عمران خان کا واشنگٹن پوسٹ میں کالم: افغانستان سے ’فوجوں کے انخلا میں جلدبازی‘ نہ کرنے کا مشورہ کیوں؟


پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے کالم میں کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام نزدیک ہے تاہم ملک سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا میں جلد بازی دانائی نہیں ہو گی۔

سنیچر کو شائع ہونے والے اس کالم میں عمران خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی میز پر ایک پُرامن توقف جنگ کے میدان میں خونریزی سے بہتر ہے۔

انھوں نے اپنے کالم میں ‘جبر کے سائے میں امن مذاکرات’ کی مخالفت کی اور تمام فریقین سے ‘کشیدگی کم کرنے’ کا مطالبہ کیا تاہم اس دوران ‘فائر بندی’ کی بات نہیں کی۔

خیال رہے کہ عمران خان کا یہ کالم ایک ایسے وقت میں شائع کیا گیا ہے جب دوحا میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تاریخی بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بین الافغان مذاکرات کی کامیابی میں ’نظریاتی اختلافات‘ بڑی رکاوٹ

افغان امن مذاکرات کے اگلے مرحلے میں کیا ہو گا

بین الافغان مذاکرات، پاکستان اور انڈیا سمیت تمام ملکوں کا مثبت ردعمل

یہ مذاکرات فروری میں امریکہ اور طالبان کے سکیورٹی معاہدے کے بعد شروع ہونا تھے تاہم کچھ متنازعہ قیدیوں کے تبادلے پر اختلافات کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

تو عمران خان کی جانب سے جلد بازی نہ کرنے کا مشورہ کس جانب اشارہ ہے، ان کی جانب سے جنگ بندی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا گیا اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی پر زور دینے کی وجہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں رحیم اللہ یوسفزئی اور سلیم صافی سے بات کی ہے۔

طالبان

'تین نومبر سے پہلے کوئی بڑی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی'

تین نومبر کو امریکی صدارتی انتخاب ہو رہے ہیں اور متعدد تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ الیکشن سے پہلے ٹرمپ اپنے حامیوں کو افغانستان سے کوئی اچھی خبر دینے پر مصر ہیں۔ تو کیا امریکہ کی جانب سے نتیجہ خیز مذاکرات کرنے کے بارے میں دباؤ کے باعث عمران خان کو جلدبازی نہ کرنے کا مشورہ دینا پڑا؟

رحیم اللہ یوسفزئی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جلدبازی سے متعلق عمران خان نے ایک عمومی بات کی ہے اور اسے ان کی نصیحت، یا خواہش سمجھ سکتے ہیں یا ان کا تجزیہ ہے کہ اس حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ تین نومبر سے پہلے بین الافغان مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ 12 ستمبر کو مذاکرات کا آغاز ہوا اور ابھی تک ایجنڈا، مراحل اور دیگر معاملات پر بحث ہو رہی ہے۔

امریکی الیکشن اور ٹرمپ کی افغانستان سے جلد کسی بڑی پیش رفت کی امید پر بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یقیناً ٹرمپ انتظامیہ کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے جس میں معیشت، کورونا وائرس اور نسلی امتیاز سے متعلق انتشار شامل ہیں تاہم ان کے بقول وہ مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ ایک ناقابلِ یقین امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

‘امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ اگر طالبان آغاز میں جنگ بندی کی شرط مان لیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی تاہم ابھی تک طالبان نے اس دباؤ کو برداشت کیا ہے اور یہ بات مانی نہیں ہے۔’

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ جس جلد بازی میں امریکہ نے افغان طالبان سے معاہدہ کیا گیا کہ تو پاکستان اس وقت خوش تھا لیکن افغان حکومت اس وقت ٹرمپ انتظامیہ سے شکوہ کر رہی تھی کہ انھوں نے اس حوالے سے جلد بازی کی۔

‘جان بولٹن کی کتاب میں بھی اس بات کا ذکر تھا کہ اس حوالے سے جو کچھ ہوا وہ ٹرمپ کی جانب سے انتظامیہ کی مجموعی مرضی کے خلاف ہوا۔ ظاہر ہے انھیں اپنے اخراجات کم کرنے کی جلد بازی ہے کیونکہ ابھی الیکشن بھی آ رہا ہے اور چاہیں گے کہ امریکی عوام کو یہ دکھا سکیں کہ وہ امریکی افواج کو وطن واپس لا رہے ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور خود افغان حکومت کی بھی یہ تشویش ہو گی کہ اگر بین الافغان مذاکرات سے پہلے امریکی انخلا کرتے ہیں یا افغانستان کو ویسے ہی چھوڑتے ہیں جیسے 90 کی دہائی میں چھوڑا گیا تھا تو یہ ایک سانحہ ہو گا اور افغانستان کے بعد اگر کسی کو اس بات کا سب سے زیادہ نقصان ہو گا تو وہ پاکستان ہو گا۔

‘یقیناً پاکستان بھی چاہے گا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہو لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے پہلے افعانستان میں سیاسی استحکام بھی آ جائے اور معاشی بحالی کا بھی انتظام کیا جائے۔

طالبان

'جنگ بندی' کی جگہ 'تشدد میں کمی' کے الفاظ کیوں؟

عمران خان کی جانب سے جنگ بندی کی جگہ تشدد میں کمی کے الفاظ کے استعمال پر تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق بھی امریکہ کی جانب سے بنیادی غلطی کی گئی تھی کیونکہ افغان طالبان کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات میں سب سے پہلے ‘کشیدگی میں کمی’ کے الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا اور امریکہ نے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘اب تک طالبان جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوئے لیکن افغان حکومت کی بھی یہ خواہش ہے کہ طالبان جنگ بندی کر لیں، اور مذاکرات میں پہلا نکتہ بھی یہی رکھا جا رہا ہے۔

‘میری معلومات کے مطابق پسِ پردہ پاکستان میں جو لوگ افغانستان اور ایسے معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کریں لیکن کیونکہ فی الحال طالبان آمادہ نہیں ہیں اس لیے عمران خان کی جانب سے بھی ان ہی الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے جو امریکہ طالبان معاہدے میں سامنے آیا تھا۔

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے مطالبے کی افغانستان کے اندر اور باہر خاصی حمایت ہے اور طالبان پر اس ضمن میں دباؤ بھی ہے۔

‘لیکن طالبان اب مذاکرات کرنے میں خاصے ماہر ہو گئے ہیں اور مختلف ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقاتوں کے دوران انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے تو وہ بھی اپنی بات منوائے بغیر اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے۔

افغان مہاجرین

افغان پناہ گزینوں کی واپسی پر زور

وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں کی جانے والی تقریر میں بھی افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے متعلق بات کی گئی تھی اور اب ان کے کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔

وہ اس بات پر زور کیوں دے رہے ہیں اس بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 27 لاکھ افغان پناہ گزین بستے ہیں اور ان کی واپسی کا تعلق سیاسی معاملات سے تو ہے لیکن افغانستان کے معاشی اور سکیورٹی معاملات سے بھی ہے۔

‘یہاں موجود مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی کی بڑی وجہ معاشی ہے اور ان میں اکثریت کی پیدائش ہی پاکستان کی ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ پیچیدہ ہے۔’

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں ان افراد کی تعلیم روزگار اور معاش کے حوالے سے بھی عالمی طاقتوں پر زور دیا جائے گا کیونکہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے علاوہ یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔

سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ‘افغانستان میں فوری امن و استحکام کی خواہش کے علاوہ پاکستان کی یہ خواہش بھی ہے افغان پناہ گزین واپس چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں بھی اس بات کا ذکر کیا اور پاکستان یہ چاہے گا کہ مستقبل میں افغانستان سے متعلق جو بھی فیصلے کیے جائیں ان میں افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور اس بات کے معاشی طور پر قابلِ عمل ہونے کے لیے عالمی برادری کی جانب سے وعدے کیے جائیں۔

یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو نہ صرف یہ پناہ گزین واپس نہیں جا سکتے بلکہ خانہ جنگی کی صورت میں دوسرے ممالک سے پناہ گزین پاکستان آ سکتے ہیں۔

عمران خان کا مزید کیا کہنا تھا؟

عمران خان نے امن مذاکرات سے متعلق حالیہ پیش رفت کو ‘امید کا ایک نایاب لمحہ قرار دیا’ اور اس جنگ میں پاکستانیوں کی جانب سے ادا کی جانے والی بھاری قیمت پر بھی بات کی۔

انھوں نے لکھا کہ ‘گذشتہ چار دہائیوں کی کشیدگی کے دوران پاکستان نے 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ذمہ داری بھی لیے رکھی۔ اس دوران ہمارے ملک میں اسلحے اور منشیات کا داخلہ بھی جاری رہا جس نے ہمارے معاشرے کے چند حصوں میں شدت پسند نظریات کو فروغ دیا۔’

عمران خان نے کہا کہ ’اس جنگ سے ہم نے دو اہم سبق سیکھے۔ ایک تو یہ پاکستان اور افغانستان جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے اس حد تک جڑے ہیں کہ دونوں کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا ناگزیر ہے۔

’اس لیے پاکستان میں تب تک امن نہیں آئے گا جب تک افغانستان میں امن نہ آ جائے۔ اور دوسرا یہ کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام بیرونی قوتوں یا طاقت کے ذریعے سے نہیں لایا جا سکتا اور اس کے لیے افغان حمایت یافتہ اور افغان سربراہی میں امن عمل کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp