مسرور نواز جھنگوی کی فتح اور ہم سب


\"mubashir\"مجھے اندازہ ہے کہ میرے چند اک ’’جگری دوست‘‘ میری اس تحریر پر کیا ارشاد فرمائیں گے، مگر اپنے تئیں جو سچ ہے، اس کا غیرجذباتی بیان کچھ نقصان بھی تو نہیں کرے گا۔ سو دلچسپی ہے تو کہے دیتا ہوں، جنابانِ من: مسرور نواز جھنگوی کی جھنگ کے اک الیکشن میں فتح، بھلے آپ کو ٹھنڈے پیٹوں قبول نہ ہو، مگر یہ اسی جمہور کا فیصلہ ہے جو جمہوریت کے اوورآل سپیکٹرم کا اک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مجھے ان کی فتح کی بنیاد سے اتفاق بھلے نہ ہو، مگر جھنگ میں موجود ان کے ووٹرز کے فیصلے کا احترام مکمل اور ٹھوس ہے۔ یہ لوگوں کی ہی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جسے چاہیں سیاست کے پراسیس میں فتح دیں، یا ہرا دیں۔

کل شام سے، اور خصوصاً آج صبح سے مسرور نواز جھنگوی کی فتح پر سوشل میڈیا پر یار لوگوں کے کلمات اور ردعمل بہت لطف دے رہے ہیں: کوئی جمہوریت کا جنازہ پڑھ رہا ہے، کوئی پاکستان میں لبرلزم کی موت قرار دے رہا ہے، کوئی عوام کو جاہل قرار دے کر دانش کے ایورسٹ پر براجمان ہے، تو کوئی اس بات پر مصر ہے کہ یہ ملک، عوام، جمہوریت اور اس کا نظام، سب ہی فضول ہیں۔ لہٰذا یہاں کچھ بدلنے والا نہیں۔

آپ کے جذبات سے اتفاق نہ بھی کروں تو ان کا احترام کرتا ہوں۔

مسرور نواز جھنگوی کی فتح میں پاکستانی معاشرے، ریاست، جمہوریت اور نظام کی شکست تلاش کرنے والوں کو اک نہایت چھوٹی سی حقیقی خبر یہ ہو کہ وہ پنجاب اسمبلی کے رکن، اسی علاقے سے بنے ہیں جہاں سے وہ بن سکتے تھے۔ صورت حال تو یہ ہے کہ ان کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ کے آس پاس بھی ان کی مذہبی جماعت کا ہم خیال کوئی موجود نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے کل 371 اراکین ہیں، جن میں سے ایک مسرور نواز جھنگوی بھی ہوں گے، تو جناب یہ سارے ہاؤس کا 0.269542 فیصد بنتا ہے۔ اور یہ ’’عظیم الجثہ ہندسہ‘‘ صرف پنجاب اسمبلی تک ہی محدود ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے جیتنے کا اثر ساتھ والے صوبائی حلقے پر نہیں، کہ جمہوریت میں ہر اکائی کی اپنی جگہ متعین ہے۔ تو لہٰذا، صاحبان، حوصلہ رکھیں اور مذہبی ملائیت کے مقابلے میں سیاسی ملائیت مت لے کر آئیے۔ اگر آپ نے مذہبی ملائیت کا مقابلہ سیاسی ملائیت سے ہی کرنا ہے تو طرفین میں فرق تلاش کرنے میں میری مدد فرما دیجئے۔ بہت شکرگزار ہوں گا۔

جمہوریت اور سیاسی نظام کو آپ اپنے من کی خواہشات کے مطابق کیونکر چلا سکتے ہیں؟ میری نزدیک تو جمہوریت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی خواہش رکھنا بھی اک سیاسی گناہ ہے۔ آپ کا سیاسی ایمان اور سیاسی نظام کی مضبوطی پر ایمان ایسے ہی معاملات سے جانچا جا سکتا ہے کہ جس میں آپ کی مرضی کے فیصلے نہ ہوں، تو بھی آپ نظام کی موجودگی اور اس کے چلتے رہنے کے حوالے سے دل کشادہ رکھتے ہوئے ان فیصلوں کو بھی تسلیم کریں جو آپ کی مرضی و منشا کے مطابق نہیں ہوں۔

مسرور نواز جھنگوی ملک کے آئین و قانون کے مطابق پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن بنے ہیں، وہ اسی قانون کے تحت صوبائی اسمبلی کی ممبرشپ کا حلف اٹھائیں گے، اور پھر اسی حلف کے تحت، بحیثیت اک انفرادی ممبر کے اپنے کام سرانجام دیں گے۔ ان کا جیتنا، اور دوسرے امیدوار کا ہارنا، جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ ان کی فتح میں جمہوریت، سیاسی نظام، معاشرے اور ریاست کی ناکامی تلاش مت کیجیے کہ پاکستانی قوم اک پتھر کی مانند ایک ہی ہیئت کی نہیں، اس میں ہزاروں مختلف رنگ ہیں۔ کوئی رنگ پسند نہ بھی ہو تو اک مکمل تر تصویر پر گالی، کچھ جچتی نہیں، صاحبو۔

بہتر تو یہ ہے کہ آپ ہمت اور مسلسل کوشش کرکے سیاست کے ذریعہ ان کا رستہ اگلے الیکشنز میں روکنے کی کوشش کریں۔ اک صوبے کے اک شہر سے اک صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی اک نشت جو اک مخصوص مسلکی جماعت کو ملی، اس سے سارے نظام اور معاشرے پر ذاتی ردعمل کی عینک سے سب لال لال دیکھنا درست نہیں۔ آپ اگر یہ لال لال عینک اتاریں تو آس پاس بہت کچھ ہرا ہرا نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر یہ ہرا ہی کافی رہنا چاہئیے کہ 371 میں سے ایک مسرور جھنگوی ہیں، باقی 370 جھنگوی نہیں ہیں۔ انتخاب بہرحال آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ اب انسانی انتخاب کرنا ہے یا حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کے بقول (ماخوز): اچھائی چھوڑ کر برائی تلاش کرنے والا اس مکھی کی مانند ہے جو سارا صحت مند جسم چھوڑ کر پیپ زدہ زخم پر ہی بیٹھنا مناسب سمجھتی ہے۔
خود سے سوال تو پوچھئیے کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں، دوستو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments