بابری مسجد کے انہدام کیس کا فیصلہ: 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والے جج سریندر کمار یادو کون ہیں؟


پہلی پوسٹنگ فیض آباد تھی، بطور اے ڈی جے پہلی ترقی فیض آباد میں ہی ہوئی اور اب اسی فیض آباد (موجودہ ضلع ایودھیا) میں بابری مسجد کے انہدام سے متعلق حتمی فیصلہ دینا ہے۔

28 سال پرانے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے سپیشل جج سریندر کمار یادو کی زندگی میں ایسا لگتا ہے کہ فیض آباد بار بار ان کی طرف لوٹ کر آتا ہے۔

لکھنؤ میں قائم خصوصی عدالت (ایودھیا کیس) کے پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے وہ 30 ستمبر کو مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ سنانے والے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بابری مسجد گرائے جانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے چہرے کون؟

بابری مسجد کیس میں اڈوانی اور جوشی پر مقدمہ چلے گا

بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟

’صرف بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ٹوٹا‘

پانچ سال قبل پانچ اگست کو انھیں اس معاملے میں خصوصی جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

19 اپریل سنہ 2017 کو سپریم کورٹ نے انھیں روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے سماعت کو دو سال میں پورا کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس مقدمے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے مارگ درشک منڈل یعنی رہنما کونسل کے اہم رہنما ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی، اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ، سابق مرکزی وزیر اوما بھارتی سمیت 32 اہم ملزمان کو جج سریندر کمار یادو کی عدالت میں اس دن موجود رہنے کو کہا گیا ہے۔

جج سریندر کمار یادو کون ہیں؟

مشرقی اتر پردیش کے ضلع جون پور کے پکھان پور گاؤں کے رام کرشن یادو کے گھر پیدا ہونے والے سریندر کمار یادو 31 سال کی عمر میں ریاستی عدالتی خدمات کے لیے منتخب ہوئے تھے۔

ان کی عدالتی زندگی کا آغاز فیض آباد میں ایڈیشنل منصف کے عہدے کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے بعد غازی پور، ہردوئی، سلطان پور، اٹاوہ، گورکھپور میں خدمات انجام دیتے ہوئے وہ دارالحکومت لکھنؤ کے ضلع جج کے عہدے تک پہنچے۔

اگر انھیں خصوصی عدالت (ایودھیا کیس) کے جج کی ذمہ داری نہ دی جاتی تو وہ گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ہی ریٹائر ہوجاتے۔

بار کے لوگ بینچ میں ان کی موجودگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

لکھنؤ میں سینٹرل بار ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ سنجیو پانڈے کا کہنا ہے کہ ‘وہ ایک انتہائی نرم مزاج شخص ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے اوپر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنے دیتے۔ ان کا شمار اچھے اور ایماندار ججوں میں ہوتا ہے۔’

گذشتہ سال جب انھیں لکھنؤ کے ضلعی جج کے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا تو بار ایسوسی ایشن نے انھیں الوداعیہ دیا تھا۔

لیکن اس سے قبل ہی سپریم کورٹ نے ان کی ریٹائرمنٹ کی میعاد میں توسیع کردی تھی اور خصوصی عدالت (ایودھیا کیس) کے پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے بابری مسجد انہدام کیس کی سماعت مکمل کرنے کو کہا تھا۔

ایڈوکیٹ سنجیو پانڈے نے کہا: ‘ہم نے انھیں اس امید کے ساتھ الوداع کہا کہ وہ ایک تاریخی فیصلہ دیں گے جو تاریخ کے صفحات میں لکھا جائے گا۔ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنا فیصلہ سنائيں گے۔’

آئین ہند کا آرٹیکل 142

ریٹائر ہونے والے کسی جج کی مدت ملازمت میں توسیع اپنے آپ میں تاریخی بات تھی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ نے اپنے حق کا استعمال کیا تھا۔

اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ‘مکمل انصاف’ کے لیے پہلے زیر التوا کسی معاملے میں کوئی بھی ضروری فیصلہ کر سکتا ہے۔

بہر حال سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں متعدد بار آرٹیکل 142 کا استعمال کیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بابری مسجد انہدام کیس میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی عدالت عظمی نے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سماعت پوری ہونے تک اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے کہا۔

دوسری جانب اتر پردیش حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاستی عدالتی نظام میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا کوئی نظم نہیں ہے۔

اتنا ہی نہیں، سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں ‘مکمل انصاف’ کے لیے مزید بہت کچھ کہا۔ اس نے کہا کہ ‘جب تک سماعت کا پورا عمل مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت تک کوئی دوسری سماعت نہیں ہوگی۔ سماعت کرنے والے جج کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ سماعت اس وقت تک ملتوی نہیں کی جائے گی جب تک عدالت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کسی خاص تاریخ پر سماعت ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگلے دن یا قریب ترین تاریخ پر سماعت ہوسکتی ہے لیکن ریکارڈ پر ایسا کرنے کی وجہ لکھی جائے گی۔

مقدمہ نمبر 197 اور 198

دراصل بابری مسجد انہدام کیس کا پس منظر چھ دسمبر 1992 کو درج دو ایف آئی آر سے متعلق ہے۔

مقدمہ نمبر 197 میں لاکھوں کارسیوکوں کے خلاف ڈکیتی، لوٹ مار، زخمی کرنے، عوامی عبادت کو نقصان پہنچانے اور مذہب کے نام پر دو جماعتوں کے مابین دشمنی بڑھانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

مقدمہ نمبر 198 میں ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار، اوما بھارتی، سادھوی ریتمبھرا، مرلی منوہر جوشی، گریراج کشور اور وشنوہری ڈالمیا جیسے افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان سب پر الزام ہے کہ انھوں نے مذہبی مخاصمت والی اور اشتعال انگیز تقریر کی۔

بہر حال ان دو ایف آئی آر کے علاوہ 47 مزید علیحدہ علیحدہ مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔ بابری مسجد انہدام کیس میں سی بی آئی نے کل 49 افراد پر الزام عائد کیا تھا، لیکن برسوں سے چل رہی سماعت کے دوران اب تک 17 افراد کی موت ہوچکی ہے۔

جن 17 ملزمان کی موت ہو چکی ہے ان میں بال ٹھاکرے، اشوک سنگھل، گیریراج کشور، وشنوہری ڈالمیا شامل ہیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران آنے والے چیلنجز

‘ملزم ذاتی طور پر موجود ہیں لیکن گواہ غیر حاضر ہے کیونکہ مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان میں اس نے اپنا جو پتہ بتایا تھا اس پر وہ نہیں ملا۔’

‘ملزمان ذاتی طور پر موجود نہیں ہیں۔ کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے۔’

‘گواہ کو شہادت کے لیے طلب کیا گیا تھا لیکن وہ آج عدالت میں پیش نہیں ہو سکا۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ کل حاضر ہوں گے۔’

گواہ کو وی ایچ ایس ویڈیو کیسٹ دیکھ کر گواہی دینا ہے۔ سی بی آئی کے پاس عدالت میں کیسٹ دکھانے کے لیے ضروری آلہ موجود نہیں ہے۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ صرف دور درشن کے دہلی مرکز کا تکنیکی عملہ ہی اس کیسٹ کو یہان آ کر چلا سکتا ہے۔

گواہ نے بذریعہ ای میل یہ اطلاع دی ہے کہ وہ دہلی میں ہیں اور وہ 69 سال کے ہو چکے ہیں اور اس لیے سفر کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ کچھ مثالیں ہیں جو مقدمے کی سماعت کے دوران جج سریندر کمار یادو کی عدالت میں درج کرائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں غیر حاضری کے درجنوں معافی ناموں کو بھی نمٹانا پڑا۔

سماعت کرنے والے کسی جج کے لیے یہ کتنا مشکل ہے؟

ریٹائرڈ جج ایس سی پاٹھک کا کہنا ہے کہ ‘جو لوگ گواہی نہیں دینا چاہتے وہ ٹال مٹول کرتے ہیں۔ کسی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے حالات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن عدالت کے پاس گواہ کو طلب کرنے کے اختیارات ہیں۔ اگر گواہ نہیں آتا ہے تو پھر اس پر سختی کی جاسکتی ہے، اس کے خلاف وارنٹ جاری کیا جاسکتا ہے۔ اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ عدالت کے پاس ایسے اختیارات ہیں۔’

30 ستمبر کی تاریخ

مغل بادشاہ بابر کی تعمیر کردہ جس مسجد کو منہدم کیا گیا تھا اس سے متعلق ایک تاریخی کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ پہلے ہی کر چکا ہے۔

گذشتہ سال نومبر میں جسٹس گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کے آئینی بنچ نے ایودھیا میں ہندو فریق کو رام مندر کی تعمیر کا حق دیتے ہوئے کہا تھا کہ 70 سال قبل 450 سالہ قدیم بابری مسجد میں مسلمانوں کو غلط طریقے سے عبادت کرنے سے روکا گیا تھا۔ اور 27 سال پہلے بابری مسجد غیر قانونی طور پر منہدم کی گئی تھی۔

دوسرا مقدمہ فیصلے کے لیے خصوصی جج سریندر کمار یادو کی عدالت میں 30 ستمبر کی تاریخ کا منتظر ہے۔

کیا غیر قانونی طور پر گرائی جانے والی مسجد کے قصورواروں پر فیصلہ دینا اپنے آپ میں دباؤ والی ذمہ داری نہیں ہے؟

ریٹائرڈ جج ایس سی پاٹھک کا کہنا ہے کہ ‘کسی جج کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ انھیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ آیا اس کے فیصلے کی تعریف کی جائے گی یا تنقید۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے سامنے کس طرح کے شواہد رکھے گئے ہیں اور ان شواہد پر کس قدر یقین کیا جا سکتا ہے۔ ایک جج کو ان چیزوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔’

اس معاملے میں یکم ستمبر کو جج سریندر کمار یادو کی عدالت نے سماعت مکمل کر لی تھی اور دو ستمبر سے فیصلہ لکھنا شروع کردیا تھا۔

اس معاملے میں سی بی آئی نے اپنے حق میں 351 گواہان اور تقریباً 600 دستاویزات پیش کیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp