حسینی اور یزیدی میدان کربلا میں ہیں آج بھی


یزیدیت اور حسینیت کی اصطلاح یہ ہے کہ مظلوم کا حمایتی حسینی ہے اور ظالم کا مداح یزیدی ہی ہو گا۔ فریقین میں تضاد ہونا عام بات ہے مگر خاص بات ان فریقین میں سے کون حق پر ہے اس فیصلے پہ منحصر ہے۔ اب جو حسینی راستے پر ہیں وہ حسین کے حمایتی ہوں گے اور جو یزیدیت کے ثنا خواں ہیں وہ یزید زندہ باد کے نعرے تو لگایں گے۔ مگر کچھ لوگ ان کے درمیاں بھی ہیں جو یہ سوچ کر اس فیصلے سے آنکھ بچا کر گزر جاتے ہیں کہ یہ مذہبی اور مسلکی معاملہ ہے دور رہو اس سے، در حقیقت حسینیت اور یزیدیت مذہبی معاملہ نہیں انسانیت کا پیمانہ ہے۔

حسینیت کا تعلق اگر صرف اسلام سے ہوتا تو لشکر حسین میں کوئی غیر مسلم شامل نہ ہوتا جبکہ شہدائے کربلا میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوئے اور امام مظلوم کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت حر یزیدی لشکر کو چھوڑ کر حسینی لشکر میں یہ سوچ کر آ گئے کہ لشکر یزید میں جو لوگ موجود ہیں وہ نہ صرف دائرہ اسلام سے خار ج ہیں بلکہ انسانیت سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ خیال شاید حضرت حرکو اس وقت آیا ہو جب لشکر یزید نے لشکر حسینی پر پانی بند کر دیا اور بچے پیاس کی شدت سے روتے رہے۔ کیونکہ جنگ تو اپنے سے برابر والوں سے ہوتی ہے بچوں کا اس میں کیا قصور آج بھی عاشقین حسین میں نہ صرف مسلمان شامل ہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی، ملحد گو ہر طبقہ فکر کا انسان جو اہل دل ہے حسین کے درد کو محسوس کر سکتا ہے۔

حسین صرف مسلمانوں کے امام نہیں تمام انسانیت کے امام ہیں جنہوں نے شہادت سے کچھ وقت قبل یہ صدا دی (ھل من ناصر ینصرنا ہے کوئی جو میری مدد کو آئے ) امام حسین نے یہ تو نہیں کہا کہ ہے کوئی مسلمان جو میری مدد کو آئے۔ امام تمام انسانیت سے مخاطب ہیں۔ کیونکہ مظلوم کا ساتھ دینے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ اہل دل ہونا لازم ہے مسلمان تو لاکھوں کی تعداد میں لشکر یزید میں موجود تھے۔ وہ اہل دل ہی ہو گا جو امام کی صدا پہ لبیک کہے خواہ کسی مذہب یا مسلک سے ہو۔ لبیک یا حسین کہنے کا مقصد ہی حق کا ساتھ دینا ہے اور ظالموں سے کنارہ کشی کرنا ہے۔

حسینیت اور یزیدیت کی جنگ آج بھی جاری ہے ہر دن عاشورہ کا دن ہے اور ہر زمین کربلا، کون سا ایسا دن ہے جس دن کسی مظلوم پر ظلم نہ ہو کون سی ایسی زمین ہے جو حق و باطل کی جنگ سے خالی ہے ہر دن کسی پر ظلم کیا جاتا ہے کسی کا حق چھینا جاتا ہے، عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے، بے جرم و خطا قتال کیا جاتا ہے۔ اسی حق اور باطل میں پہچان کرنا سکھاتی ہے حسینیت، ظلم اور بربریت کو بے نقاب کرنے کا درس کربلا ہے۔

یہ جو یزید زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں در حقیقت سعودی فنڈنگ بول رہی ہے۔ کیونکہ یزید کا اسلام سے کیا انسانیت سے ہی کوئی تعلق نہیں۔ ان کے مطابق اگر یزید قتل حسین سے خارج ہے تو خطاب بی بی زینب کا مطالعہ کر لیں جو نہ صرف یزید کے منہ پر تمانچہ ہیں بلکہ ہر اس انسان کہ کے لیے تلوار کی ضرب سے زیادہ گہرے ہیں جو یزید کا حمایتی ہے۔ اگر یزید قتل حسین میں شریک نہ تھا تو دربار یزید میں حرم حسین لاکھوں کے مجمے میں قیدیوں کی طرح کیوں لائے گئے اور امام حسین کے بچوں کے سامنے امام کے کٹے ہوئے سر کی بے حرمتی کیوں کی گئی قید میں ان پہ ظلم و ستم روا رکھے جاتے یہ سب تو یزید نے ہی کیا تو پھر کیسے کہہ دیا کہ قتل حسین میں یزید شامل نہ تھا جبکہ مظالم میں تو وہ پیش پیش نظر آ رہا ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے جس میں چھ ماہ کے بچے کو بھی شہید کیا گیا اور خواتین کو قیدی بنایا گیا۔ بی بی زینب کے بنا کربلا ادھوری ہے۔ اگر بات صرف کربلا میں ختم ہو جاتی تو قاتل حسین چھپ جاتے مگر شام کے دربار نے قاتل حسین کو بے نقاب کر دیا۔

یزید کے حمایتی وہی تمام لوگ ہیں جو پاکستان میں فرقہ واریت اور قتل و غارت کے خواہاں ہیں۔ مسلکی جنگ کو ہوا دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو شیعہ، قادیانی، ہندو، سکھ، عیسائی اور ملحدوں کے قتل کے فتوے بیچتے پھرتے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ امن اور انسانیت کی بات کرنا انہیں گوارا نہیں، اور ہو بھی کیسے ان کا تعلق تو لشکر یزید سے ہے اور فتویٰ فروشی ان کا روایتی پیشہ ہے۔ کیونکہ جس قاضی نے نواسہ رسولﷺ کے لئے خارجی کا فتویٰ دیا، سنا ہے وہ بھی چند اشرفیوں کی خاطر بک گیا تھا۔ مگر تا ابد جو بھی حق کے ساتھ ہے وہ حسینیت کا حمایتی ہو گا اور یزیدیت سے اعلان برات کرے گا۔

اسی نظریے کے پیش نظر علامہ اقبال کی نظم ہے
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا
مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا
محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا
تفریق رنگ و نسل پہ غالب ہے کربلا
تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے
ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے
شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب
تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب
دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).