ریاست کا محکمہ یا سیاسی جماعت؟


آپ سب یہ عنوان پڑھ کر حیران ہو گئے ہوں گے کہ پتا نہیں اس بندے کا ذہنی توازن ٹھیک ہے بھی یا نہیں۔ یہ کیسا عنوان دیا ہے۔ حالانکہ اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ فوج تو محکمہ ہے۔ مگر محترم قارئین! میں نے فوج کو سیاسی جماعت نہیں کہا، بلکہ ایک سابق میجر جنرل نے فوج کو سیاسی جماعت بتلایا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ”سما نیوز“ سے بدھ کی شب دس بجے پروگرام ”آواز“ نشر ہوتا ہے۔ اس کے اینکر علی حیدر ہیں۔ اس شو سے پہلے شام کو وزیر ریلویز شیخ رشید احمد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے آرمی چیف سے ملاقات کی۔ اس بیان پر رد عمل کے لئے جب مولانا عبد الغفور حیدری سے پوچھا گیا، تو انہوں نے بتایا، یہ ملاقات، آزادی مارچ سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی درخواست پر ہوئی اور اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، تب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور بھی موجود تھے۔

اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان سے کہا گیا کہ آپ آزادی مارچ نہ کریں، کیونکہ آپ کے مارچ سے اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں نواز شریف کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم ان کے خلاف مصروف ہیں۔ اینکر نے حیرانی سے پوچھا، ”آرمی چیف نے کہا“؟ تو مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا، ”جی ہاں!“ مولانا نے آرمی چیف کو جواب دیا تھا کہ ہماری جدوجہد حکومت کے خلاف ہے، میاں نواز شریف کے لئے نہیں اور آپ حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔

کچھ باتیں اس دن تو کچھ بعد میں سننے میں آئیں کہ مولانا کو روکنے کے لئے دھمکیاں بھی دی گئیں، اور بہت تلخ کلامی ہو گئی تھی، اس ملاقات میں۔ مولانا عبد الغفور حیدری نشست سے کھڑے ہو گئے تھے اور ان کی ڈی جی آئی ایس پی آر سے تلخ کلامی ہوئی۔ پھر آرمی چیف کی اہلیہ نے آ کر ماحول ٹھنڈا کیا۔ اس ملاقات میں اکرم خان درانی بھی شامل تھے۔

اس کے بعد میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان صاحب کو مدعو کیا گیا، تو انہوں نے دفاع کرتے یہ کہا کہ فوج تو پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ اس بیان کا یہی مطلب ہوا کہ جو میاں نواز شریف نے کہا تھا، وہ سچ ہے۔ پھر اس میں کیا غلط بات ہے، جب ایک ریٹائرڈ جنرل کہیں کہ فوج ایک سیاسی جماعت ہے؟

آئین میں لکھا گیا ہے کہ فوج کا کام سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ فوج میں کمیشن لینے سے پہلے ہر فوجی یہ حلف اٹھاتا ہے کہ میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا۔ مگر یہ کچھ دیکھ سن کے لگتا ہے کہ فوج کی اعلی قیادت سیاست میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔

اگر فوج ایک سیاسی جماعت ہے تو بتایا جائے کہ کیا فوج بطور سیاسی جماعت، الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے؟ اس پارٹی کا اس وقت سربراہ کون ہے؟ اور دیگر عہدیدران کون ہے؟ اس پارٹی کا کوئی آئین ہے؟ اس پارٹی کا کوئی منشور ہے؟ اس پارٹی کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی ہے؟ اس پارٹی کی گراس روٹ لیول تک تنظیم سازی ہے؟ ان سوالات کے جوابات قوم کو بتانے چاہیے۔

اگر فوج کو سیاسی جماعت سمجھ لیا جائے، تو یہ واحد سیاسی جماعت ہے، جو موروثیت سے پاک سیاسی جماعت ہے۔ دیکھیں 73 سالوں میں اس کے 16 سربراہ رہے ہیں۔ کسی سربراہ کا بچہ، اس پارٹی کا سربراہ نہیں بنا۔ یعنی عوام میں حب الوطنی کا نعرہ لگا کر مقبول ہے۔ اس پارٹی کا سربراہ دو تین باری بھی لے سکتا ہے۔ جب دوسری باری پر معاملہ عدالت عظمی گیا تو سپریم کورٹ نے کہا قانون سازی کریں۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ اس کے سربراہ کے لئے پارلیمان میں قانون سازی کی گئی۔ اب اس پارٹی کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کی عمر 64 سال کردی گئی ہے مگر یہاں سوال یہ ہے کہ اس جماعت نے 33 سال اس ملک پر بغیر انتخاب لڑے حکومت کی ہے، ان سے سوالات کیوں نہیں کیے جاتے؟

فوج جب بطور محکمہ کہے کہ ہمارا سیاست سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ فوجی قیادت یاد آ جاتی ہے، جنہوں نے آئین پر شب خون مارا اور اپنے آپ کو آرمی چیف کہتے رہے۔ اس ملک میں مارشل لا لگایا اور اوسطاً 9 سال حکومت کی۔ وہ کون ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو آرمی چیف کہتے، فوج کو بدنام کیا؟ حالانکہ فوج کہہ چکی کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا کبھی واپڈا، ریلویز یا دیگر سرکاری محکموں کے ترجمانوں کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے؟

ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں کس طرح دھاندلی کر کے فاطمہ جناح کو ہرایا، اور مادر ملت کو غدار کہا گیا۔ 1977ء میں کس نے پس پردہ رہ کے پی این اے کی تحریک کی حمایت کی تھی؟ ضیا الحق کس فوج کا سربراہ تھا، جس نے مارشل لا لگایا تھا؟ کس نے سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم بنوائی؟ 1988ء میں کس نے بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی بنوائی؟ نواز شریف اس وقت آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ کورٹ میں کس نے یہ اعتراف کیا کہ 1990ء میں کس طرح آئی ایس آئی نے پیسا بانٹ کر دھاندلی کروائی؟ 12 اکتوبر 1999ء کو کس محکمے نے مارشل لا لگایا؟ مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق کس محکمے نے بنوائی؟ 1985ء میں پاکستان مسلم لیگ کا قیام کس کے زیر نگین عمل میں آیا؟ جب 2002ء کے الیکشن میں پوری محنت کے باوجود مسلم لیگ ق کا وزیر اعظم نہیں بن رہا تھا تو پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کس نے بنوائی؟

چودھری پرویز الہی کا انٹرویو ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے مسلم لیگ ق کے ایم این اے پی ٹی آئی میں بھرتی کروائے۔ 2014ء میں دھرنے کی پشت پناہی کس نے کی تھی؟ 2017ء میں تحریک لبیک کا فیض آباد دھرنا کس نے بٹھایا؟ پھر زاہد حامد کے استعفی کے بعد شرکا میں ہزار ہزار کے نوٹ کس نے تقسیم کیے؟ فیض آباد دھرنا پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے؟

اب بتایا جاتا ہے کہ 2018ء میں بلوچستان حکومت اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ عاصم سلیم باجوہ نے گرائی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کس نے بنوائی؟ 52 کے مقابلے میں 51 ووٹ ہونے کے باوجود صادق سنجرانی کو چئیرمین سینیٹ کس نے بنوایا؟

کس نے کہا تھا 2018ء تبدیلی کا سال ہے؟ کس نے کہا تھا، دشمن کو ووٹ کی طاقت سے شکست دیں گے؟ کس نے 2018ء میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنوایا؟ کس نے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ٹکٹ واپس کرنے کا کہا اور پھر محکمہ زراعت کا نام پڑا؟ 25 جولائی 2018ء کو پولنگ ایجنٹوں کو دھکے دے کر باہر نکالا گیا اور ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ کس نے فارم 45 نہیں دینے دیے؟ کس نے پی ٹی آئی اتحاد مینیج کروایا؟ کس نے پنجاب میں اکثریت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں بننے دی؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں، تو مسئلہ کیا ہے؟

اے پی سی کے اعلامیہ اور ایک تقریر سے گھبرانے والے گھبرا گئے اور شیخ رشید ان کے ترجمان بن کے ملاقات کی خبر لیک کرنے آ گئے۔ جن کا تعلق قانون سازی سے نہیں، انھوں نے کیوں کر گلگت بلتستان پر اجلاس بلوایا؟ یہ تو وزیر اعظم اور پارلیمان کا کام نہیں ہے؟ ایف اے ٹی ایف بل پاس کروانے کے لئے کس نے 36 اپوزیشن اراکین کو آنے سے روکا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دینے کوئی غفور حیدری آئے تو پاکستان نازک دور میں داخل ہونے لگتا ہے۔ جارح کو پینترا بدلنے کے لیے بیک فٹ پر جانا پڑتا ہے۔

یہ وہ سوال ہیں، جو کوئی سوشل میڈیا پر پوچھے تو اس پہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں۔ محکمہ زراعت کو سیاست میں مداخلت بند کرنا ہو گی۔ اسی میں زراعت و جمہوریت کی فلاح ہے۔ اس ملک کو اگر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو تمام محکموں کو اپنی آئینی حدود میں رہنا ہو گا اور اپنے کام سے کام رکھنا ہو گا۔ اس ملک کے فیصلے پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے چاہییں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).