منگ وینزاؤکی کینیڈا میں گرفتاری: ایک پاور پوائنٹ پریزینٹیشن جو بین الاقوامی کشیدگی کا باعث بنی


منگ وینزاؤ

چینی کمپنی ہواوے کی چیف فنانشل آفیسر منگ وینزاؤ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مقدمہ پیر کو پھر سے شروع ہو رہا ہے

جب یکم دسمبر سنہ 2018 کو منگ وینزا‎ؤ کی فلائٹ وینکوور پہنچی تو ان کا پلان یہ تھا کہ وہ یہاں مختصر سے قیام کے بعد واپسی کی راہ لیں گی۔ لیکن تقریبا دو سال گزرنے کے بعد ہواوے کی چیف فنانشل آفیسر اور بڑی ٹیلی کام کمپنی کے بانی کی بیٹی، منگ وینزاؤ، اب یہاں طویل قیام کے لیے تیار نظر آ رہی ہیں اور اس کی وجہ سے چین اور کینیڈا کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

منگ وینزاؤ کی امریکہ حوالگی کے سلسلے میں جاری طویل قانونی جنگ کی سماعت کا اگلا دور سوموار (آج) سے شروع ہو رہا ہے۔

اس میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل ایک دہائی طویل ہو سکتا ہے، اور اس کے باعث واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان کینیڈا پھنس کر رہ گیا ہے اور اس سارے تنازع کا مرکز چین کی سب سے اہم کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہواوے نے امریکی الزامات مایوس کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیے

چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟

اس کہانی کے مرکز میں 16 صفحات پر مشتمل ایک کارپوریٹ پاورپوائنٹ پریزنٹیشن ہے۔

وینکوور میں لینڈنگ اور گرفتاری

جب ہانگ کانگ سے آنے والا اُن کا طیارہ وینکوور میں اترا تو منگ وینزا‎ؤ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ کینیڈا کے اس شہر میں واقع اپنے گھر سے کچھ سامان لیں گی اور پھر کارپوریٹ میٹنگ کے لیے میکسیکو جانے والی دوسری پرواز پکڑ لیں گی۔

لیکن اس کے بجائے کینیڈا کی بارڈر سکیورٹی ایجنٹوں نے ان سے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی، اُن کا فون ضبط کر لیا گیا اور اُن کے سامان کی تلاشی لی گئی۔

منگ وینزاؤ

منگ وینزاؤ کینیڈا کے شہر وینکوور میں ایک گھر میں نظر بند ہیں

جب یہ سب کام ختم ہوا تو پھر انھیں باقاعدہ طور پر کینیڈا میں داخل ہونے دیا گیا۔ اور یہاں انھیں رائل کینیڈین ماونٹڈ پولیس نے گرفتار کر لیا کیونکہ امریکہ نے ان کی حوالگی کے سلسلے میں کینیڈا کو پہلے ہی درخواست دے رکھی تھی۔

امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی مبینہ خلاف ورزی سے منسلک دھوکہ دہی سمیت دوسرے فراڈ کے الزامات کا منگ وینزا‎ؤ سامنا کریں جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔

کیس کے مرکز میں ایک پاورپوائنٹ پریزینٹیشن

منگ وینزاؤ نے 22 اگست سنہ 2013 کو ایچ ایس بی سی بینک کے ساتھ اپنی ایک میٹنگ میں ایک پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کا استعمال کیا تھا جسے ان کے خلاف اہم ثبوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سے قبل کے مہینوں میں خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹس میں یہ سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کیا ہانگ کانگ میں قائم سکائی کام کمپنی نے ایران پر عائد تجارتی پابندیوں کی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے۔

مسئلہ یہ تھا کہ آیا ٹیلی کام کا سامان بیچنے والی سکائی کام کمپنی صرف ہواوے کی بزنس پارٹنر ہے یا پھر وہ ایران میں ہواوے کی سرگرمیاں کو چھپانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

امریکہ کا الزام ہے کہ اس میٹنگ میں دی جانے والی پاورپوائنٹ پریزینٹیشن میں منگ نے سکائی کام کے ساتھ ہواوے کے تعلقات کی اصل نوعیت پر ایچ ایس بی سی کو گمراہ کیا اور اس کے نتیجے میں بینک کو ایران کے خلاف عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کا خطرہ لاحق ہو گیا۔

منگ وینزا‎ؤ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے خصوصی طور پر پاورپوائنٹ کے بارے میں عدالت کو گمراہ کیا ہے جس میں دو سلائڈز میں شامل معلومات کو حذف کیا گیا ہے۔ ان سلائڈز سے پتا چلتا ہے کہ درحقیقت ایچ ایس بی سی کو سکائی کام اور ہواوے کے تعلقات کی اصل نوعیت کے بارے میں اندھیرے میں نہیں رکھا گیا تھا۔

مینگ کے وکیلوں نے قانونی جنگ شروع کر دی

حوالگی کی سماعت جاری ہے جبکہ منگ کے وکیلوں نے امریکہ کی حوالگی کی درخواست پر ہی کثیر الجہتی حملہ شروع کر دیا ہے۔

اس معاملے میں یہ دعویٰ کرنے کی ابتدائی کوشش کی گئی ہے کہ جس جرم کے لیے انھیں امریکہ میں ملزم ٹھہرایا گیا ہے وہ کینیڈا میں جرم ہی نہیں ہے (اگرچہ اس دعوے کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے)۔

دوسرے دعوے کا مرکز اس مقدمے میں شامل سیاست بھی ہے۔

ان کے وکیلوں کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان میں اس عمل کے غلط استعمال کا عنصر ہے۔ ان کے تبصرے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے کو چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں سودے بازی کے طور پر استعمال کریں گے۔

ایک اور چیلنج وینکوور ایئرپورٹ پر منگ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے متعلق ہے۔ ان کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے ان کے ساتھ سلوک کیا گیا اس میں ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

وہ کچھ دستاویزات کے انکشاف کے لیے بھی برسر پیکار ہیں، جن میں کینیڈا کی قومی سکیورٹی انٹیلییجنس سروس کے دستاویزات بھی شامل ہیں۔ وہ اس بات سے پردہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہیں کہ کینیڈا میں ان کی گرفتاری کے وقت امریکی عہدے داروں کا کیا کردار تھا۔

ایک جج نے تو پہلے ہی کچھ دستاویزات کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے لیکن اس کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔

ان سب کا نتیجہ ایک ایسا قانونی سلسلہ ہے جو وکیلوں کو مصروف رکھے گا لیکن اس کے جلد نمٹنے کا امکان نہیں ہے۔

منگ وینزاؤ

منگ وینزاؤ کے مقدمے کو کینیڈا اور دوسرے ممالک میں غور سے دیکھا جا رہا ہے

منگ کے وکیلوں کی ترجیح واضح طور پر یہ ہے کہ وہ جیت حاصل کریں اور جلد سے جلد انھیں چین واپس روانہ کروا سکیں۔ لیکن اگر اس کا امکان نظر نہیں آتا ہے اور انھیں مسلسل شکست ہوتی ہے تو پھر وہ انھیں امریکہ کے حوالے کیے جانے کے خلاف قانونی جنگ چھیڑ دیں گے۔

اس غیر معمولی نوعیت کے مقدمے میں جتنے پہلو زیر بحث ہیں اُن سب کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہےکہ اس کے حل میں کم از کم پانچ سے دس برسوں کا وقت لگ سکتا ہے۔

جغرافیائی و سیاسی ردعمل

اگرچہ قانونی عمل ابھی جاری ہے لیکن اس کیس کے اثرات بہت دور تک پھیل گئے ہیں۔

اس طرح کی اعلی کاروباری شخصیت کی گرفتاری سے چین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور رواں ماہ چین کے سفیر نے کہا تھا کہ کینیڈا کا ’فائدہ اٹھایا گیا‘ ہے اور امریکہ نے اسے اس معاملے میں اپنا ’ساتھی‘ بنا لیا ہے جبکہ واشنگٹن نے ’دادا گیری کا وحشیانہ عمل‘ کیا ہے۔

اس معاملے نے ایچ ایس بی سی کو بھی مشکل پوزیشن میں ڈال دیا ہے اور چینی میڈیا یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ بینک نے سیاست سے متاثر اس جال کو بننے میں اور مقدمہ بنانے میں امریکہ کے ساتھ کتنا تعاون کیا ہے۔

بینک

ہانگ کانگ کے بارے میں اپنے مؤقف کے لیے بینک پہلے سے ہی مغرب اور چین کے مابین پھنسا ہوا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ اس نے صرف وہی کیا جو قانونی طور پر اسے کرنے کی ضرورت تھی اور اس میں کوئی پھندہ سازی یا جال بننا نہیں ہے۔

اس کیس نے واضح طور پر یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ امریکہ کی درخواست پر کون کون سے ممالک کاروباری ذمہ دار افراد کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ اس سے ہواوے کے اعلی عہدیداروں کو پریشانی ہو سکتی ہے اور ان کا سفر محدود ہو سکتا ہے اور ان حکومتوں کو بھی تشویش لاحق ہو سکتی ہے جو خود کو امریکہ اور چین کے مابین پھنسانا نہیں چاہتے۔

اور اس سے اس طرح کی تشویش نے بھی سر ابھارا ہے کہ مغربی تاجروں اور دوسرے سیاحوں کو چینی حکومت حراست میں لے سکتی ہے تاکہ وہ سودے بازی کے لیے ان کا استعمال کر سکے۔

خیال رہے کہ منگ کی گرفتاری کے کچھ دن بعد چین نے کینیڈا کے دو شہریوں کو حراست میں لیا تھا۔ ان میں ایک سابق سفارتکار مائیکل کوورگ اور ایک کاروباری شخص مائیکل سپیورشامل ہیں۔ بعد میں ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا۔

چین نے ان کی گرفتاری کو منگ سے جوڑنے کی کوششوں سے انکار کیا ہے لیکن اس دونوں کی نظربندی کو دنیا بھر میں منگ کی گرفتاری کے براہ راست ردعمل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

رواں ماہ کینیڈا کے سابق سفارت کاروں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے ملاقات کی کہ اور کہا کہ وہ ان دو افراد کے بدلے منگ کا تبادلہ کریں۔

تبادلہ

چین میں کینیڈا کے جن دو شہریوں کو جاسوسی کے الزامات میں پکڑا گیا ہے، منگ کے بدلے ان کے تبادلے کی بات بھی کی جا رہی ہے

مسٹر ٹروڈو نے اس سے قبل ’سیاسی اہداف کے حصول کے حربے کے طور پر من مانی حراست کا استعمال کرنے‘ پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی حوالگی کو روکنے سے کینیڈا کے مزید شہری خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

کینیڈا یہ نہیں چاہتا کہ وہ کسی قانونی عمل میں دخل اندازی کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا جائے لیکن اس کے ساتھ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے عتاب کا بھی خطرہ اٹھانا نہیں چاہتا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ چین کے خلاف سخت خطوط پر عمل پیرا ہے۔

واشنگٹن اس وقت اس معاملے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ خاص طور پر ہواوے اور عمومی طور پر چین کے خلاف کثیر الجہتی کارروائی میں الجھا ہوا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ سیاسی توازن وقت کے ساتھ تبدیل ہو جائیں، بطور خاصل نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے بعد۔

لیکن فی الحال منگ کا کینیڈا میں قیام جلد ختم ہوتا یا ان کا مقدمہ کم متنازع ہوتا نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp