گیلیلیو ۔۔۔ مذہبی احتساب کے کٹہرے میں


سترہویں صدی میں جب یورپ میں عیسائیت کا غلبہ زوروں پر تھا۔ دو سائنسدانوں کو پاپائے روم کے حکم پر اس وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر نا پڑیں کیونکہ وہ مقدس بائیبل کے اس نظرے سے متفق نہ تھے کہ زمین کا ئنات کا مرکز ہے۔

ذرا چشم تصور کے سامنے روم شہر کا نقشہ لائیں جب 17 فروری 1600 کو ایک سائنسداں (سابقہ کیتھولک پادری) کو پبلک اسکوائر Campo de ’Fiori میں بر ہنہ جسم خچر پر بٹھا کر زبردستی لا یا گیا اور زمین میں گڑے لکڑی کے پول سے مضبوطی سے رسیوں میں جکڑ کر اس کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کا قصور؟ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمارے نظام شمسی کی طرح اور بھی نظام شمسی ہیں۔ کائنات لا محدود ہے اس میں ہمارے سورج کی طرح اور بھی سورج موجود ہیں۔ نیز یہ کہ زمین سور ج کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پولش سائنسداں نکولس کو پر نیکس (وفات 1543 ) کے نظام کائنات پر یقین رکھتا تھا۔ اس سائنسداں کا نام جیورڈانو برونو Giordano Bruno تھا۔ اس پر پوپ کی مذہبی عدالت احتساب Inquisition میں مقدمہ چلایا گیا اور کارڈینل بیلارمین Bellarmine نے فیصلہ دیا کہ اس کو زندہ نذر آتش کر دیا جائے۔ آج چار سو سال بعد اسی پبلک اسکوایئر میں برونو کا دیو قامت مجسمہ موجود ہے جہاں ہر سال 17 فروری کو شہر کا مئیر اس کے پاؤں پر پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے۔ برونو کو اس کے سا ئنسی آئیڈیاز کی وجہ سے موت کا پیالہ پینا پڑا۔ اس کے خیالات چرچ سے میل نہ کھاتے تھے۔

برونو کے سائنسی نظریات پوپ کلے منٹ ہشتم Pope Clement VIII کو سخت ناگوار گزرتے تھے کیونکہ ان سے بائیبل کے عقائد پر کاری ضرب لگتی تھی۔ حالانکہ برونو ایک عرصہ تک بطور پادری کے عیسائیت کا پرچار کرتا رہا تھا۔ مگر جب حقیقت اس پر آشکار ہوگئی تو اس نے اس کا برملا اظہار کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو جیل میں پابند سلاسل کر دیا گیا جہاں وہ سات سال تک سختیاں جھیلتا رہا۔ آخر کار اس پر تین ججوں کی مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

پوپ نے اس کو ملحد وزندیق قرار دے دیا اور عدالت نے فیصلہ دیا یہ شخص سزا کا مستحق ہے مگر اس کے خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہنا چاہیے۔ جس کا مطلب تھا ملحد کو آگ میں جلا دو۔ جب اس کے ارد گرد لکڑیوں کو آگ لگائی جانے لگی تو وہاں موجود پادریوں کو وہ یوں مخاطب ہوا: تم لوگ اس فیصلے سے زیادہ خوف زدہ ہو جتنا کہ وہ شخص جس کے خلاف یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔

برونو کے الفاظ حقیقت کے آئینہ دار تھے۔ فی الواقعہ روم کی اسٹیبلشمنٹ کو پرنیکس کے نظریات سے سخت خوف زدہ تھی۔ برونو کو آگ میں جلا کر انہوں نے نظریات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی مگر صد حیف پاپائے روم اور اس کے پیروکار یہ نہیں جانتے تھے کہ سائنس کی دنیا میں نئے نظریات کے سیلاب کو وہ اپنے فرسودہ فتاویٰ کے ذریعہ روک نہیں سکیں گے۔ انسان کو آگ میں خس و خاشاک کیا جا سکتا ہے مگر آئیڈیاز کو نہیں۔ برونو کو تو انہوں نے سپرد خاک کر دیا مگر اب اس کی جگہہ جو لینے والا تھا وہ اس سے بھی زیادہ بہادر، بے خوف اور مرد قلند ر تھا۔ اس کا نام تھا گیلی لیو جس کو ماڈرن سائنس کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے۔

گیلی لیو کی ولادت فروری 1564 کو اٹلی کے شہر پیسا Pisaمیں ہوئی تھی جو لیننگ ٹاور کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے والد نے اس کو شہر کی یونیورسٹی میں میڈیسن کی تعلیم کے لئے داخل کرایا مگر اس کو اس میں دلچسپی نہیں تھی اس لئے وہ سارا وقت ریاضی کے لیکچر ہال کے باہر گزار دیتا تھا۔ ایک روز اس نے جیو میٹری پر لیکچر سنا جس کے بعد اس نے سائنس میں اپنا مستقبل بنانے کا عزم کر لیا۔ ابھی وہ 23 سال کا تھا کہ اس کا تقرر اسی یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر کے طور پر ہو گیا۔ اس کے والد بذات خود ریاضی کے ایک قابل ریاضی داں تھے جس کے سات بچے تھے۔ گیلی لیو سب سے بڑا بیٹا تھا۔

گیلی لیو کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی۔ ایک روز وہ شہر کے کیتھڈرل میں صبح کے وقت گیا تو اس نے مشاہدہ کیا کہ کھڑکی سے آتی ہوا کے جھونکوں سے چھت سے لٹکا لیمپ ایک طرف سے دوسری طرف جھول رہا تھا۔ جوں ہی ہوا کا زور کم ہوا تو لیمپ کی گردش بھی کم ہو گئی۔ مشاہدہ کی بات یہ تھی کہ لیمپ کی سونگ چاہے لمبی تھی یا مختصر دونوں میں ایک جیسا وقت لگتا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کتنا وقت لگتا تھا اس نے اپنی نبض کو گھڑی کے طور پر استعمال کیا۔

اس معمولی مشاہدے سے اس نے لاء آف پنڈولم دریافت کر لیا۔ بعد میں اس نے اپنی لیبارٹری میں پتہ لگایا کہ اس پنڈولم کے کونے پر لگے وزن کا اس کی سونگ swing پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ بعد میں اسی اصول پر گھڑیاں بنائی گئیں جن میں پینڈولم لگا ہوتا تھا۔ راقم نے ایسے گھڑیاں تیس سال قبل دیکھی ہوئی ہیں جن میں سے بعض ایک میں پرندے Cucoo کی گونج آتی تھی۔

گیلی لیونے اپنی بنائی ٹیلی سکوپ سے چاند کے شبانہ روز اور حسابی مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ہموار نہیں ہے بلکہ اس کی سطح پر لکیریں اور بڑے بڑے کھڈے craters ہیں، اس میں وادیاں بھی ہیں جن میں اس نے سایہ دیکھا۔ وہ پہاڑ جن کا رخ سورج کی طرف تھا وہ روشن تھے۔ اس لئے ان حقائق سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا کہ یہ جمیل و حسین چاند ہماری زمین کی طرح سورج کی روشنی سے چمکتا تھا بذات خود اس کی کوئی روشنی نہیں تھی۔ یہ تمام مشاہدات اس نے 1610 میں شائع ہونے والی کتاب Starry Messenger میں درج کر دیے۔

پھر ایک رات وہ مشتری (Jupiter) کے مشاہدہ میں مصروف تھا تو اس نے اس کے ارد گرد تین چاند دیکھے بعد میں جو چار چاند نکلے اور آج کل کی تازہ تحقیق کے مطابق اس کے سولہ سٹیلائٹ ہیں۔ عجیب بات یہ کہ یہ چاند مشتری کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔ گیلی لیو نے جتنی تہلکہ خیز دریافتیں کیں ان میں سے مشتری کے چار چاند پر اس کو بہت ناز تھا۔ کیونکہ اس سے کو پر نیکس کے کائنات کے سسٹم کا واضح اور ٹھوس ثبوت ملتا تھا۔ اسی سال انسانی تاریخ میں اس نے پہلی باردریافت کیا کہ نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل کے اردگرد چھلے ہیں Rings of Saturn۔ اس سائنسی دریافت کے بعد اس نے ایک اور دریافت کی کہ زہر ہ Venus جو کہ سورج سے سب سے نزدیک ہے اس کی ہمارے چاند کی طرح مختلف منازل Phases تھیں۔ جس طرح ہم ہلال دیکھتے، پھر نصف چاند اور پھر چودھویں کا چاند بالکل اسی طرح زہرہ سیارے کی مختلف منازل تھیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ زہرہ سورج کے گرد گھومتا تھا۔ یہ ایک اورکوپرنیکس کے نظام ہیئت کا اور ثبوت تھا۔ نیز یہ بطلیموس کے جیو سینٹرک ماڈل کی قطعی تردید تھی جس کی حمایت کیتھولک چرچ کرتا تھا۔ گیلی لیو کے نظریات ارسطو اور بطلیموس کے بہت سارے نظریات کی قطعی تردید کرتے تھے جو کیتھولک چرچ کے نظریات و عقائدپر کاری ضرب لگاتے تھے۔

یاد رہے کہ گیلی لیو سے قبل اٹلی کے سا ئنسداں جیور ڈانو برونو پھانسی پر لٹکا یا گیا تھا کیونکہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ کائنات لا محدود ہے اور اس میں اور بھی دنیا ئیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے مقدمے میں بیلارمینBellarmino Father نے حصہ لیا تھا جیسا کہ اب وہ گیلی لیو کے مقدمے میں ملوث تھا۔

گیلی لیو کو اب تک بہت سارے اعزازات سے نوازا گیا تھا مگر حیرت کی با ت یہ کہ اس کی زندگی پر 400 کتابیں شا ئع ہو چکی تھیں جن میں چالیس فی صد اس کی تعریف و توصیف میں تھیں۔ ان میں 170 کتابیں اٹلی سے با ہر دیگر ممالک میں شائع ہوئی تھیں۔ 1611 میں ٹیلی سکوپ کا لفظ ایجاد ہوا، اس سے پہلے اس کو سپائی گلاس کہا جاتا تھا۔ ٹیلی سکوپ پر پہلی کتاب 1618 میں شائع ہوئی جس کا مصنف میلان کا شہری سر ٹوری Sirtori تھا۔

جب اس نے یہ سارے شواہد اکٹھے کرلئے تو اس نے یو نیورسٹی کے پر وفیسروں سے کہا کہ مشتری سیارے کے چاند اور زہرہ کی منازل اس بات کی بین دلیل ہیں کہ زمین اس کا ئنات کا مرکز نہیں بلکہ سورج ہے۔ اس کو غصہ بہت جلد آ جاتا تھا مگر ٹھنڈا بھی جلد ہوجاتا تھا۔ اس کی زبان تیز و ترش تھی blunt and sarcastic۔ وہ بے باک ہو نے کے ساتھ صاف گو اور تمسخر آمیز بھی تھا۔ اپنے علمیت پر اس کو بہت ناز تھا۔ اسی لئے پیڈوا یو نیورسٹی میں اس کے زیادہ دوست نہیں تھے جہاں وہ اٹھارہ سال تک جیو میٹر ی اور اسٹرانومی کے لیکچر دیتا رہا تھا۔ اس کو ہوش مند اور ہونہار طالبعلم پسند تھے مگر کند ذ ہن طالبعلموں سے وہ سخت ناراض ہوتا تھا۔ صرف ذہین اور قابل طالب علموں کو وہ پرائیویٹ ٹیوشن دیتا تھا۔ یاد رہے کہ کوپرنیکس نے بھی اسی یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ بے حد مے نوش تھا۔

کچھ عرصہ بعد اس نے سورج کے مسلسل مشاہدے کے بعد اس کی سطح پر دھبے Sun۔ spotsدریافت کیے جو اس بات کی علامت تھی کہ سورج اپنے محور کے گرد گھومتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح زمین اپنے محور پر گھومتی ہے۔ جب پادریوں اور شہر کے مذہبی علما کو اس دعوے کا علم ہوا تووہ بہت افروختہ ہوئے کہ پہلے اس نے زمین کے کا ئنات کا مرکزہونے سے انکار کیا اوراب سورج پر دھبے دریافت کر بیٹھا ہے۔ یہ دریافت گیلی لیو کے لئے ساری عمرمتنازعہ بات رہی کیونکہ ایک پادری کرسٹو فر شائنر Scheinerنے دعویٰ کر دیا کہ گیلی لیو سے پہلے سن سپاٹس اس نے دریافت کیے ہیں۔

کوپرنیکس نے سائنسی شواہد سے ثابت کیا تھا کہ سورج کائنات کا مر کز ہے۔ اس کی تائید گیلی لیو نے کی تھی۔ اس کے قریب تین سو سال بعد سائنسی نظریات بدلنے لگے اور ہا رلو شوپیلی Harlow Shapelyنے ثابت کر دیا کہ ملکی وے گیلگسی میں نظام شمسی مرکز میں نہیں ہے بلکہ 2 / 3 ہٹ کر گیکلسی کے دور حصہ میں ہے۔ اس کے بعد ایڈون ہبل Edwin Hubbleنے دریافت کیا کہ کائنات میں اور گیلکسیز بھی موجودہیں۔ آج ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ شاید کا ئنات کے نظر آنے والے حصہ میں دو ٹر یلین گیلیسیز ہیں۔ بلکہ اب تو سا ئنسدان کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک یو نیورس نہیں بلکہ ملٹی ورس میں رہ رہے ہیں۔

Galileo before the Holy Office

25 مئی 1616 کو گیلی لیو نے گھر کے دروازے پر دستک سنی، دورازہ کھولا تو کوتوال نے ہاتھ میں تھامے عدالتی پروانے کو اونچی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ ۔ ”تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے نظریات کے پرچار سے فوراً باز آجاؤ، جو ارسطو کے نظریات کے خلاف ہیں اگر تم نے حکم عدولی کی تو پھر۔۔۔“ اس کو سمجھ آ گئی کہ اس بار تو اس کو دھمکی سے خوف زدہ کیا جا رہا ہے مگر اگلی بار ایسا نہ ہوگا۔

گیلی لیو کے عزت مآب پوپ کے ساتھ ایک عرصے سے دوستانہ تعلقات تھے مثلاً 1615 میں وہ روم گیا تو اس نے چرچ کے حکام کو کو پرنیکس کے نظام شمسی میں دلائل دے کر قائل کرنے کی کوشش کی مگر پوپ پال پنجم Pope Paul V اس کی اس حرکت سے خفا ہو گیا۔ عزت مآب پوپ نے زمین کی گردش پر تحقیق کے لئے کمیشن مقرر کر دیا۔ چنانچہ 1616 میں کیتھولک چرچ کی مذہبی عدالت ان کو ئے زیشن Inquisitionنے اعلان کر دیا کہ ایسی تمام کتابیں جن میں سورج کے کائنات کا مرکز ہونے کے دلائل تھے ان کو ضبط کر لیا جائے۔ اس کی کتاب ڈائیلاگ Dialogo di Galileo کو ”انڈیکس آف فار بڈن بکس“ میں شامل کر دیا گیا۔

گیلی لیو کو پرنیکس کے سائنسی نظریات کا زبردست حامی تھا یعنی زمین کا ئنات کا مر کز نہیں جو کہ صریحا با ئیبل کی تعلیم کے خلاف اور چرچ کے عقائد پر کاری ضرب تھی۔ گیلی لیو کو حکم دیا گیا کہ heliocentric تھیوری کے حق میں تھیوریزکی تعلیم دینے، دلائل دینے اور ان کاتقریر یا تحریر میں دفاع کرنے سے باز رہے۔ اس سال گیلی لیو کو دھمکی دی گئی تو اس نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ اگلے تین سال تک اس نے کوئی کتاب شائع نہ کی۔

1623 میں اس نے کتاب Assayer شائع کی اور اس کے اگلے سال 1624 میں وہ روم گیا تا نئے منتخب پوپ سے درخواست کرے کہ اس کے خلاف پہلا تادیبی حکم منسوخ کر دیا جائے۔ پوپ نے ایسا تو نہ کیا البتہ پرانی دوستی اور واقفیت کی بناء پر اس کو کتاب لکھنے کی اجازت دے دی۔ اس شرط پر کہ اس میں زمین کی گردش کے حق میں اور اس کے خلاف تمام دلائل فراہم کیے جائیں۔

اس نئی کتاب کا Dialogue Concerning the Two Chief World System نام تھا جو 1632 میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کو پرنیکس کی تھیوریز کی تائید کی گئی اور ثابت کیا گیا کہ ہماری زمین دیگر سیاروں کی طرح ہی ہے۔ سائنس کے جن قوانین کا یہاں روئے ارض پر اطلا ق ہوتا ان ہی کا اطلاق دوسرے سیاروں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کتاب میں گیلی لیو نے زمین کی ڈبل موشن double motion کا بھی ذکرکیا۔ نیز مد و جزر کی سا ئنسی وجہ بیان کی کہ یہ چاند کی کرہ زمین پر کشش ثقل کے اثر سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس نے دلیل دی کہ مد و جزر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی، اپنے دور کی بیسٹ سیلر تھی۔

انکوئے زیشن کی مذہبی عدالت میں 1633 میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی تھیوری کا انکار کر ے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

روم میں اس کا قیام پہاڑی پر واقع Villa Medici میں تھا۔ مقدمہ 12، اپریل کو شروع ہوا اور 22 جون 1633 کو ختم ہوا، اگرچہ جرح (انٹیروگیشن) 12 اپریل سے لے کر 10 مئی تک ہوئی تھی۔ پوپ نے اپنا فیصلہ 16 جون کو دیا اور سزا چھ دن بعد سنائی گئی تھی۔ مقدمہ کی سماعت روم کے پین تھیان کے قریب واقع سانٹا میریا کان وینٹ Santa Maria میں لاطینی میں شروع ہوئی۔ انکوئے زیشن (Congregation of Holy Office) کے ممبران 10 کارڈینل تھے۔

انٹیرو گیشن کا انچارج کارڈینل میکالانو Maculano تھا۔ عقو بت اور جسمانی سزا کے خوف سے اس نے توبہ کر لی جو کہ درحقیقت plea bargaining تھی۔ لیکن جب وہ عدالت کے کمرے سے باہر جا رہا تھا تو اس نے زیر لب کہا کچھ بھی ہو یہ گھومتی ضرور ہے E pur i muove۔ عدالت میں گیلی لیو اپنے گھنٹوں پرجھکا ہوا تھا جب 22 جون کو اس کو سزا سنائی گئی۔ اس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ کہ تم پر الحاد کا شک کیا جاتا ہے یعنی تم ایک ایسے سا ئنسی نظرے پر یقین رکھتے ہو جو کہ مقدس کتاب کے خلاف ہے یعنی سورج دنیا کا مرکز ہے اور یہ مشرق سے مغرب کی جانب نہیں جاتا۔

یہ کہ زمین حرکت پذیر ہے اور یہ کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ سزا کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ہو لی آفس کے اختیار میں ہے کہ اس کو کتنی مدت کے لئے پابند سلاسل کیاجائے، مز ید یہ کہ وہ تین سال تک ہفتے میں ایک بارزبور Psalms کا ورد سات دفعہ کرے اور نئی کتابDialogo کو ضبط کر لیا جائے جو کہ دو افراد کے مابین مکالمہ ہے۔ گھٹنوں پر جھک کر اس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا: ”میں اپنے خیالات سے تو بہ کر تا ہوں، ان پر لعنت بھیجتا ہوں، اور بیا ن کی گئی غلطیوں اور کفر سے منکر ہوتا ہوں“ ۔

