انور جلال شمزا کے بنائے گئے فن پارے خاندان کو واپس کیے جانے پر سوال کیوں اٹھ رہے ہیں؟


پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس نے گذشتہ روز ایک وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے معروف آرٹسٹ انور جلال شمزا کے فن پارے ان کے خاندان کو واپس کرنا ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا متفقہ فیصلہ تھا۔

پی این سی اے کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’بورڈ پی این سی اے کو پیشہ ورانہ اور اس کے حقیقی تشخص میں بحال کرنے کے لیے پُرعزم ہے، اس ضمن میں کسی بھی دباؤ کو قبول کیا جائے گا اور نہ ہی کسی رکاوٹ کو برداشت کیا جائے گا۔‘

پی این سی اے کے بورڈ آف گورنرز کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر پی این سی اے سے وابستہ سابق اعلٰی عہدیداران اور آرٹ کی مختلف شاخوں سے وابستہ افراد کی جانب سے ان فن پاروں کے واپسی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یاد رہے شمزا کی وفات کے بعد ان کے بنائے گئے فن پاروں کو پاکستان سے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ میں مقیم اُن کے اہلخانہ کو طویل قانونی اور سفارتی جنگ لڑنا پڑی تھی۔

پاکستان میں تجریدی آرٹ کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل انور جلال شمزا 1958 میں برطانیہ منتقل ہو چکے تھے۔ سن 1985 میں وہ ’روٹس‘ کے نام سے پاکستان میں اپنی نمائش کی تیاریاں کر رہے تھے کہ برطانیہ میں حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ان کا انتقال ہو گیا۔

جس کے بعد ان کی اہلیہ ’میری شمزا‘ کے مطابق پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس نے انھیں انور جلال شمزا کے فن پاروں کی نمائش پر آمادہ کیا۔ پاکستان کے شہروں لاہور، کراچی اور پشاور میں ان فن پاروں کی نمائش ہوئی، جس کے بعد وہ فن پارے کبھی انھیں واپس نہ مل سکے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی آرٹسٹ کے فن پارے جو 35 برس بعد حقیقی مالکان تک پہنچے

نیدر لینڈز میں قیمتی پینٹنگ تیسری مرتبہ چوری

بینکسی کا فن پارہ پھٹ کر بھی بک گیا

انور جلال شمزا اور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق میری شمزا کی جانب سے 1985 سے لے کر حالیہ برسوں تک خطوط اور ای میل کے ذریعے پی این سی اے حکام سے رابطہ کرکے اپنے مرحوم خاوند کے فن پاروں کی واپسی کا تقاضہ کیا جاتا رہا ہے۔

جس کے بعد انھوں نے پاکستان میں انور جلال شمزا کی بھانجی رخسانہ خان کو قانونی طور پر اس معاملے سے نمٹنے کا اختیار دیا تھا۔

’فن پاروں کی واپسی پر اعتراض کیا ہے؟‘

پاکستان کے نامور مصور میاں اعجاز الحسن نے ان فن پاروں کی واپسی کے معاملے پر وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ شفقت محمود اور نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے بورڈ اراکین کو خطوط ارسال کیے ہیں، جس میں انھوں نے اس سارے عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ ’سنہ 1985 میں نیشنل کونسل آف دی آرٹس نے انور جلال شمزا کے فن پاروں کی نمائش میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ میں شمزا کے ان دوستوں میں شامل تھا جنھوں نے لاہور نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں ان کے کام کی نمائش کو ممکن بنایا۔‘

اعجاز الحسن کہتے ہیں کہ ’میری شمزا اس نمائش لیے اپنے مرحوم شوہر کے ایک سو سے زائد فن پارے پاکستان لائیں، اور واپس جاتے ہوئے میری نے مجھے بتایا کہ انھوں نے انور جلال شمزا کے دس فن پارے نیشنل کونسل آف دی آرٹس کو دے دیے ہیں، کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے خاوند کا کام ان کےملک میں زندہ رہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘آج جتنے بھی لوگ اس معاملے میں آگے آگے ہیں یہ شمزا کو جانتے تک نہیں، اور بھی بہت سے ایسے لوگ بھی ان فن پاروں کی واپسی کے لیے فعال رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ ان افراد نے میری شمزا کو، جنھیں اس عمر میں پیسے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ لالچ رکھنے والی خاتون ہیں، فن پاروں کی واپسی کے تقاضے پر آمادہ کیا ہے۔ کیونکہ انور جلال شمزا کے جن فن پاروں کی قیمت 30 سال پہلے ہزاروں روپوں میں تھی آج وہ کروڑوں مالیت کے ہیں۔‘

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور ملک کے نامور فنکار جمال شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انور جلال شمزا کے فن پاروں کے واپسی کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ جیسا کہ پی این سی اے کے نئے بورڈ آف گورنرز کی پہلی میٹنگ میں اس کا ایجنڈے پر ہونا اور فوراً ہی واپسی کا فیصلہ کیا جانا۔‘

جمال شاہ کہتے ہیں کہ ‘اس سارے معاملے میں ادارے کے سابق سربراہان پر غفلت برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جلد بازی کا راستہ اختیار کیا گیا جس میں میری شمزا کے اپنے خاوند کے فن پاروں کی واپسی کے تقاضے کی جانچ بھی نہیں کی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں فن وثقافت سے وابستہ افراد حکومت سے ان فن پاروں کی واپسی کے عمل میں سامنے آنے والے تمام دستاویزات کا فرازک کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سارے عمل سے ثقافت کے قومی ادارے کی نہ صرف ساکھ بلکہ اس کی ذاتی کولیکشن کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔‘

’بڑی بات تو یہ ہے کہ ادارے میں میری موجودگی کے دوران کبھی مجھ سے ان فن پاروں کی واپسی کا تقاضا نہیں کیا گیا، اگر ایسا ہوتا تو یقیناً میں اس مسئلے کا حل ہر صورت ممکن بناتا۔‘

سابق ڈی جی پی این سی اے جمال شاہ کا کہنا ہے کہ ’انور جلال شمزا کے فن پاروں کے حوالے سے 2017 میں مجھے عاصمہ جہانگیر لا فرم کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا تھا۔ جس میں انھوں نے میری شمزا کو ان کے خاوند کے فن پارے واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔‘

’میں نے اس وقت کے بورڈ آف گورنرز کے سامنے یہ مدعا رکھا تھا اور انھی دنوں میں پی این سی اے کے چند فن پاروں کی چوری کے ایک کیس کی ایف آئی اے تحقیقات کر رہی تھی، لہٰذا بورڈ نے قانونی نوٹس کے جواب میں مزید وقت حاصل کرنے کی تجویز دی تھی، جس کا شاید یہی جواب بھی دیا گیا تھا۔‘

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں 2004 سے 2009 تک ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والے نامور فنکار محمد نعیم طاہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے چارج سنبھالا یو پی این سی اے کی کولیکشن کا کوئی ریکارڈ دستاویز کی صورت موجود نہیں تھا۔‘

’میں نے ادارے میں اُس وقت ویژوئل آرٹس کے شعبے کی ڈائریکٹر مسرت ناھید امام کو پی این سی اے کی ذاتی کولیکشن کی فہرست تیار کرنے کا کہا، جس بعد میں ’پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ذاتی کولیکشن‘ کے طور پر شائع بھی کیا گیا۔ اس کولیکشن میں انورجلال شمزا کے وہ دس فن پارے بھی شامل تھے جن کے حوالے سے آج کل بات کی جا رہی ہے۔‘

نعیم طاہر کہتے ہیں کہ ’انور جلال شمزا کا شمار میرے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا، تاہم ادارے کے سربراہ رہنے کے دوران فن پاروں کی واپسی کے بارے میں کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا گیا، اور نہ ہی میں نے اس معاملے کا کبھی تذکرہ سنا۔‘

پی این سی اے کے فراہم کردہ 2015 کے ایک دستاویزکے مطابق اس وقت کی ڈائریکٹر ویژوئل آرٹس مسرت ناہید امام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’انوار جلال شمزا کے دس فن پارے پی این سی اے نے عارضی طور پر ان کی اہلیہ سے حاصل کیے تھے جس کا میری شمزا نے تقاضا بھی نہیں کیا تھا۔‘

’تاہم ’ذاتی کولیکشن‘ کے شمارے میں ان فن پاروں کا شائع ہونا، پی این سی اے پر ان کی ملکیتی کا اظہار ہے اور یہی ان کی واپسی میں رکاوٹ ہے، لہٰذا اس مسئلے کا حل اعلٰی سطح پر مشاورت کے بعد نکالا جانا چاہیے۔‘

نعیم طاہر کا کہنا ہے کہ یہی وہی ڈائریکٹر ویژوئل آرٹس ہیں جنھوں نے ان کے دور میں پی این سی اے کی ذاتی کولیکشن کی فہرست انھیں فراہم کی تھی۔‘

بورڈ آف گورنرز کا کیا کہنا ہے؟

بورڈ کو گذشتہ روز جاری کی گئی پریس ریلیز کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور معروف فنکار نعیم پاشا کہتے ہیں کہ ’یہ وضاحت اس لیے جاری کی گئی کہ سب جان لیں کہ نیا تشکیل شدہ بورڈ ادارے کے کسی ذمہ دار سے متعلق شخصی مسائل کو اس کی حقیقی کام کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھے گا۔‘

’ انور جلال شمزا کے فن پاروں پر بورڈ کی پہلی میٹنگ جو کہ زوم کے ذریعے ہوئی، تمام اراکین نے ایک ایک کر کے اس پر اپنی رائے دی، اور تمام کا ایک ہی مؤقف تھا کہ ان فن پاروں کی واپسی کو جلد یقینی بنایا جائے۔‘

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے بورڈ آف گورنرز میں ادب اور فن و ثقافت کے شعبے سے وابستہ شاہد محمود نعیم، نعیم پاشا، اسما خان، منصور راہی، پروین ملک، امجد اسلام امجد، دیپک پروانی، ثمینہ پیرزادہ، فرحان بوگرہ، عبداللہ بلوچ، زید بشیر، ٹینا ثانی، تقی اخونزادہ، غزالہ رحمان، راشد رانا، اکرم دوست، احمد شاہ، منیزہ ہاشمی جیسے بڑے نام اور متعلقہ وزارت کے آٹھ افسران بھی شامل ہیں، جس کے سربراہ وفاقی وزیرِ ثقافت و قومی ورثہ شفقت محمود ہیں۔

احمد شاہ کہتے ہیں کہ ’بورڈ نے پی این سی اے میں موجود تمام دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے، یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ قانونی نکات پر بھی ماہرین کی رائے لینا ضروری ہے، جو کہ بعد ازاں لی گئی۔ ہمیں اس سارے عمل میں کوئی ایک دستاویز بھی ایسا نہیں ملا جو انور جلال شمزا کے فن پاروں پر ان کی اہلیہ میری شمزا کے حق پر سوال پیدا کرتا یا ان فن پاروں پر پی این سی اے کے حق ملیکیت کا اشارہ دیتا۔‘

پاکستان ٹیلی ویژن انڈسٹری کا ایک معروف نام منیزہ ہاشمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے تخلیق کاروں کی بڑی تعداد انور جلال شمزا کے فن پاروں کے معاملے سے آگاہ تھی، اور سب جانتے ہیں کہ حق حقدار پہنچنے میں 35 سال کا عرصہ صرف فیصلہ سازی کی قوت کم ہونے کی وجہ سے لگا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بورڈ کے 80 فیصد ارکان اس کیس سے آگاہ تھے، اورسب نے اسے ملک اور قوم کی بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے واپس کرنے کے حق میں بات کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب وہ فن پارے تین دہائیوں تک ان کے حصول کی جدوجہد کرنے والی میری شمزا تک پہنچ گئے ہیں تو انور جلال شمزا اور ان کے فن پاروں کی واپسی کے نام پر پی این سی اے سابق عہدیداران سوشل میڈیا پر بغض پر مبنی مہم چلا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمیں حقیقت معلوم تھی، ہم نے تمام محرکات اور دستاویزات کا جائزہ لیا، ورنہ اتنے مضبوط بورڈ سے کون متفقہ فیصلہ کرا سکتا ہے؟‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری شمزا 2207 میں بین الاقوامی سطح پر اسی مسئلے کو اٹھانے اور قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار تھیں، تاہم پاکستان میں انور جلال شمزا اور ان کے خاندان سے وابستہ بہت سے افراد نے انھیں اس اقدام سے روکے رکھا، جن میں میرا خاندان بھی شامل ہے۔ اب اگر کسی کے پاس بورڈ کے فیصلے سے ہٹ کر کوئی ثبوت موجود ہے تو بورڈ کو بتائے ہم سب اس پر غور کریں گے اور اس کا جائزہ لیں گے۔ واپسی کے معاملے میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔‘

پاکستان میں فن تعمیر کے ماہر اور نامور فنکار نعیم پاشا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شاید 35 سال تک انور جلال شمزا کے فن پارے ان کے خاندان کو نہ دینے سے اتنا نقصان پی این سی کو نہ پہنچا ہو، جتنا اس صحیح فیصلے کے خلاف چلائی جانے والی مہم سے پہنچایا جا رہا ہے۔ تاہم کئی دہائیاں کسی کی چیز اپنے پاس رکھنا اس کا حق ملکیت فراہم نہیں کر سکتا۔‘

نعیم پاشا کا کہنا تھا کہ انھوں نے گذشتہ 30-35 سال کے دوران متعدد مرتبہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی جانب سے انور جلال شمزا کے فن پارے واپس نہ کرنے کے بارے میں سنا، مگر ان سالوں میں کبھی یہ نہیں سنا کہ میری شمزا کا تقاضا غلط ہے، ہمیشہ حکام کی جانب سے ان سے بہانے کیے گئے اور وقت گزارا گیا۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp