مولانا فضل الرحمان کے لہجے میں سختی اور نیب کے نوٹس کی بازگشت


مارچ

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد جس شدت سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں اس طرح حزب اختلاف کے قائدین کی جانب سے بیانات میں بھی تیزی آئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا بھی ایک حالیہ بیان سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’سیدھے ہو جاؤ کیونکہ ہم تو سیدھے ہیں نہیں تو افغانستان میں جو حشر امریکہ کا ہوا ہے وہ حشر یہاں تمہارا ہوگا‘۔

اس ویڈیو کلپ میں انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں تاہم سیاسی مبصرین ان کے اس بیان کو انتہائی سخت موقف قرار دے رہے ہیں۔

ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر یہ تاثر ہے کہ جیسے مولانا فضل الرحمان کے لب و لہجے میں سختی اس نوٹس کی خبروں کے بعد ہی آئی ہے۔

مبصرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ نیب کے ایک مبینہ نوٹس کی بازگشت کے بعد ہی جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جس طرح کھل کر میدان میں آئے ہیں اس طرح کا رویہ پہلے کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

اگرچہ مولانا فضل الرحمان موجودہ اس حکومت کے قیام سے ہی اس کے بڑے ناقدین میں شامل ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اس حکومت کو ’لانے والے کوئی اور ہیں اور یہ کہ یہ سب بیرونی ایجنڈا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیے

جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان، اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ

اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ: اب آگے کیا ہو گا؟

ایسا پہلی بار ہوا ہے: عاصمہ شیرازی کا کالم

اپوزیشن کی ’سرگرمیاں‘: سہیل وڑائچ کا کالم

فضل

مولانا کو نیب کا نوٹس؟

ذرائع ابلاغ میں گزشتہ چند دنوں سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ قومی احتساب بیورو نے مولانا فضل الرحمان کو ایک نوٹس جاری کیا ہے اور ان کو یکم اکتوبر کو نیب کے پشاور کے دفتر میں طلب کیا گیا ہے۔ اس بارے میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ انھیں کوئی نوٹس نہیں ملا لیکن ساتھ ہی جماعت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کو نیب میں طلب کیا گیا تو ان کے نیب میں پیش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ جماعت کرے گی۔

اس نوٹس کے بارے میں بھی مختلف تبصرے سامنے آ رہے ہیں اور اس بارے میں ذرائع نے کہا ہے کہ نوٹس تیار کیا گیا ہے لیکن اس کی تاریخ اب تک طے نہیں ہوئی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو نوٹس ضرور بھیجا جائے گا اور یہ کہ جو نوٹس سامنے آیا ہے اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے اور اس بارے میں جب فیصلہ ہوگا تو مولانا فضل الرحمان کو طلب بھی کیا جا سکتا ہے۔

ادھر جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی موسیٰ خان کو چند روز پہلے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انھیں آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق انکوائری کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ اس وقت وہ چھ روزہ ریمانڈ پر ہیں۔ موسیٰ خان سابق ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر رہے ہیں اور ان کے ایک بیٹے محمد طارق مولانا فضل الرحمان کے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں۔

موسیٰ خان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ روز قبل وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور کے لیے روانہ ہوئے تھے اور وہ نیب کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات دینے جا رہے تھے کہ راستے میں ہی انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

جماعت کے پشاور کے رہنما حاجی جلیل جان نے اسے نیب کی جانب سے ’انتقامی کارروائیاں‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موسیٰ خان نیب کے ساتھ تعاون کر رہے تھے اور اس موقع پر گرفتاری کا کوئی جواز نہیں تھا۔

ان کی گرفتاری کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں اور جماعت کے رہنماؤں کے مطابق لگ بھاگ 300 کارکنوں اور قائدین کے خلاف مقامی پولیس تھانوں میں مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے پشاور میں رہنماؤں نے اخباری کانفرنس میں کہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجا گیا تو جماعت گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کور کمانڈر ہاؤس کے سامنے دھرنا دے گی۔

اخباری کانفرنس میں جماعت کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا عطاءالحق درویش نے کہا ہے کہ اگر نیب کی جانب سے یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ 30 ستمبر کے بعد احتجاجی مظاہرے کر سکتے ہیں۔ جماعت نے کل یعنی بدھ کے روز شوریٰ کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے جس میں نیب کے نوٹس اور دیگر صورتحال پر بات چیت ہوگی۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

سینیئر تجزیہ کار اور انگریزی اخبار ڈان کے پشاور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ سال آزادی مارچ شروع کیا تھا اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے، تو اس وقت سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن اب نیب کے نوٹس کے بعد ان کے لہجے میں سختی نظر آ رہی ہے اور اب انھوں نے کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو للکارا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ بیانات میں انھوں نے چیلنج کیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو احساس ہوا ہے کہ انھیں بھی شائد گرفتار کیا جا رہا ہے اور انھیں بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے تو ایسے میں مولانا فضل الرحمان اپنا سخت رد عمل دے رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔

موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور روزنامہ نوائے وقت کے بیوروچیف ایم ریاض نے بی بی سی کو بتایا کہ مولانا فصل الرحمان موجوہ حکومت اور 2013 میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ 2013 میں تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں حکومت بنائے اور اب 2018 میں بھی مولانا فضل الرحمان کا موقف تھا کہ تمام منتخب اراکین حلف نہ لیں اور استعفے پیش کر دیں۔

ایم ریاض نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا موقف کبھی نرم نہیں رہا لیکن اب ان کے بھائی ضیاءالرحمان کے خلاف کارروائی اور نیب کے نوٹس کی خبروں کے بعد مولانا فضل الرحمان کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا ہے۔

ان سے جب پوچھا کہ مولانا فضل الرحمان موجودہ صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اب موجودہ حالات میں جب حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے تو اگر دیگر بڑی سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل جائیں تو ایسی صورت حال میں بھرپور تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔

سیاسی کارکنوں کا رد عمل

بظاہر تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی بنیاد پر ہی کوئی تحریک شروع کر سکتی ہیں اور ہر جماعت کے کارکنوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔

اسماعیل خان کے بقول جمعیت علماء اسلام کے کارکن نظریاتی طور پر جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ جے یو آئی کے کارکنوں اور دیگر جماعتوں میں واضح فرق ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ان کارکنوں کی بنیاد پر حکومت کو چیلنج کرتے ہیں اور اگر نیب نے نوٹس بھجوایا ہے اور یا مولانا کو طلب کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں مولانا فضل الرحمان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

اسماعیل خان نے کہا کہ کسی بھی سیاسی صورتحال میں جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کا رد عمل مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے بڑی حد تک مختلف ہوگا۔

ایم ریاض کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز کی پیشی کے موقع پر کم لوگ آئے لیکن انھوں نے حکومت کے لیے مشکل صورتحال پیدا کر دی تھی اور اگر مولانا فضل الرحمان نیب میں پیش ہوتے ہیں یا حکومت کے خلاف کوئی تحریک شروع کرتے ہیں تو اس کا رد عمل کہیں زیادہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp