ڈرے سہمے بچے اور غافل سماج


26 ستمبر کی ڈوبتی سہ پہر، نور محمد کی حویلی میں مٹی کے اونچے ڈھیر پر آلتی پالتی مارے بیٹھا 10 سالہ بچہ ساحل آس پاس سے بے نیا ز مٹی کے گھروندے بنا تا، گراتا اور قہقہے بکھیرتا۔ بے شک بچپن اتنا ہی معصو م اور لاپروا ہو تا ہے۔ قریب ہی دو نوجوان ساول علی اور محمد امین گلی سے ہاتھ کی ریڑھی پر مٹی بھر بھر کر حویلی میں لا رہے تھے اور حویلی کی گہرائی بتدریج کم ہو تی جا رہی تھی۔ سا حل کھیلتے کھیلتے اچا نک اٹھا، ہاتھ جھاڑتا ہو ا ساول علی کے پاس جا کھڑا ہوا جسے وہ چچا کہہ کر پکا رتا تھا۔ اور بڑی دلچسپی سے ساول کو کدال سے مٹی برا بر کر تے دیکھنے لگا۔ پھر نجانے دل میں ساول کا ہاتھ بٹانے کا کیا خیا ل آ یا کہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے زمین پر بیٹھ کر مٹی ہموار کر نے لگا۔ اگلے ہی لمحے ساول اور امین نے اسے دبو چ لیا۔

ننکانہ صاحب کی مٹی خون آلو د ہو گئی۔ چند لمحے قبل قہقہے بکھیرتے ساحل کی درد ناک چیخیں فضاؤں کو چیرتی گئیں۔ محلہ دار بجلی کی سی سرعت کے ساتھ چیخوں کے رخ پر دوڑے۔ منظر انتہائی کربنا ک تھا۔ خون میں لت پت ساحل اور محلہ داروں کا گہرا غم و غصہ۔ پولیس فوراً جا ئے حادثہ پر پہنچی۔ ایک ملزم گرفتا ر ہوا جبکہ دوسرا بھاگ نکلا۔ مگر ڈی پی او ننکانہ اسماعیل کھارک نے ٹھان لی کہ دوسرے ملزم کو بھی 24 گھنٹوں کے اندر گرفتار کرنا ہے۔ وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امو ر پنجاب جنا ب اعجاز عالم آگسٹین مسلسل پولیس اور عوام کے ساتھ رابطے میں تھے اور بالآخر کچھ گھنٹوں کی مشترکہ کو ششوں سے دوسرا ملزم بھی گرفتار ہو گیا۔ میڈیکل رپورٹ ہو ئی۔ اور شہری دکھ اور اطمینان (پولیس کی بر وقت کارروائی پر) کے ملے جلے جذبات کے ساتھ گھروں کو لوٹ گئے۔

مگر اپنے گھر میں خوف کی چادر لپیٹے بستر پر لیٹا گم سم ساحل ویران نظروں سے اپنے بچپن کو ڈھونڈ رہا تھا جب وہ بلا جھجک ہر کسی سے بات کر سکتا تھا۔ میں نے ٹیلیفون پر ساحل کے والد سے بات کی تو وہ بہت کر ب سے بولا کہ۔۔۔ ”ہمیں انصاف چاہیے ملزموں کو سر عام پھانسی دی جائے“ میں نے ساحل کے بارے بات کی تو کہنے لگا ”جی وہ بہت خوفزدہ ہے کسی سے بات نہیں کر تا بس چپ چاپ بستر پر پڑا ہے۔ وہ معصوم کیا بولے گا بس ملزموں کو سر عام پھانسی ملنی چاہیے“ ۔ بات پلٹ کر پھر سزا پر آ گئی۔ مگر آپ اس سے بات چیت کر یں کیا اسے کوئی کو نسلنگ سپورٹ ملی ہے میرے استفسار پر ساحل کے باپ نے کہا ”جی ہسپتال والوں نے دوائی دے کر گھر بھیج دیا ہے“ اور میں سمجھ گئی کہ ساحل کا مزدور باپ کونسلنگ سپو رٹ سے آشنا نہیں۔

اور کچھ ایسی ہی کہانی 15 سالہ زین العابدین کی ہے جس سے دو ہفتے قبل وزیر انسا نی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اور ڈائریکٹرجنرل ہیو مین رائیٹس پنجا ب کے ہمراہ میں نے نشتر ہسپتال میں ملا قات کی تھی۔ زین سے مظفر گڑھ میں دو ملزموں نے جنسی زیا دتی کی کو شش کی۔ زین کے مزاحمت کرنے پر اسے فائر مارا گیا۔ پولیس نے ملزمان گرفتار کر لیے ہیں۔ زین کے وارثین بھی ملزموں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا اسرار کر رہے ہیں۔ مگر سرجری کے تازہ زخموں سے چو۔ ر زین اس حادثے کے خو ف سے باہر نہیں نکل پایا اور نہ ہی نشتر ہسپتال جسے اعلیٰ طبی ادارے میں کو نسلنگ اور ٹراما ہیلنگ کا کوئی میکانزم مو جو د ہے جو زین کو اس حادثے کے کرب اور گہرے صدمے پر قابو پانے میں مدد گار ہو۔

موٹر وے حادثے کے تینوں کم سن بچے جن کے سامنے ان کی ماں کو جنسی زیا دتی کا نشانہ بنا یا گیا، کیاوہ اس حادثے کے منفی اثرات سے نبرد آ زما ہو پائیں گے؟ مگر سماج پوری قوت سے ملزموں کو سرعام پھانسی دینے میں کو شاں ہے۔ جنسی زیا دتی کے ان تینوں واقعات میں ایک مماثلت ضرور ہے اور وہ یہ کہ بچے کے ساتھ جنسی زیا دتی ہوئی ہو یا چاہے اس کے ساتھ جنسی زیا دتی کی کو شش کی گئی ہو یا پھر چاہے اس کے سامنے اس کی ماں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا یا گیاہو۔ کسی بھی صورت حال میں بچے کو فوری کونسلنگ سپورٹ میسر نہ تھی۔

المیہ یہ ہے بچو ں سے زیا دتی کے discourse میں بچہ کو مر کز بنا کر حادثات کا جائزہ لینے کی بجائے بچے کو ہی نظر انداز کر دیا جا تا ہے اور سارے مکالمے اور رد عمل کا محور سزا بن جا تا ہے۔ یہ رویے والدین سے شروع ہو کر سماج تک پائے جاتے ہیں۔ اگر ساحل کا باپ سر عام پھانسی کا مطالبہ کر تا ہے تو سماج میں بھی ہمیں سر عام پھانسی کی سزا کے حامیوں کی ایک معقول تعداد نظر آتی ہے۔ لیکن بہت ہی قلیل تعداد ان لو گو ں کی ہے جو (پھانسی کی سزا کو سر عام پھانسی کی سزا میں بدلنے کی بجائے ) بچے کی کونسلنگ اور rehabilitation پر زور دیتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ملزم کو سزا کم ملے یازیادہ کیا زیادتی کا شکا ر ہونیوالا بچہ اس سزا کے نتیجے میں سماج میں باوقار طریقے سے دوبارہ شامل ہو گا؟ کیا اس کی کونسلنگ اور Trauma Healing کا کوئی سامان مو جو د ہے؟ کیا اس کے والدین اور عزیزواقارب کی تربیت سازی کی کوئی سہولت موجود ہے جہا ں وہ یہ سیکھ سکیں کہ ایسے بچوں کو زندگی میں واپس لا نے کے لئے کیسے Treat کیا جاناچاہیے۔

بلا شبہ بچوں کے ساتھ جنسی زیا دتی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تیزی سے بڑھتی شرح انتہائی خطرناک ہے۔ ساحل آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2020 ء کے پہلے چھہ مہینوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیا دتی کے 1489 کیس رپورٹ ہو ئے۔ جن میں سے 57 %پنجا ب 32 %سندھ اور 6 % خیبرپختونخوا سے ہیں۔ جبکہ بلو چستان میں 22، اسلام آباد میں 35، آزاد کشمیر میں 10 اور گلگت بلتستان میں 01 کیس رپورٹ ہوا۔

وزارت برائے انسانی حقوق کے مطابق پچھلے ڈیڑھ سے دو سال کے د رمیان بچوں سے جنسی زیا دتی کے 543 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 400 بچوں کی عمر 5 سے 15 جبکہ 143 بچیوں کی عمر 4 سے 10 سال تھی۔ نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آ ف چائلڈ کو بھی بچوں کے حقوق کی پا مالی سے متعلق مو صول ہونے والی شکا یات میں بچوں سے جنسی زیا دتی کے واقعات خاصے نما یاں ہیں۔

تاہم بچوں سے جنسی زیادتی کی بڑھتی شرح کو روکنے کے لئے مجرموں کی سزائیں دہشت ناک بنانے کی بجائے حکمت عملی کا محور بچوں کو محفوظ ما حول مہیاکر ناہوناچاہیے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل چند نقا ط پر غو ر و فکر اور عملدرآمدکی سفارش ہے۔

اؤ ل حکومت باقاعدہ بنیا دوں پر بچوں سے جنسی زیا دتی کے واقعات کی ما نٹرنگ اور assessment کرتے ہو ئے رپورٹنگ میکا نزم کو بہتر بنا ئے تاکہ بہتر اعداد و شمار کے ذریعے واقعات کی وجوہات اور نتا ئج کا جائزہ لے کر رسپانس سسٹم بنا یا جا سکے۔

دوئم اگر چہ حکو مت بہتر قانون سازی کی طرف خاصی متوجہ ہے لیکن کو نسلنگ اور Trauma Healing کا کوئی مضبوط نظام ہونا چاہیے۔

سوئم پولیس اور انصاف کے نظام کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ سزائیں یقینی ہوں۔

چہارم سماج میں احساس ذمہ داری اور شعوری آگہی کو فروغ دینا تا کہ وہ حکو متی اداروں کے ساتھ مل کر مجرموں کو جرات اور فراست سے بے نقاب کر تے ہوئے انہیں ان کے حتمی انجام تک پہنچا سکیں۔

سماج کی بچو ں سے جنسی زیادتی کی جانکاری اور آگہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو شہریوں کی فکری پختگی اور احساس ذمہ داری کو پر وان چڑھاتی ہے۔ اور اس کا تجر بہ ہم نے ساحل کے کیس میں کیا ہے جہاں عوام اور پولیس نے شانہ بشانہ چلتے ہوئے انتہائی قلیل مدت میں ملزموں کو گرفتار کیا۔ تا ہم موثر تفتیش اور قانونی تقاضوں کا کٹھن مر حلہ ابھی باقی ہے جو ساحل کو انصاف دلا سکے گا۔

ڈاکٹر روبینہ فیروز بھٹی نیشنل کمیشن برائے حقوق اطفال کی رکن ہیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف سین ڈیئگو سے لیڈرشپ سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان سے درج ذیل ٹویٹراکاؤنٹ کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے @RubinaFBhatti


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).