آذربائیجان، آرمینیا کشیدگی: یہ دونوں ممالک کہاں واقع ہیں اور اُن کے مابین تنازع کتنا پرانا ہے؟


جنگ

غالب امکان یہی ہے کہ آپ نے اپنے کسی جاننے والے کے بارے میں یہ سُنا ہو گا کہ وہ گذشتہ دنوں سیر و تفریح کی غرض سے آذربائیجان کے شہر باکو گیا تھا۔ اور اگر یہ نہیں سُنا تو اخبار یا انٹرنیٹ پر ٹریول ایجنٹس کے وہ اشتہار تو آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے جن میں باکو شہر کی سیاحت کے سستے پیکجز کی تشہیر کی گئی ہو گی۔

مگر حالیہ دنوں میں آذربائیجان ایک تنازعے کی زد میں آ گیا ہے اور اپنے پڑوسی ملک آرمینیا سے ہونے والی اس کی جھڑپوں میں اب تک 100 کے لگ بھگ ہلاکتوں ہو چکی ہیں، ہلاک ہونے والوں میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں بہت سے لوگ ان دونوں ممالک کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ یہ ممالک کہاں واقع ہیں، ان کی تاریخ کیا ہے اور ان کے مابین تنازعے کی نوعیت کیا ہے؟

اس رپورٹ میں ان تمام سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

آذربائیجان

تیل کے ذخائر سے مالا مال آذربائیجان بحیرۂ کیسپیئن کے ایک کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ واقع ہے۔ اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا موجود ہیں۔

سنہ 1991 میں جب آذربائیجان سوویت یونین سے آزاد ہوا تو ترکی، پاکستان، امریکہ اور ایران وہ ابتدائی ممالک تھے جنھوں نے اس کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔ آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ترکی جبکہ دوسرا پاکستان تھا۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوان

آرمینیا اور آذربائیجان میں جھڑپیں: ناگورنو قرہباخ سے متعلق تنازع ہے کیا؟

آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’پاکستان کشمیر پر حمایت کے بدلے ترکی کا احسان چکا رہا ہے؟‘

یہاں قریب ایک کروڑ آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن ریاست کا مذہب اسلام نہیں ہے اور آئینِ آذربائیجان کے مطابق یہ ایک سیکولر ملک ہے۔

صدر ممنون آدربائیجان کے دورے پر

پاکستان آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا دوسرا ملک تھا۔ (سابق صدر ممنون حسین آذربائیجان کے دورے کے موقع پر گارڈ آف آنر وصول کر رہے ہیں)

اس خطے میں توانائی کے شعبے کے اعتبار سے آذربائیجان ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں آذری اور روسی زبانیں بولی جاتی ہیں اور مرکزی برآمدات میں تیل کی مصنوعات شامل ہیں۔

اگر آذربائیجان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 19ویں صدی میں آج کے دور کا آذربائیجان فارس اور روسی سطلنت میں بٹا ہوا تھا۔ اسی صدی کے وسط میں یہاں دنیا کا پہلا تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔

سنہ 1918 میں آذربائیجان نے خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا لیکن پھر سوویت فوج نے اس میں مداخلت کی اور یہ سنہ 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔

الہام علیئف آذربائیجان کے چوتھے اور موجودہ صدر ہیں اور وہ سنہ 2003 سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔ وہ اپنے والد کے جانشین تھے۔ پہلے یہاں ایک شخص دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا تھا لیکن سنہ 2009 میں ایک ریفرنڈم (عوامی رائے شماری) کے ذریعے یہ قانون تبدیل کر دیا گیا تھا۔

قانون میں تبدیلی کے بعد الہام علیئف تیسری اور چھوتھی مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔

سنہ 2016 میں ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی امیدواروں کے لیے عمر کی بالائی حد ختم کر دی گئی تھی۔ خیال ہے کہ صدر الہام علیئف نے ایسا اپنے خاندان اور بیٹے کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کیا۔

الہام علیئف آذربائیجان کے چوتھے اور موجودہ صدر ہیں اور وہ سنہ 2003 سے اس عہدے پر براجمان ہیں

الہام علیئف آذربائیجان کے چوتھے اور موجودہ صدر ہیں اور وہ سنہ 2003 سے اس عہدے پر براجمان ہیں

صدر الہام علیئف کے دور میں آذربائیجان بین الاقوامی سطح پر کافی متحرک رہا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اُن پر آزادی رائے پر قدغن اور صحافیوں و کارکنان کو گرفتار کرنے کا الزام لگاتی ہیں۔

آرمینیا

آرمینیا مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا میں موجود ایک ملک ہے جس کے چاروں طرف دیگر ممالک ہیں یعنی کوئی سمندر نہیں ہے۔ اس کے مغرب میں ترکی جبکہ مشرق میں آذربائیجان موجود ہیں۔

اس ملک کی تاریخ دیگر یورپی ممالک سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یہ قدیم ترین مسیحی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ آرمینیا میں چوتھی صدی میں ہی گرجا گھر قائم ہونا شروع ہوگئے تھے۔

31 لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں اکثریت مسیحی افراد کی ہے اور یہاں آرمینیئن اور روسی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن آرمینیا کے آئین میں ریاست اور مذہبی اداروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا ہے تاہم آذربائیجان کی طرح سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔

آرمینیئن اپوسلک چرچ کو شہریوں کے لیے سرکاری مذہبی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔

بعد کی صدیوں میں آج کا آرمینیا بازنطین، فارس، منگول اور ترک سلطنتوں میں شامل ہوتا رہا ۔

آرمینیا نے سنہ 1918 میں پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کو شکست دے دی تھی لیکن پھر اسے سوویت یونین کا حصہ بنا لیا گیا۔ سنہ 1991 میں یہ سوویت یونین ٹوکنے کے دوران آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔

سنہ 2018 میں آرمینیا میں پُرامن انقلاب اور احتجاجی رہنما نیکول پشنیان کے وزیر اعظم بننے پر کئی عرصے سے موجود ریپبلیکن پارٹی اقتدار سے باہر ہوگئی تھی۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازع کیا ہے؟

محل وقوع

گذشتہ دنوں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

یہ تنازع آج کا نہیں بلکہ اس کی گتھی کئی دہائیوں پرانی ہے اور اس کا مرکز ناگورنو قرہباخ نامی علاقہ ہے۔ ناگورنو قرہباخ کا خطہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں بھی جھڑپوں کی وجہ بنتا رہا ہے۔

یہ علاقہ آذربائیجان کا منظور شدہ حصہ ہے لیکن اس کی اکثریت نسلی آرمینیئن لوگوں کی ہے اور یہ علیحدگی پسندوں کے زیرِ انتظام ہے۔

1980 کی دہائی کے آواخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں آذربائیجان اور آرمینیا نے اس مسئلے پر ایک خونی جنگ لڑی تھی۔ روس کی مدد سے جنگ بندی تو ہوگئی تھی لیکن کبھی امن معاہدہ نہیں ہوسکا تھا۔

اسی کی دہائی میں جب سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو ناگورنو قرہباخ نے آرمینیا کا حصہ بننے کے حق میں فیصلہ کیا اور اس طرح آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جس کی باقاعدہ جنگ بندی سنہ 1994 میں ہوئی۔

تاہم برسوں پر محیط مذاکرات اور بین الاقوامی قوتوں کی ثالثی سے بھی امن قائم نہ ہو سکا۔

آسان لفظوں میں یہ کہ آرمینیا میں اکثریت مسیحی افراد کی ہے جبکہ تیل کے وسائل سے مالا مال آذربائیجان مسلمان اکثریتی ملک ہے۔ ہمسایہ ملکوں میں ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لیکن روس آرمینیا کا ساتھ دینے کے ساتھ آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتا ہے۔

ماضی

ماضی میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان اس معاملے پر متعدد مرتبہ خونریز جھڑپیں ہو چکی ہیں

گذشتہ کئی صدیوں کے دوران مسلمان اور مسیحی طاقتوں نے اس خطے پر حکمرانی کرنا چاہی ہے۔

اپنے تیل کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے آذربائیجان نے اپنی فوج کو دوبارہ تشکیل دیا تھا اور دفاع کے لیے یہ حکومتی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ فوج کو ناگورنو قرہباخ کے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ترکی کے آرمینیا کے ساتھ سرکاری سطح پر تعلقات نہیں ہیں اور سنہ 2009 میں باہمی کوششوں کے باوجود یہ قائم نہ ہو سکے۔ ترکی بارہا اس تنازع میں آذربائیجان کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ آرمینیا اور روس ایک فوجی اتحاد کا حصہ ہیں لیکن ماسکو نے متعدد بار دونوں میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔

سنہ 2018 میں آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشنیان نے آذربائیجان کے صدر کے ساتھ تناؤ کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

یہ واضح نہیں کہ کس ملک نے حالیہ کشیدگی میں پہل کی لیکن دونوں ملکوں میں کشیدگی ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp