قلعہ فراموشی کی رات اور کوہ ندا کا بلاوا


بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا۔ اشتعال اور انفعال کے اس موسم میں غیر ضروری خیال آرائی سے پرہیز مناسب ہے۔ یہ کچھ برادر بزرگ ایاز امیر ہی کا حصہ ہے کہ بجوگ کی فصل میں شوق کے انگاروں کو ہوائے وارفتہ سے سلگائے رکھتے ہیں۔ اپنے ہاں تو ذیابیطس نے ایسی غارت گری کی ہے کہ ”سایہ خیال بھی اب سر سے اٹھ گیا“۔ وہی جو احسان دانش نے کہا تھا، مجھ سے پہلے مرے اظہار کو موت آئی ہے۔ نہ ہوئے غالب کہ اس کیفیت کو ایک مصرعے میں سمیٹ لیتے، جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر۔

دیکھئے، انیسویں صدی میں وزیر علی صبا لکھنو کے انتزاع کی پیش بینی یوں کرتے تھے، بت بنے ہیں صاحب زنار قیصر باغ میں۔ اور دلی میں غالب نے لکھا، ”اردو بازار نہ رہا، اردو کہاں۔ دلّی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ “ اور یہ ٹکڑا دیکھئے، ”سنتے ہیں کہ نومبر میں مہاراجہ (الور) کو اختیار ملے گا، مگر وہ اختیار ایسا ہو گا جیسا خدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے قبضۂ قدرت میں رکھا۔ آدمی کو بدنام کیا ہے۔“

غضب خدا کا، اوپر تلے تین دفعہ کالم کا دن آیا اور کالم نہیں لکھا گیا۔ اب تو آپ کو اعتبار آ جانا چاہیے کہ درویش ایک محتاط طبع گوشہ نشین ہے، ہاتھ کو سرہانا کیے عافیت کا طلب گار ہے۔ کہیں مچیٹا بڑھ جائے تو ایک طرف ہٹ کے کھڑا ہو جاتا ہے، حق کی گواہی زیر لب دیتا ہے، قلم کو زحمت نہیں دیتا۔ یہ جو اکیسویں صدی کے بیسویں برس میں ستمبر کی شفق ڈھل رہی ہے، اس مہینے کی 20 تاریخ کو ایسا منظر دیکھا کہ آنکھیں چندھیا گئیں، ہوائے دل کے لئے حریم ناز میں کھڑکیاں کھلیں مگر دل مرحوم ایسا مردم گزیدہ ہے کہ آئینے سے ڈرتا ہے۔

ساقی فاروقی نے ٹھیک کہا تھا، تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے۔ کیسا کیسا جوہر ہم نے خاک میں ملا دیا اور خس و خاشاک کی ثنا گری کرتے رہے۔ زمیں مگر یہاں کی ایسی زرخیز ہے کہ ہر رات کی کوکھ سے اک نیا سورج تراش لاتی ہے۔ اب دیکھیے، یہ دو ناقابل اصلاح بوڑھے کس غضب کے مغل بچے ہیں۔ ایک کا سینہ چاک چاک ہو چکا، دریدہ دل میں نامعلوم کے بار رفوگری ہوئی ہے۔ جلا وطنی، بندی خانے، توہین، عتاب سب دیکھ چکا۔ دوسرے کی جوانی دشنام کی بوچھار اور سلاسل کی جھنکار میں کھو گئی۔ رفیق حیات جان کی بازی ہار گئی۔ زبان کی جنبش پس دیوار تشدد کی گواہی دیتی ہے۔ مگر دونوں ایسے ہٹیلے ہیں کہ مادر گیتی کی پکار پر لبیک کہنے سے باز نہیں آتے۔ خود گردن زدنی ہیں اور ناز و نعم میں پلی اولاد کو ”مے مرد افگن عشق“ کی صلا دیتے ہیں۔ خلق سب جانتی ہے مگر سرلشکر کی راہ دیکھتی ہے۔ وطن قلعہ فراموشی کی تصویر بن چکا۔

قلعہ فراموشی کا کچھ بیان ہو جائے۔ اردو زبان میں اس تاریخی تلمیح نے فہمیدہ ریاض کے ناول سے تعارف پایا۔ قدیم ایران کے صوبہ خوزستان کے اس قلعے میں ان سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا جنھیں خلق خدا کی یادداشت سے غائب کرنا مقصود ہوتا تھا۔ یہاں قید کیے جانے والوں کا نام لینا بلکہ قلعے تک کا نام لینا ممنوع تھا۔ روایت کے مطابق چھٹی صدی عیسویں میں نیشا پور کے فلسفی مزدک کو نوشیرواں کے حکم پر اسی قلعے میں قتل کیا گیا تھا۔

وطن عزیز کے ضمن میں قلعہ فراموشی کی تلازمہ کاری مناسب حال نہیں کیونکہ مارچ 2011 میں جسٹس جاوید اقبال جیسے شہرہ آفاق انصاف پرور منصف کی سربراہی میں فراموشکیے گئے افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے اپنے فرائض کا نصف حصہ با احسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ہزاروں افراد بازیاب ہو چکے۔ البتہ کمیشن نے ابھی ”ذمہ داری کے تعین“ کا عقدہ وا نہیں کیا۔ وکٹر ہیوگو نے نپولین سوم کے فرانس کی حکومت سنبھالنے پر ایک مضمون قلم بند کیا۔ عنوان تھا، ”ایک جرم کی تاریخ“ (Histoire d’un crime)۔ 1852 میں لکھا جانے والا یہ مضمون خود ساختہ شاہ فرانس نپولین سوم کی موت کے بعد 1877 ہی میں شائع ہو سکا۔ اس کے ایک جملے کو بہت شہرت ملی۔ ”جس خیال کا وقت آ چکا ہو، اسے فوج کے لشکر بھی نہیں روک سکتے“۔

اب یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کسی خیال کا وقت آ چکا یا ابرِ سیاہ نے جانبِ کوہسار بدستور چھاؤنی ڈال رکھی ہے؟ اس کا ایک نسخہ تو اہل مغرب بیان کرتے ہیں۔ اقتدار جس خیال سے خائف ہو، وہی خیال معتبر ہوتا ہے۔ ہم اہل مشرق کچھ داستانوی مزاج رکھتے ہیں، ہمارے اسطور میں کوہ ندا کا تصور ملتا ہے جہاں سے یا اخی کی صدا پر قدم بے قرار ہو جاتے ہیں۔ یہاں مجھے بریخت کو یاد کرنے کی اجازت دیجئے۔ جرمن تمثیل نگار نے کہا تھا کہ سچ اتنا ہی آگے بڑھتا ہے، جتنا ہم اسے آگے دھکیلتے ہیں۔

سچ کو آگے بڑھانے والوں کا نشان درویش عرض کیے دیتا ہے۔ سچ لاوارث نہیں ہوتا، خزاں کے کتنے ہی موسم گزر جائیں، سچ کی ٹہنی پر برگ و بار ضرور آتا ہے۔ سچ کے مقابل آنے والوں کی جڑیں عارضی مفاد کی دلدل میں ہوتی ہیں۔ ٹھیک ساٹھ برس پہلے کسی نے حسین شہید سہروردی کو چھ برس کے لئے قلعہ فراموشی کی سمت روانہ کیا تھا۔ سہروردی کی وراثت ختم نہیں ہو سکی۔ چالیس برس پہلے کسی نے کہا تھا کہ بھٹو کی سیاست ختم ہو چکی۔ یہ دعویٰ کرنے والے بے نشان ہو چکے۔

بیس برس پہلے ایک صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سیاست میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دونوں خلق خدا کی پذیرائی میں واپس آئے۔ خط تنصیف کے دوسری طرف راوی ٹھیک اسی طرح خاموش ہو چکا جیسے کوہ ندا کی صدا سے منہ پھیرنے والے پتھر ہو جاتے تھے۔ قلعہ فراموشی کی رات کے اندھیرے سے جمہوریت کی صدا بلند ہو چکی۔ حبیب جالب نے خلق خدا کے بارے میں کہا تھا، اٹھیں کہ نہ اٹھیں، یہ رضا ہے ان کی۔ کل جماعتی کانفرنس نے وطن کی معاشی، سیاسی اور خارجی افتاد پر بروقت آواز اٹھائی ہے۔ ہنر یہی تو کفِ کُوزہ گر میں ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).