور جوبلی کی تقریبات کو کوور کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس تقریب کا اہتمام بی جے پی کے ممتاز رہنما پرمود مہاجن نے کیا تھا۔ میں نے اڈوانی کو پارٹی کے کمان راجناتھ سنگھ کو سونپتے دیکھا۔ راج ناتھ سنگھ ان دنوں مودی حکومت میں وزیر دفاع ہیں۔

پارٹی کے نو منتخب صدر کی حیثیت سے راج ناتھ سنگھ نے مجھ سے کہا: ’یہ ایک نئی شروعات ہے۔ سنہ 2004 کے عام انتخابات میں ہم ہار چکے ہیں، ہمیں صرف 138 نشستیں ملی ہیں۔ نوجوان قیادت کو دوبارہ اقتدار تک پہنچانا میرا کام ہے۔‘

تاہم یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اپنے بہترین دور میں بھی، اڈوانی غیر محفوظ رہے۔ رام رتھ یاترا کے شاندار دنوں کے چند ماہ بعد، وہ سنہ 1991 میں نئی دلی لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑنے میدان میں اترے۔ ان کا مقابلہ کانگریس پارٹی کے امیدوار، بالی ووڈ سٹار راجیش کھنا سے تھا۔

راجیش کھنا کو سیاست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا لیکن انھوں نے ایک طرح سے اڈوانی کو ڈرا ہی دیا تھا۔ اڈوانی یہ انتخاب معمولی اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہوئے لیکن دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم کو کوور کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ راجیش کھنا کے جلسوں میں زیادہ لوگ شامل تھے۔

کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت کے دور میں 2004 سے 2009 تک، اڈوانی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے رہنما رہے۔ وہ کانگریس کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے اور ان کی قیادت میں پارٹی کو 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سنہ 2012 تک گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر سامنے آچکے تھے اور انھوں نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے دعویداری شروع کر دی تھی۔

جون سنہ 2013 میں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کمیٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ اڈوانی کو آنے والے وقت کا اندازہ تھا اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اپنے استعفے میں انھوں نے لکھا: ’پارٹی کے موجودہ رہنماوں کو اب اپنے ذاتی ایجنڈے کی فکر ہے۔‘

ان کے اس اقدام کو مودی کی تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔ اگرچہ سینئر رہنما اڈوانی کو اپنا استعفی واپس لینے کے لیے راضی کر لیا گیا لیکن انھوں نے مودی کے ہاتھوں شکست قبول کر لی تھی۔ مودی نے اپنی قیادت میں سنہ 2014 کے انتخابات میں پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی، جس نے اڈوانی کو سیاسی جلاوطنی کی طرف دھکیل دیا۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ رام مندر کی تحریک کی علامت رہنے والے اڈوانی پانچ اگست کو ایودھیا میں منعقدہ رام مندر بھومی پوجن میں غیر حاضر تھے۔ 93 سال کی عمر میں اڈوانی کو یقین ہو گا کہ انھوں نے 1990 کی دہائی کی انڈین سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اچھے کے لیے یا برے کے لیے؟ اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔

اشوک سنگھل

اشوک سنگھل: رام مندر کے آرکیٹیکٹ

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا سے چھ برس قبل وشو ہندو پریشد نے رام مندر کی تحریک شروع کی تھی۔

اس تحریک کے روح رواں وشو ہندو پریشد کے ایگزیکٹو صدر اشوک سنگھل تھے۔ ایودھیا کے بہت سے صحافیوں کا خیال ہے کہ رام مندر کی تحریک نے سنگھل کے تصور سے جنم لیا۔

اگرچہ اڈوانی نے اسے ایک سیاسی مسئلہ بنایا اور ہندوؤں کو متحد کیا لیکن اس میں سنگھل کا ایک اہم کردار تھا۔ پیشے سے انجینیئر سنگھل نے سنہ 1984 میں ایودھیا میں دھرم سنسد کا اہتمام کیا تھا اور اس کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے پجاریوں اور سادھوؤں کو متحد کرنا شروع کیا تھا۔

اس کے فوراً بعد ہی انھیں وشو ہندو پریشد کا ایگزیکٹو صدر بنا دیا گیا اور پھر انھوں نے مندر کی تحریک کو ایک عوامی تحریک بنانے کا کام کیا۔

سینئر صحافی مہیندر شرما نے وشو ہندو پریشد کے رہنماؤں کو ان کے شاندار دور میں دیکھا ہے۔ ان کے مطابق اشوک سنگھل بی جے پی اور ہندو پجاریوں اور سادھیوں کے درمیان ایک پل کا کام کر رہے تھے۔

مہیندر شرما نے کہا: ’وہ یقیناً ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے منشور اور انتخابی وعدوں میں رام مندر کے معاملے کو شامل کرنے کے لیے بی جے پی کو تیار کیا تھا۔ جب اڈوانی کی قیادت نے اس مندر کے لیے ایک سیاسی تحریک شروع ہوئی، تب سنگھل کی سربراہی میں وشو ہندو پریشد نے مندر کی تعمیر کے لیے تیاریوں کا آغاز کر دیا۔‘

پچھلے نومبر میں وشو ہندو پریشد کے ترجمان شرد شرما نے مجھے ایودھیا میں بتایا کہ یہ سنگھل کی دور اندیشی ہے جس نے لوگوں کو پچھلے 30 برسوں سے مندر کی تعمیر کے لیے تیار رکھا ہے۔

انھوں نے ایودھیا میں کارسیوک پورم کے بڑے سہن میں رکھے ہوئے نقاشی دار پتھر کے ٹکڑوں اور سلیبس کا معائنہ کرتے ہوئے ’جب ہم نے ستمبر 1990 میں رام مندر کی تعمیر شروع کی تو ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن ہمیں اس کام کا پھل ضرور ملے گا۔ ہم اس کے لیے سنگھل جی کے مقروض ہیں۔‘

وشو ہندو پریشد کے زیر انتظام ٹرسٹ رام جنم بھومی نیاس نے پچھلے 29 برسوں میں ان پتھر کے ٹکڑوں، سلیبس اور ستونوں کو تیار کیا ہے۔ ٹرسٹ اس کا کریڈٹ اشوک سنگھل کو دیتا ہے۔

مندر کی تحریک سے وابستہ سابق ممبر پارلیمنٹ رام ولاس ویدانتی نے مجھے نومبر میں بتایا تھا کہ سنگھل ہی رام مندر کے آرکیٹیکٹ تھے۔ انھوں نے کہا ’ان کی سخت محنت آخر کار کامیاب رہی۔‘

89 سال کی عمر میں اشوک سنگھل کا 2015 میں انتقال ہو گیا لیکن اس سے قبل انھوں نے اس بات کو یقینی بنا دیا تھا کہ آنے والے وقت میں ان کا نام رام مندر کی تاریخ میں درج کیا جائے گا۔

مرلی منوہر جوشی: سیاسی جلا وطنی

ایل کے اڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی کی طرح مرلی منوہر جوشی بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔

34 سال بعد، ہندوتوا کی سیاست کے نئے من پسند رہنما نریندر مودی کی سربراہی میں سنہ 2014 کے عام انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان تینوں کو نو تشکیل شدہ مارگ درشن منڈل میں جگہ دی گئی۔

وزیراعظم نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ بھی اس منڈل میں شامل ہیں۔ لیکن پارٹی کے بانیوں نے اسے ایک توہین کے طور پر دیکھا اور اس کے بعد یہ لوگ عوامی زندگی میں اتنے متحرک دکھائی نہیں دیے جیسا کہ پہلے ہوا کرتے تھے۔

جوشی نے بھی ایل کے اڈوانی کی طرح خاموشی اختیار کر لی ہے۔ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی عزت نفس بچانے کے لیے ایسا کیا۔

فزکس کے پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے ہندی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے پارٹی میں بہت اچھے دن دیکھے ہیں، خاص کر تب جب وہ پارٹی کے صدر تھے۔ بعد میں وہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر بھی رہے۔ وہ 13 دن چلنے والی واجپائی حکومت میں وزیر داخلہ بھی رہے۔

مرلی منوہر جوشی جدید گیجٹ سے دور رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ موبائل فون بھی نہیں رکھتے۔ اگر کوئی ان سے بات کرنا چاہے تو آسان ترین راستہ ان کا لینڈ لائن فون نمبر ہی ہے لیکن وہ ٹوئٹر پر موجود ہوتے ہیں اور تہواروں کے دن اکثر ٹویٹ بھی کرتے ہیں۔

ان کی ٹویٹس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے دور کے بی جے پی رہنما بھی ان سے ملتے جلتے رہے ہیں۔ جے پی نڈا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو کچھ دن پہلے ان سے ملے تھے۔ پارٹی صدر بننے کے بعد نڈا ان سے ملنے پہنچے۔

میں نے صحافی کی حیثیت سے ان کے ساتھ متعدد موقعوں پر ٹیلیفون پر بات چیت کی لیکن ہر گفتگو آف دی ریکارڈ ہی رہی۔ وہ کبھی بھی باقاعدہ انٹرویو دینے پر راضی نہیں ہوئے لیکن ان کے ساتھ گفتگو میں مختلف امور پر بات چیت ہوتی رہی۔ وہ متحرک سیاست سے بھلے ہی دور ہوں لیکن قومی اور بین الاقوامی سیاست میں کیا ہو رہا ہے وہ اس پر نظر رکھتے ہیں۔

وہ اپنی تیز ذہانت کا استعمال کرتے ہیں اور آسانی سے اس نکتہ پر اتفاق نہیں کرتے کہ ’موجودہ حکومت صرف سرخیوں سے چل رہی ہے۔‘ سیاسی امور پر ان کے تبصرے مختصر لیکن پراثر ہوتے تھے اور اور اس معاملے میں وہ ان کی جگہ لینے والے کچھ رہنماوں سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔

تنازعوں میں گھرے کٹیار

اپنے متنازعہ اور مسلم مخالف بیانات کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہنے والے ونے کٹیار نے بھی رام مندر کی تعمیر میں مستقل جگہ یقینی بنائی ہے۔

بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ کٹیار بجرنگ دل (وشو ہندو پریشد کی یوتھ یونٹ) کے بانی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بی جے پی کے نئے نظام میں اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے علاوہ 90 کی دہائی کے ہندوتوا کی سیاست کے کئی دوسرے رہنماؤں کی طرح ہی انھیں بھی کنارے کر دیا گیا۔

ونے کٹیار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے کیا تھا۔ کامرس گریجویٹ کٹیار جے پرکاش ناراین کی تحریک میں بھی سرگرم تھے۔ سنہ 1980 میں وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پرچارک بن گئے اور چار سال کے اندر ہی انھوں نے رام جنم بھومی تحریک کے لیے بجرنگ دل کی بنیاد رکھی۔

کٹیار جو بابری مسجد انہدام کیس میں لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ ملزم تھے سنہ 1991، 1996 اور 1999 میں فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے تین بار کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ فی الحال وہ راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp