جدید صوفی


مہاجر اور خانہ بدوش اپنے اندر مشاہدات کا ایک سمندر اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں مشاہدات کو زبان کی شکل ملتی رہے تو داستاں گوئی کو کبھی زوال نہ آئے۔ آئیں، آپ کو ایک جدید صوفی سے ملواتے ہیں۔ ہماری ہجرت نے ہی ان سے ملاقات کو ممکن بنایا وگرنہ تو ان کا دیدار بس سوشل میڈیا کی سکرین کے توسط سے ہی ہوتا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے بطور پرنسپل اپنی ریٹائرمنٹ کی معینہ مدت سے ڈیڑھ سال قبل ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنی خوبصورت اور پر اثر گفتگو کے لئے مشہور ہیں اور بہت کم وقت میں اثر حاضر کے مشہور موٹیوشنل سپیکرز کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔

گزشتہ شب پیارے دوست خواجہ مظہر صدیقی صاحب نے ملاقات کا وقت لے کر ہمیں آگاہ کیا اور ہم چند مزید دوستوں کے ہمراہ کالج آف فزیشن اینڈ سرجیکل ایجوکیشن ملتان کے کانفرنس روم میں پہنچ گئے۔ اپنی حد تک رات کو ہی دو سوال طے کر رکھے تھے کہ ملاقات کے وقت اگر موقع ملا تو بس اپنے یہ سوال سامنے رکھیں گے۔

ہماری خوش نصیبی کہ ملاقات کے وقت نشست ڈاکٹر صاحب کے بالمقابل مل گئی۔ سب سے پہلے تو سب سے مختصر تعارف لیا گیا اور اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اپنی ساری زندگی کا پڑھنے سے پڑھانے تک کا احوال بہت مختصر اور جامع انداز سے بتایا کہ کسی سوال کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

اس کے بعد سوال کرنے کا موقع ملا تو میں نے پوچھا کہ آپ بہت دیر کے بعد لیکن اچانک سوشل میڈیا پر آئے اور آتے ہی چھا گئے یہ سب کیسے ممکن ہوا؟

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے پھیل جائے گا۔ یہ سب کچھ غیر ارادی طور پر شروع ہوا اور پھر اللہ پاک کے کرم سے اتنا آگے بڑھ گیا کہ یو ٹیوب انتظامیہ نے انہیں خود ای میل کر کے کہا کہ آپ نے ابھی تک مونیٹرائزیشن کے لئے اپلائی کیوں نہیں کیا؟ اور اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ ایک ٹیم بنائی جس نے اب ان کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ کو دیکھ رہی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کم لیکن معیاری کام کرنے کے اصول پر کاربند ہیں۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ موجودہ حالات میں بحیثیت فرد اپنی ذمہ داری کو کیسے نبھایا جائے؟

ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت فرد Narrow beam focused کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا بہترین اثر دوسروں پر پڑے۔ آئے روز ہم نئے ادارے بنانے اور ان کی تنظیم سازی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور مقصدیت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ ہم چند لوگوں کو اپنے جیسا تیار کر لیں اور پھر ان کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ مزید اتنے ہی افراد تیار کریں۔ یوں ہم موجودہ دور کے حالات میں اپنا بہترین حصہ ڈال سکتے ہیں۔

ان کامزید یہ کہنا تھا کہ جس کام کے بعد آپ زیادہ ابھر کر سامنے آئیں اور کام پیچھے رہ جائے تو پھر سمجھ لیں کہ کام نہیں ہوا لیکن اگر کام سامنے رہے اور آپ پس پشت چلے جائیں تو پھر ہی اس کام کا مقصد پورا ہوا۔

ڈاکٹر صاحب پڑھنے کے بعد ڈاکٹروں کو بھی پڑھا رہے ہیں اور انہوں نے طبی تعلیم پڑھانے کی باقاعدہ تعلیم پاکستان اور پھر گلاسکو سے Mentoring کا کورس کیا ہے۔ جب ان سے سوال کیا کہ آپ بطور استاد پڑھانے والوں اور تربیت کاروں کو کیا نصیحت کریں گے کہ وہ پر اثر تعلیم دیں؟ جس پر وہ گویا ہوئے کہ اس ضمن میں دو باتیں یاد رکھیں

پہلی یہ کہ سیکھنے والے کے لئے آپ ایک پسندیدہ شخصیت ہوں۔

اور دوسری بات یہ کہ آپ knowledge کی بجائے knowing سکھائیں یعنی حق الیقین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات سکھائیں جس پر آپ کو خود بھی یقین ہو۔

ساتھ ساتھ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے بتایا کہ وہ والدین کی تربیت کے حوالے سے ایک پروگرام تشکیل دے رہے ہیں جو کہ ایک سال کا طویل دورانیہ کا کورس ہوگا۔ اور اس کے پینتالیس مختلف ابواب ہوں گے۔ اس حوالے سے پوری ایک ٹیم محنت کر رہی ہے اور یہ پروگرام پاکستان کے طول وعرض میں سبھی والدین کے لئے ہو گا۔ کیونکہ بچوں کی تربیت کی بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب جیسے صوفی منش لوگ پاکستان کا اثاثہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایک ایسا دیا جلائے رکھتے ہیں جس کی روشنی سے پورا معاشرہ منور ہوتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک بہت عمدہ مثال بھی دی کہ پھلجھڑی کی روشنی سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں لیکن اس روشنی سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ پھلجھڑیاں روشن کرنے کی بجائے دیے جلائے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).