بابری مسجد: 28 برس بعد لکھنؤ کی عدالت مسجد انہدام کیس کا فیصلہ آج سنائے گی


اڈوانی

انڈیا میں لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو بابری مسجد کے انہدام کے لگ بھگ 28 برس بعد آج (بدھ) اس کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

قانون کے مطابق عدالت کی جانب اس کیس کا فیصلہ سنانے کے وقت اِس مقدمے میں نامزد تمام 32 ملزموں کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن کورونا کی وبا کے سبب بیشتر ملزمان، جن کی عمریں زیادہ ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سُن سکیں گے۔

اس مقدمے کے ملزمان میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان شامل ہیں۔

ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔

یہ بھی پڑھیے

بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟

’صرف بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ٹوٹا‘

بابری مسجد گرائے جانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے چہرے کون؟

ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی۔ اسی مقام پر دو مہینے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک پُرشکوہ تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے انہدام کا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ یہ مسجد پانچ سو برس قبل انڈیا کے پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندو کارسیوکوں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کے جائے پیدائش کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایودھیا کی انتظامیہ نے دو مقدمے درج کیے تھے۔

ایک مقدمہ مسجد پر یلغار کرنے والے ہزاروں نامعلوم ہندو رضاکاروں کے خلاف درج ہوا تھا اور دوسرا مقدمہ انہدام کی سازش کے بارے میں تھا۔ اس مقدمے میں ایل کے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور وشو ہندو پریشد کے کئی رہنما اور ایودھیا کے کئی مہنت ملزم بنائے گئے۔

ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ تین عشروں سے جاری اس کیس کی سماعت کے دوران 16 ملزمان انتقال بھی کر چکے ہیں۔

بابری مسجد کے انہدام کے یہ دونوں مقدمے پہلے رائے بریلی اور لکھنؤ کی دو عدالتوں میں چلائے گئے مگر بعد میں انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر یکجا کر دیا گیا اور ان کی سماعت لکھنؤ کی سیشن اور ضلعی عدالت میں مکمل کی گئی۔ تقتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ایسا بھی مرحلہ آیا تھا جب تفتیشی بیورو نے اڈوانی، جوشی اور دوسرے سینیئر رہنماؤں کے خلاف انہدام کی سازش کا مقدمہ واپس لے لیا تھا لیکن بعد میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔

اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف سی بی آئی کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے 500 سالہ تاریخی بابری مسجد کو گرانے کی سازش تیار کی اور ہندو کارسیوکوں کو مسجد کے انہدام کے لیے مشتعل کیا۔ جبکہ اپنے دفاع میں ملزمان کی دلیل ہے کہ انھیں قصوروار ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہدام کے وقت دلی میں برسر برقتدار کانگریس کی حکومت نے سیاسی انتقام کے طور پر انھیں اس مقدمے میں شامل کیا۔

گذشتہ نومبر میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا حتمی فیصلہ اگرچہ ہندو فریق کے حق میں دیا تھا لیکن بابری مسجد کے بارے میں یہ مشاہدہ دیا گیا تھا کہ مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ فعل تھا۔

ماضی میں ہونے والے اس طرح کے ہجوم کی جانب سے کیے جانے والے تشدد اور تخریب کاری کے واقعات میں عموماً کسی کو سزا نہیں مل پاتی تھی۔ آج کے فیصلے میں جو پہلو اہم ہو گا وہ یہ ہے کہ آیا عدالت یہ مانتی ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کی سازش رچی گئی تھی اور یہ کہ کیا اس سازش کے ذمہ دار ایڈوانی اور ان کے ساتھی تھے؟

اس مقدمے کے فیصلے سے انڈیا کی سیاست یا ہندو مسلم رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ گذشتہ نومبر میں مسجد، مندر تنازع کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد ایک مسلم فریق نے تجویز پیش کی تھی کہ مصالحت اور خیر سگالی کے اظہار کے طور پر مسجد کے انہدام کے مقدمے کو واپس لے لیا جائے۔ لیکن چونکہ مقدمہ تب تک اپنی تکمیل کو پہنچ چکا تھا اس لیے اس تجویز کو زیادہ اہمیت نہ مل سکی۔

چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں لاکھوں ہندو کارسیوک پورے ملک سے جمع ہوئے تھے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعیمر کرنے کے لیے رائے ‏عامہ ہموار کرنے کے کی غرض سے بی جے پی کے سینیئر رہنما ایل کے اڈوانی نے اپنی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے اشتراک سے ایک ملک گیر رتھ یاترا شروع کی تھی۔

اڈوانی نے بابری مسجد کو ’قومی کلنک‘ قرار دیا تھا۔ اس وقت دلی میں کانگریس کی حکومت تھی نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کو ایک بیان حلفی میں یقین دہانی کرائی تھی کہ لاکھوں کارسیوکوں کی موجودگی کے باوجود بابری مسجد پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

مرکزی حکومت نے انہدام کے خدشے کے پیش نظر چھ دسمبر سے کئی روز قبل ہی ایودھیا اور اس سے متصل شہر فیض آباد میں نیم فوجی دستے تعینات کر دیے تھے۔

بابری مسجد ایک اونچے ٹیلے پر بنی ہوئی تھی۔ اس کے گرد خاردار تاروں اور ٹین کا حصار بنا ہوا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار اس کی حفاظت پر مامور تھے۔ ایودھیا میں کارسیوک کئی روز سے جمع ہو رہے تھے۔ ان کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔

چھ دسمبر کو سینکڑوں کارسیوک بیلچوں اور ہتھوڑوں کے ساتھ مسجد کی طرف بڑھے جس کے باعث پولیس اور نیم فوجی دستے پیچھے ہٹتے گئے۔ دوپہر تک بابری مسجد کے تینوں گنبد مسمار کیے جا چکے تھے۔ اس واقعے کے بعد ملک کی کئی ریاستوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں سرکاری اعداد شمار کے مطابق کم از کم دو ہزار افراد مارے گئے۔

ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں رام جنم بھومی کی تحریک نے انڈیا میں منتشر اور اور بکھری ہوئی ہندو قوم کو پہلی بار اجتماعی قوم پرستی کا شعور بخشا۔ 80 فیصد سے زیادہ ہندو آبادی والی اس جمہوریت میں قوم پرستی اور انڈیا کی تہدیبی وراثت کو مختلف مذاہب کی ملی جلی وراثت سے تعبیر نہ کر کے اسے ہندو ریاست سے منسلک کیا گیا۔ ہندو احیا کی اس تحریک کی بدولت بی جے پی کی مقبولیت بڑھتی گئی اور وہ چھ برس کے اندر وہ مرکز میں اقتدار میں آ گئی۔

انڈیا کی سیکولر جمہوریت رفتہ رفتہ ہندو مائل جمہوریت میں بدلنے لگی۔ ایڈوانی جب نائب وزیراعظم تھے، اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ مودی کے سیاسی گرو تصور کیے جاتے تھے۔ گجرات کے فسادات کے سلسلے میں جب مودی کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی نکتہ چینیوں کا سامنا تھا اس وقت ایڈوانی نے ہی مودی کا دفاع کیا تھا اور وہ ہر مرحلے پر مودی کے ساتھ کھڑے تھے۔

لیکن غالباً پاکستان کے بانی محمد علی جناح کو سیکولر ماننے کے سبب اڈوانی سے مودی کے گہرے اختلافات پیدا ہو گئے۔ وزیر اعظم مودی نے آزاد انڈیا کے غالباً سب سے فعال سیاست داں کو مکمل طور پر علیحدگی اور گمنامی میں دھکیل دیا ہے۔

ہندو قوم پرستی کو اجتماعی شعور تک پہنچانے والے اڈوانی اور ان کے ساتھی مرلی منوہر جوشی آج سیاسی تنہائی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جس ہندو قوم پرستی کی انھوں نے بنیاد رکھی آج اسی کی بنیاد پر نریندر مودی اپنی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔

اڈوانی نے ہندوؤں کے غلبے والے جس ہندوستان کا تصور کیا تھا وہ خواب مکمل تکمیل کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی ہندوستان میں لکھنؤ کی سیشن عدالت ‏اگر انھیں ایک مسجد کے انہدام کی سزا دیتی ہے تو یہ ان کے ساتھ تاریخ کی ستم ظریفی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp