صحافیوں کی چارج شیٹ: ملک میں صحافت کو غلام بنایا جا رہا ہے


پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے حکومت پر میڈیا کی آواز دبانے، آزادی رائے کا گلا گھونٹنے اور میڈیا مالکان کو سرکاری ترجمان کا رول ادا کرنے پر مجبور کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں آزادی صحافت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی صحافیوں کی قومی تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل کی جانب سے حکومت پر آزادی رائے کے خلاف کام کرنے کی چارج شیٹ ایک ایسے وقت عائد کی گئی ہے جبکہ پہلے ہی سیاسی آزادی اور قومی سیاست میں عسکری اداروں کے کردار کے بارے میں شدت سے بحث جاری ہے۔

صحافیوں کی تنظیم کا یہ اعلامیہ وزیر اعظم عمران خان کے ان دعوؤں کے دوران سامنے آیا ہے جن میں ان کا مؤقف رہا ہے کہ ملک میں اس وقت سب کو کھلی چھٹی ہے اور وہ جو چاہے لکھ اور کہہ سکتے ہیں۔ حال ہی میں الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے علاوہ گزشتہ روز چند ٹی وی چینلز کے نیوز ڈائیریکٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے دعویٰ کیا کہ میڈیا اس وقت سب سے زیادہ ان کے خلاف لکھتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ آزاد ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرح عمران خان بھی میڈیا کی بات ہو یا سیاسی مخالفین کا معاملہ، کبھی کوئی دستاویزی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے کہے کو ’حرف آخر‘ قرار دے کر اصرار کرتے ہیں کہ اسے درست تسلیم کیا جائے۔ میڈیا کے بارے میں مطلق العنانیت سے بھرپور یہی رویہ دراصل حکومت کی ہٹ دھرمی اور خبروں اور تبصروں پر کنٹرول کے مزاج کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

وزیر اعظم یوں تو میڈیا کی آزادی کا دم بھرتے ہیں اور ساتھ ہی دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کے زیر انتظام پاکستان میں صحافیوں کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متعدد صورتوں میں صحافی اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملک میں مناسب قوانین نہ ہونے کی صورت میں ایسے ’غیر ذمہ دار‘ صحافیوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ چند ہفتے قبل الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر اسی قسم کی بے لگام آزادی کا مظاہرہ برطانیہ میں کیا جاتا تو وہ اور ان کے وزیر عدالتوں سے ریلیف لیتے اور ایسے صحافیوں اور اداروں کو کروڑوں روپے ہرجانے کے طور پر ادا کرنا پڑتے۔ تاہم وزیر اعظم نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ اگر کسی کے انفرادی کردار پر حملہ کرنے والی بے بنیاد خبروں کی روک تھام کے لئے متعلقہ قوانین کو برطانوی قوانین کے مطابق ’بہتر‘ کیوں نہیں بنایا گیا۔ حال ہی میں عمران خان کی حکومت پارلیمنٹ میں کوئی بھی قانون منظور کروانے کی لامحدود صلاحیت کا مظاہرہ کرچکی ہے۔

عمران خان چونکہ خود ہی ہر معاملہ پر مکمل مہارت رکھنے کے دعویدار ہونے کے علاوہ ہر بات پوری اتھارٹی سے کرنے کے عادی ہیں، اس لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ جو شخص اپنی معمولی غلطیوں کا اداراک کرنے اور ان کی اصلاح پر آمادہ نہ ہو، اس سے کسی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے دلیل اور یا شواہد کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ عمران خان کی سیاست جس مقبولیت پسندانہ عالمی رجحان کی آئینہ دار ہے، اس میں میڈیا سب سے پہلے ایسے لیڈر اور حکومت کے نشانے پر رہتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پاکستان ہی نہیں امریکہ اور بھارت جیسے بڑے جمہوری ممالک میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

میڈیا کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم کی ’صاف گوئی اور صداقت‘ کا اندازہ تو صرف اس بات سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک بار بھی ایسی کسی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کا حوصلہ نہیں کیا جس میں شریک ہونے والے صحافیوں کا انتخاب میڈیا ہاؤسزکریں اور صحافی اپنی مرضی سے طریقہ کار کے مطابق رجسٹریشن کرواکے اس میں شریک ہو ں۔ بزعم خویش میڈیا کو بے لگام آزادی دینے والی حکومت کا سربراہ کسی ایسے صحافی کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا جسے ملاقات سے پہلے ’ڈی بریف‘ نہ کیا گیا ہو۔ حالانکہ یہی عمران خان، اقتدار میں آنے سے پہلے معمولی معاملوں میں کسی بھی صحافی سے بات کرنے اور کسی بھی پروگرام میں شریک ہونے پر تیار رہتے تھے۔ اب ان سے ملنے کے لئے صحافیوں کو ’اچھے کردار‘ کا حامل ہونا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس پسندیدہ چند لوگوں کو وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے مدعو کرتا ہے اور اس میں سوال کرنے کا محدود وقت دیا جاتا ہے۔ اس کی تشہیر پریس کانفرنس کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

میڈیا سے خوف کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پارٹی پروگرام اور وعدوں کے مطابق کوئی کام سرانجام نہیں دے سکی۔ ملکی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے، سفارتی صورت حال پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے اور راہنمائی کی شدید کمی محسوس کی جاتی ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات تصادم کی صورت پیش کررہے ہیں اور خود وزیر اعظم یہ بتاتے رہتے ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت جارحیت کر سکتاہے۔ ملک میں کساد بازاری، مہنگائی اور بیروزگاری کے ماحول میں وزیر اعظم کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ دو سال تک اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کرپشن اور این آر او مانگنے کی کوششیں کرنے کا پروپیگنڈا اب اپنی وقعت و اہمیت کھو چکا ہے۔ مذہبی اور گروہی انتہا پسندی کے بعد اب جنسی جرائم سنگین صورت اختیار کررہے ہیں۔ حکومت کے پاس انہیں کنٹرول کرنے کا کوئی مؤثر منصوبہ نہیں ہے۔

 اس ناکامی کا اظہار اب وزیر اعظم کے اس بیانیہ سے ہورہاہے جس میں وہ ملک میں جنسی جرائم کو فحاشی، بے حیائی اور بالی وڈ فلموں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ بے حیائی کے خلاف نعرے بازی تحریک انصاف کی حکومت کا نیا سلوگن ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس نعرے کو برتنے کی کوشش کی ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ اب عمران حکومت اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لئے مذہبی جذبات کو ابھارنے اور بے حیائی کو اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے عوام کو ایک نئے نشہ آور نعرے سے مصروف رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ مسائل کی نشاندہی والا میڈیا، نعرے بیچنے اور کارکردگی میں ناکام ہونے والی قیادت کی آنکھوں میں سب سے پہلے کھٹکتا ہے۔

ایسی بے دست و پا اور عملی طور سے ڈلیور کرنے میں ناکام حکومت کے پاس میڈیا کو دبانے اور سب اچھا ہے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا پر اپنے حامی کھڑے کرنے کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا کو گھیرنا اہم ترین ضرورت ہے۔ آزادیوں کو محدود کرنے کے لئے حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے قوانین منظور کرتے ہوئے متعدد شقات شامل کی گئی ہیں۔ اپوزیشن نے جب ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی اور اصلاح کا مطالبہ کیا تو اسے ’این آار او ‘ لینے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا۔

 اس کے باوجود یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ملک میں میڈیا کو دبانے، آزادی اظہار سے انکار کرنے اور شدید گھٹن کا ماحول پیدا کرنے میں صرف عمران خان یا ان کی حکومت ہی کا کردار ہے۔ ملک کے طاقت ور ادارے بھی یہ صورت حال پیدا کرنے میں بدستور مصروف عمل رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کا آغاز ملک پر تحریک انصاف کی حکومت مسلط کرنے سے پہلے ہی ہوگیا تھا، جب بعض اخباروں اور ٹی چینلز کے خلاف سخت اقدام کئے گئے اور ان کی ترسیل اور براڈ کاسٹنگ کو محدود کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ من پسند حکومت کے تعاون سے ان کارروائیوں کو منظم کیا گیا ہے جس میں پیمرا اہم ترین کردار ادا کررہا ہے۔

اس کے علاوہ صحافیوں کو اٹھانا یا ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا کام صرف سیاسی حکومت کی رہنمائی میں انجام نہیں پاتا بلکہ ان میں ایسے ادارے بھی ملوث ہوتے ہیں جن پر حکومت کا بھی کنٹرول نہیں ہے۔ سیاسی منظر نامہ پر سیاسی اختیار اور منتخب حکومت کے متوازی حکومت یا ریاست سے بالا ریاست کی موجودہ بحث کا براہ راست تعلق ملک میں اظہار کی آزادی سے جوڑا جاسکتا ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن اسٹیشن سیاسی گھٹن میں سب سے پہلے نشانے پر ہوتے ہیں۔ خاص طور سے میڈیا مالکان کے مالی مفادات اور صحافیانہ فیصلوں میں براہ راست اثر و رسوخ سے خبر کی غیر جانبدرانہ ترسیل اور خود مختار رائے کی تشہیر منظم طریقے سے ٹارگٹ کی جاتی ہے۔ اس کا تجربہ اس وقت پاکستانی میڈیا اداروں میں کام کرنے والے ہر صحافی کو ہورہا ہے۔

کوئٹہ میں پی ایف یو جے کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں درج ذیل باتیں واضح کی گئی ہیں:

1)میڈیا مخالف قوتوں کی جانب سے آزادی اظہار پر پابندی عائد کرنے کی منظم جنگ شروع کی جا چکی ہے۔ میڈیا اداروں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سرکاری مؤقف کی پابندی کریں یا پھر حکومت کے عتاب کا سامنا کریں۔

2)میڈیا اداروں کے لیے مالی مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ غیرعلانیہ سینسرشپ، مالکان کو ٹیلیفون پر دھمکیاں اور صحافیوں کے اغوا اور ان پر تشدد سمیت صحافت کو غلام بنانے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔

3)نئی حکومت نے سب سے پہلے میڈیا صنعت کا مالی طور سے گلا گھونٹا۔ اس کے ردِ عمل میں میڈیا مالکان نے اخراجات میں زبردست کٹوتی کی، متعدد اخباری ایڈیشن بند کر دیے، کئی کئی ماہ تک تنخواہیں یا ادا نہ کیں یا ان میں کمی کر دی گئی جس کی وجہ سے صحافی مشکلات کا شکار ہیں۔

4)وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت ملکی میڈیا انڈسٹری میں حالیہ بحران کی براہِ راست ذمہ دار ہے۔ مالی دباؤ کے علاوہ حکومت نے میڈیا کے لیے سرخ لکیروں میں اضافہ کیا ہے جس سے میڈیا ایسی سیلف سینسرشپ پر مجبور ہوگیا ہے جو ماضی میں فوجی دورِ حکومت میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

5) پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پریس کونسل آف پاکستان (پی سی پی) کو وزارتِ اطلاعات سے آزاد کیا جائے تاکہ یہ ادارے خودمختار ریگولیٹر کا کردار ادا کر سکیں۔ اور حکومتی اختیار کے نمائندے بن کر نہ رہ جائیں۔

حکومت نے اگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اس اعلامیہ کے بعد اپنی پوزیشن واضح نہ کی اور صحافی نمائیندوں کے ساتھ مل کر معاملات درست کرنے کے لئے اقدام نہ کیا تو ملک کے اخبار اور نیوز چینلز سرکاری خبر نامے بن کر رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali