کہیں ہم غلط میدان میں تو نہیں لڑ رہے؟


اگرکبھی ہم ڈسکوری یا جیوگرافک چینل دیکھیں توجانوروں سے ہمیں اپنے حریف کا مقابلہ کرنے سے متعلق بہت کچھ سیکھنے کوملتا ہے۔ جیسے جنگلی بھینسوں اور زیبروں کا ایک وسیع ریوڑ ندی کے ایک طرف گھاس ختم ہونے پہ ندی کے دوسرے کنارے کی طرف ندی کے اندر ایک جھنڈ میں سفر کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں پانی میں مگرمچھ اپنے سائز سے کم و بیش دس گنا بڑے جانور کو اپنا شکاربنا لیتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عقاب اپنے سائز سے کئی گنابڑے سانپ کوشکار کر لیتا ہے۔ اور اپنی بے پناہ مسکولر طاقت اور زہر کے باوجود سانپ عقاب کے آگے بے بس ہو کر اپنی جان دے دیتا ہے۔

ہمیں مگر مچھ اور عقاب سے دشمن کا مقابلہ کرنے کا ہنر سیکھنا ہو گا۔ اب ایک لمحے کے لیے رک کر یہ سوچیں کہ اگر وہی مگرمچھ ان بھینسوں پہ خشکی پہ حملہ کر دیتا تو اس کا کیا حشر ہوتا؟ یقیناً بھینسے اپنے نوکیلے سینگوں سے مگر مچھ کی تیکہ بوٹی ایک کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہی زیبرا بھی اپنی زبردست دلتیوں سے مگر مچھ کا بھرکس نکال سکتا تھا۔ جو پانی میں مگر مچھ کا آسان ہدف ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ عقاب کو زمین پہ بیٹھ کر سانپ سے مقابلے پہ آمادہ کریں یقیناً عقاب کی جرات اور ہمت سانپ کی مسکولر پاور کے آگے جواب دے جائے گی۔

عقاب اور مگر مچھ کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے شکار کو حملے کے دوران اس کے فیورٹ ہوم گراونڈ سے محروم کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے طاقت اور سائز میں زیادہ ہونا بھی ان کے کسی کام نہیں آتا۔ یہ ہی ہماری ناکامی کی وجہ ہے کہ ہم اپنے دشمن سے اس میدان میں مقابلہ کر رہے ہیں جس میں ہم ان کے کسی تناسب میں بھی نہیں آتے۔

ہم اپنے دشمنوں کو میدان جنگ میں دھول چٹانے کا عزم لیے بیٹھے ہیں اس حقیقت کے ساتھ کہ کوئی مسلمان ملک بھی ہتھیاروں کی فیلڈ میں خود کفیل نہیں ہے اور دوسرے ملکوں سے خرید کرتے ہیں۔ یعنی ہم دشمن کا لڑکر مقابلہ کرنے کی ٹھانے بیٹھے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہیں۔ ہم چھوٹی سی موبائل کی سم اور میموری کارڈ تک اپنے سے رقبے اور آبادی میں کئی گنا چھوٹے ممالک سے منگواتے ہیں خود تیار نہیں کر سکتے۔

ایسے میں ہمیں سب سے پہلے اپنی ترجیحات کی فہرست پھر سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کا ادراک بھی کرنا چاہیے کہ جدید دنیا کا رخ ترقی میں کس طرف ہے۔ بیسویں صدی صنعتی انقلاب کی صدی تھی۔ جس میں دنیا نے نئی سے نئی پراڈکٹ کو مارکیٹ میں متعارف ہوتے دیکھا۔ اور اکیسویں صدی علم پہ مبنی ٹیکنالوجی (knowledge based technology ) کی صدی ہے۔ اگر ہم نے اس ادراک سے غفلت میں اپنی توانائی غلظ سمت میں خرچ کر دی تو پھر نسلوں پہ محیط غلامی کا طوق ہی مقدر بنے گا۔

ہمیں دشمن کو دشمن کے میدان شکست دینی ہو گی اور پھر اس پہ سبقت حاصل کر کے اسے ہوم گراونڈ کے ایڈوانٹیج سے محروم کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں دو بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔

1۔ لیڈر شپ کے معیار میں تبدیلی
2۔ تعلیمی میدان میں قبلے کی درستگی

قیادت کی اہلیت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ بنانا ہو گا تاکہ ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں آنے والوں کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ ابتدائی طور پہ ہم اس ضمن میں قرآن سے مدد لے سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں قیادت کی اہلیت کے دو بہت واضح اصول بیان ہوئے ہیں۔ پہلا اصول سورہ یوسف میں مصر کے قحط کی صورت حال میں جب بادشاہ مصر نے یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر کے منصب کی پیشکش کی تو آپ نے محض زراعت کے وزیر کے طور پہ کام کرنے پہ آمادگی ظاہر کی اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ”میں دیانتدار ہوں اور اس شعبے میں مہارت رکھتا ہوں“ یہ ہی ہمارا پہلا اصول ہونا چاہیے کہ قیادت دیانتدار اور اہل شخص کے ہاتھ میں جائے۔ کسی کا محض دیانتدار ہونا بھی تبھی سودمند ثابت ہو سکتا اگر اس میں اہلیت موجود ہو گی۔ یہ ہی حال دیانتداری کے بغیر اہلیت کے دعوی کا ہے۔

دوسرا قرآن مجید میں سیدنا داود علیہ السلام کے جالوت سے مقابلے کی روداد ہے۔ اس میں بادشاہ طالوت نے اپنے لشکر کی کمان داود علیہ السلام کو اس لیے سونپی کہ آپ سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور شجاعت میں بے مثل تھے۔ یعنی قائد کے لیے علم اور بہادری بھی شرط ہونی چاہیے تاکہ وہ حالات کا بہتر تجزیہ کر کے فیصلے کر سکے اور پھر بہادری سے اپنے فیصلوں کی پاسداری کرے۔ اس سے ہمیں احتساب کے دائرہ کار کو غریب کی جھونپڑی سے نکال کر امیروں کے محلوں تک لے کر جانے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسری تبدیلی کے لیے ہمیں اپنے نصاب کو جدید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی درسگاہوں کا بانجھ پن بھی ختم کرناہو گ۔ ہماری کسی یونیورسٹی کا کوئی سٹوڈنٹ نوبل انعام حاصل کرئے تو دور کی بات کبھی کوئی نومینیٹ بھی نہیں ہو۔ غیر معیاری سلیبس اور متروکہ امتحانی نظام کے باعث ہماری ڈگری کو دنیا میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

ہمیں پبلک لائبریز اور لیبارٹیز کے رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔
ملکی سطح پہ ایجادات کے لیے وسیع انعامات اور سہولیات متعارف کروائی جائیں۔

پی۔ ایچ۔ ڈی کر کے آنے والے اساتذہ کرام کے پڑھانے کے بوجھ کو کم کر کے انھیں ریسرچ کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جائی۔

ٹیلنٹڈ افراد کو روٹی روزی کے دہندے سے آزاد کر کے انھیں ٹیلنٹ سکالرشپ دی جائیں۔

مخیر حضرات کو ایسے افراد کو ایڈاپٹ کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور جب کوئی وہ نئی چیز بنائیں تو اس کو ان دونوں کے مجموعی نام سے منسوب کرنے کے لیے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

روایتی تعلیم کو جتنا ہو سکے آہستہ آہستہ کم کیا جائے اس کی جگہ ٹیکنیکل تعلیم کو دی جائے کوئی بھی ڈگری کسی ٹیکنیکل سبجیکٹ کے بغیر نہ ہو۔ کسی بھی ٹیکنیکل ڈپلومہ ہولڈر کے بغیر کسی کو کئی کام کرنے کی اجازت نہ ہو۔

چائنا، ملیشیا، جنوبی کوریا، جاپان سمیت کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے سفر ہمارے ساتھ شروع کیا تھا لیکن صاحب بصیرت قیادت اور جدت پہ مبنی تعلیمی پالیسیوں کی بدولت ان کا شمار دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے۔ انڈیا میں نافذ ہونے والی نئی تعلیمی پالیسی بھی انہی ممالک کے نقش قدم چلتے ہوئے بنائی گئی ہے۔ اگر انڈیا کو بہترین قیادت میسر رہی جو اس نئی پالیسی کی عملداری کو ممکن بنا سکی تو ہم اپنی زندگیوں میں ہی بدلتا ہوا انڈیا بھی اسی طرح دیکھ سکیں گے جیسے ہم نے کوریا، جاپان، ملیشیا اور چائنا کو بدلتے دیکھا ہے۔

اگر ہم نے دشمن کا مقابلہ اس کی پسند کی جگہ پہ کیا تو ہمارا حشر اسی مگر مچھ جیسا ہو گا جو خشکی پہ حملہ آور ہوتا ہے۔ ہمیں جدت کے ساتھ خود کو ڈھالنا ہو گا تاکہ ہم کبھی بھی خود کو اس کیفیت میں نہ گزاریں یں جس سے جنگلی بھینسے اور زیبرے کو پانی میں اور سانپ کو فضا میں عقاب کے ہاتھوں گزرنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).