یاد رہے کہ رومن انکوئے زیشن کا مطالعہ زیادہ نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے آرکائیوز 1998 تک سکالرز کے لئے بند تھے۔ تمام ریکارڈ ٹرینٹی کالج ڈبلن میں محفوظ ہے۔ اس کو عمر بھر قید کی سزا دی گئی مگرپوپ کے حکم پر اگلے روز اس کی ضعیفی، نا بینائی اور گٹھیا جیسے عوارض کے پیش نظر سزا کم کر کے ہا ؤس اریسٹ کر دیا گیا۔ گیلی لیودسمبر 1633 سے اگلے نو سال فلورنس Arcetriمیں اپنے گھر میں نظر بند رہا۔ 8 جنوری 1642 کو شام کے وقت وہ نمو نیا اور دل بند ہونے سے راہی ملک عدم ہوا۔

اس کی عمر 77 سا، 10 مہینے اور 20 دن تھی۔ اس نے اپنے پیچھے دو بیٹیاں، ایک بیٹا Vincenzo چھوڑا جو میڈیکل ڈاکٹر تھا۔ اس کو فلورنس کے Basilica of St Croce کے چھوٹے نا معلوم حصے میں دفنا یا گیا۔ ایک سو سال تک وہ یہیں پر آسودہ خاک رہا مگر 12 مارچ 1737 کو اس کواسی چرچ کی ایک اورکھلی جگہہ پر دفنایا گیا جس کے اوپر شاندار یادگار تعمیر کی گئی۔ جب اس کو دوسری دفعہ دفن کیا گیا تو اس کے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں، ایک دانت اور، ریڑھ کی ہڈی کو محفوظ کر لیا گیا۔ فلورنس کے گیلی لیو میوزیم میں دوانگلیاں (انگوٹھا اور درمیانی انگلی) اور دانت گلا س مرتبان میں رکھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تیسری انگلی یونیورسٹی آف پیڈوا میں ہے جہاں وہ پروفیسر رہا تھا۔ لحد میں اس کی بیٹی Maria Celeste کاجسم بھی دفن ہے جس کی وفات 33 سال کی عمر میں ڈائی سینٹری سے ہوئی تھی۔

گیلیلیو

نیویارک ٹائمز نے یکم نومبر 1992 میں رپورٹ کیا کہ The Earth revolves around the sun، even for the Vatican۔ گیلی لیو کی وفات کے 343 سال بعد پوپ جان پال دوم نے پونٹی فیشل اکیڈئمی آف سائنسز کے اجلاس میں اعلان کیا کہ گیلی لیوکے سائنسی نظریات ٹھیک تھے۔ پوپ نے 1979 میں منتخب ہونے کے بعد اکیڈیمی اف سائنسز کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی کہ اس معاملے میں تحقیق کرے۔ کمیٹی نے فیصلہ سنا یا کہ انکوئے زیشن غلط تھی اور گیلی لیو صحیح تھا۔

دراصل یہ تنازعہ چرچ اور گیلی لیو کے درمیان نہیں تھا بلکہ سائنس اور مذ ہب کے درمیان تھا جس میں آخرکار پوپ کو سائنس کے آگے سر خم تسلیم کر نا پڑا۔ جب بھی کوئی نئی چیز دنیا میں سامنے آتی رجعت پسند لوگ پہلے اس کی مخالفت کرتے مگر بعد میں اس کو گلے لگا لیتے ہیں۔ یہ تنازعہ دانشورانہ آزادی intellectual freedom، فریڈم آف تھاٹ، فریڈم آف سپئچ پر ناروا رکیک حملہ تھا۔ گیلی لیو کے اس افسوس ناک مقدمے سے یہ سبق اخذ ہوتا کہ مذہبی، سائنسی یا دیگر آرا رکھنے کے باعث کسی کو قید کر نا یا زبان بندی کرنا غلط ہے۔ آج اس مقدمے کی تفصیل پڑھ کر ہم انکوئے زیشن کو برا بھلا کہتے مگر گیلی لیو کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں جس نے جابر سلطان کے آگے کلمہ حق پڑھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).