آزادی



14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوا، بقول کچھ سوشل میڈیا کے نام نہاد لبرل دانشوروں کے ہمیں پوں پاں کی آزادی ملی ہے چوں چراں کی نہیں۔ اس میں کیا حقیقت اور کیا فسانہ ہے، اس پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔

اس ملک میں ہر شخص آزاد ہے، اسے ہر طرح کی بدتمیزی اور بے ہودگی کی اجازت ہے، جس کا تصور وہ کسی اور مہذب ملک میں شاید نا کر سکتا ہو۔

اس مملکت خداداد میں جگہ جگہ تھوکنے، عوامی مقامات پر سگریٹ پینے اور پیشاب کرنے کی آزادی ہے، ملک کے کونے کونے میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کی آزادی ہے، لال بتی پر موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے کی آزادی ہے، ون ویلنگ کی آزادی ہے، رشوت لینے اور دینے کی آزادی ہے، چوری، ڈاکے، فراڈ اور دشنام طرازی کی آزادی ہے، انقلاب لانے کی آزادی ہے، زنا بالجبر کی آزادی ہے، فساد برپا کرنے کی آزادی ہے، رشوت دینے اور لینے کی آزادی ہے، عورتوں کو زدو کوب کرنے کی آزادی ہے، قتل کرکے دیت دینے کی آزادی ہے، کرپشن کی آزادی ہے، احتساب کی آزادی ہے، ڈیل اور ڈھیل کی آزادی ہے، تاریخ مسخ کرنے کی آزادی ہے، کفر کے فتوے کی آزادی ہے، دوسروں کا حق کھانے کی آزادی ہے، لوگوں کو زد و کوب کرنے کی آزادی ہے، غداری کے فتوے کی آزادی ہے، زمینوں پر قبضوں کی آزادی ہے، ٹیکس چوری کی آزادی ہے، ذخیرہ اندوزی کی آزادی ہے، جرم کر کے عدل کے نظام سے قانونی طور پر بچ جانے کی آزادی ہے، ان تمام آزادیوں کے بعد بھی اگر کچھ لوگ آزادی کے خواہشمند ہیں تو الامان الحفیظ ہے۔

آزادی کی باقی اقسام پر فی الوقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پابندی ہے۔ ان میں کسی بچہ یا بچی کا اپنی پسند کی تعلیم حاصل کرنا، اپنی پسند کا شعبہ اختیار کرنا، اپنی پسند کی سیاسی وابستگی رکھنا، اپنی پسند سے شادی کرنا، نیز اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا پر نا صرف پابندی ہے بلکہ ممانعت ہے۔ ایسا کرنے والا بے ادب اور بد اخلاق ہے، اس کے خاندان نے اس کی تعلیم و تربیت نہیں کی، نیز اس نے خاندانی روایات کو پامال کیا ہے وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اگر وہ اپنے معاشرے کی چند ایک رسومات جن کا مذہب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں پر سوال اٹھائے گا، جن میں بیوہ کا دوبارہ شادی کرنا، عورت یا مرد کا طلاق لینا یا دینا، تو اسے ملحد، گستاخ اور آزاد خیال تصور کیا جائے گا۔ اسے باور کروایا جائے گا کہ کیونکہ تم نے 4 کتابیں زیادہ پڑھ لی ہیں، اس لئے تمھارا دماغی توازن درست نہیں رہا۔

اگر آپ پاکستان کی تاریخ پر سوال اٹھانا چاہیں اور اس کو تاریخی لحاظ سے درست کرنے کی کوشش کریں، تو آپ غدار ہیں۔ ان چبھتے ہوئے سوالات میں فوج کا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، 1971 کی جنگ کا احوال، الیکشن میں خفیہ ہاتھ کی دخل اندازی، مقدس گائے کا احتساب، سیاستدانوں کی عیاریاں، سیاستدانوں کی کرپشن، احتساب سب کا، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

ان تمام سوالات کا جواب ایک مخصوص قسم کا ہو گا، ہمارے بزرگ یہ کرتے تھے، مولوی صاحب سے یہی سنا ہے، خاندان و برادری کا متفقہ فیصلہ ہے، سب ہی ایک جیسے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ گلا سڑا نظام ہے، جسے ہم 73 سال میں توڑ نہیں سکے، اور آگے حالات مزید نازک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ اس کا حل کیا ہے، اس کے لئے مملکت خداداد پاکستان کے تمام بڑوں کو بیٹھ کر چارٹر آف جمہوریت، معیشت اور معاشرت کے خدوخال ازسرنو طے کرنا پڑیں گے، تاکہ ہر بڑے کا کردار مزید واضح ہو سکے اور وہ بڑا اپنے کردار کی حدود میں کام کرے، تا کہ انتظامی ڈھانچہ کام کر سکے، جو فی الوقت کام نہیں کر رہا۔

مجھے فکر یہ نہیں ہے کہ یہ ملک چل نہیں رہا، مجھے اصل فکر یہ ہے کہ ایسے ہی نا چلتا رہے اور مزید 73 سال گزر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).