ڈینیئل پرل قتل کیس: سپریم کورٹ نے عمر شیخ کی بریت سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا


ڈینیئل پرل

سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم عمر شیخ کی بریت سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔

سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے ان افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا ہوا تھا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کا عمر شیخ کی بریت کا فیصلہ ایک ہفتے کے لیے معطل کیا گیا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ بریت کے خلاف اپیلوں میں عدالت عالیہ کے فیصلوں کو معطل کرنے کی مثالیں بہت کم ہیں۔

پاکستان میں اس مقدمے میں سنہ 2002 میں عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس پر اپیل کا فیصلہ 18 برس بعد دو اپریل 2020 کو ہوا اور عدالت نے ان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے اسے اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا سے بدل دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سندھ کا ڈینیئل پرل کیس میں سزائے موت کے خاتمے پر اپیل کا فیصلہ

ڈینیئل پرل کیس: استغاثہ کی وہ کمزوریاں جو ملزمان کی رہائی کا باعث بنیں

ڈینیئل پرل قتل کیس: سپریم کورٹ کا حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار

احمد عمر شیخ

ڈینیئل پرل قتل کیس میں مرکزی ملزم احمد عمر شیخ

سماعت میں کیا ہوا؟

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کے روز ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کی تو بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین الدین نے اپیل کندہ کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ان پر دو باتیں واضح کرنا چاہتی ہے۔

’ایک یہ کہ مفروضوں پر بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیں گے جبکہ دوسری بات یہ کہ اُنھوں نے اس پورے مقدمے کی کڑیاں جوڑنی ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ اگر ایک کڑی بھی ٹوٹ گئی تو ’آپ کا کیس ختم ہو جائے گا‘۔

اس مقدمے کی تاریخ بتاتے ہوئے اپیل کنندہ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 23 جنوری سنہ 2002 کو ایک ای میل کی گئی جس میں ڈینیئل پرل کے اغوا برائے تاوان کا ذکر موجود ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عمر شیخ کو 13 فروری 2002 کو گرفتار کیا گیا اور ان پر اپریل سنہ 2002 کو فرد جرم عائد کی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس نے، جس کی گاڑی میں ڈینیئل پرل نے سفر کیا تھا، مجسٹریٹ کے سامنے شناخت پریڈ میں ملزمان کی شناخت کی۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ استغاثہ کے گواہ ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس نے ڈینیئل پرل کو اپنی گاڑی سے اتارا تو مجرم عمر شیخ نے ڈینیئل پرل کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیا اور اس کے بعد قتل تک ڈینیئل پرل کو کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔

بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کی گاڑی میں سوار شخص کا نام ڈینیئل پرل ہے۔

اُنھوں نے سوال کیا کہ مقتول ڈینیئل پرل کی لاش نہیں ملی، پوسٹ مارٹم نہیں ہوا، عمر شیخ پر قتل کیسے ثابت ہوا؟

ڈینیئل پرل

اپیل کنندہ کے وکیل نے جواب دیا کہ اس معاملے میں اغوا ثابت ہے تو اسی معاملے کو ہی اگر سندھ ہائی کورٹ مدنظر رکھتی تو عدالت عالیہ کو ملزمان کو بری کرنے کے بجائے دوبارہ ٹرائل کا حکم دینا چاہیے تھا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس مقدمے میں کل 23 گواہ ہیں۔ ’راولپنڈی کے جس ہوٹل میں ڈینیئل پرل اور عمر شیخ کی ملاقات ہوئی تھی اس ہوٹل کے ریسپشنسٹ عامر افضل نے عمر شیخ کو شناخت پریڈ میں پہچانا۔‘

بینچ میں موجود جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال کیا کہ اس مقدمے میں سازش کہاں ہوئی، اس کے ثبوت فراہم کریں۔

’رومانوی افسانے کی بنیاد پر کیس کے فیصلے نہیں ہوتے‘

اپیل کنندہ کے وکیل نے ایک مرتبہ پھر جس ہوٹل میں ڈینیئل پرل اور عمر شیخ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی اس کے ریسپشنسٹ کے بیان کو دہرایا جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سازش سے متعلق ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بہت سی چیزیں پس پردہ بھی چل رہی تھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ’عمر شیخ جب ڈینیئل پرل سے ملے تو اُنھوں نے اپنا نام بشیر بتایا۔۔۔ مجرم عمر شیخ نے پہلی ملاقات میں نام اس لیے غلط بتایا کیونکہ اس کے ذہن میں کچھ غلط چل رہا تھا۔‘

جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے ’قتل کا فیصلہ قتل کرنے سے ایک لمحہ پہلے ہوا ہو۔‘

جسٹس قاضی امین نے اپیل کنندہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’واقعاتی شواہد کے لیے بھی تمام کڑیوں کا آپس میں ملنا لازمی ہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عمر شیخ کو کس نے دیکھا اور پہچانا؟‘

سندھ حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ شناخت پریڈ میں ٹیکسی ڈرائیور نے عمر شیخ کو پہچانا۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ حکومتی کیس کی بنیاد ہی ٹیکسی ڈرائیور کا بیان ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی تو لاش بھی نہیں ملی، ٹیکسی ڈرائیور نے اسے کیسے پہچانا؟‘

اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ٹیکسی ڈرائیور نے تصاویر دیکھ کر ڈینیئل پرل کو پہچانا۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’سازش، تاوان اور دیگر تمام الزامات میں ملزمان بری ہوئے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف اغوا کے جرم میں ہائی کورٹ نے سزا دے کر حجت تمام کی۔‘

اُنھوں نے کہا کہ عدالت کو ڈینیئل پرل کے اہلخانہ کے ساتھ ہمدردی ہے لیکن فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔

سندھ حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمر شیخ نے عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا۔ اس پر جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ اگر اپیل کنندہ کے وکیل کے پاس اس کا کوئی عدالتی ریکارڈ موجود ہے تو وہ اس اعتراف جرم کو ریکارڈ سے ثابت کریں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عمر شیخ نے خود کلامی کے انداز میں عدالت میں جرم تسلیم کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے خود کلامی کے حوالے سے رومیو جولیٹ افسانے کا حوالہ بھی دیا، جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’کسی رومانوی افسانے کی بنیاد پر قتل کیسز کے فیصلے نہیں ہوتے۔‘

مقتول صحافی ڈینیل پرل کی والدہ کی طرف سے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کی گئی ہے۔ ان کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی ملزم عمر شیخ نے سندھ ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھا اور اس خط میں عمر شیخ کی جانب سے خط میں اقبال جرم کرنے کو بھی ہائیکورٹ نے نظر انداز کیا۔

جسٹس قاٰضی امین نے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت اپیلیں ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتی ہے تو کیا وہ سزا معطل کرنے کی استدعا کریں گے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کریں گے جس میں مرکزی ملزم کو بری کیا گیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مرکزی ملزم عمر شیخ کا نام ای سی ایل پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے علاوہ عمر شیخ کو شیڈول بی میں ڈال کر عدالت میں پیش ہونے کا پابند کر دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا اور ان اپیلوں کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردیں۔

واضح رہے کہ امریکی اخبار وال سٹیریٹ جنرل کے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو سنہ 2002 میں اغوا کرنے کہ بعد قتل کر دیا گیا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مقدمے میں مبینہ طور پر کالعدم تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عمر سعید شیخ سمیت چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر عمر سعید شیخ کو سزائے موت جبکہ باقی تین مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے رواں سال اپریل میں اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرمان کو دی گئی سزاؤں کے خلاف اپیل میں احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کر کے انھیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا کا حکم دیا گیا تھا جبکہ دیگر تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp