زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا


آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد نے قومی سیاست کے ماحول کو گرما دیا ہے۔ اس پر نواز شریف کی تقریر نے دو آتشہ کا کام انجام دیا ہے۔ سیاست کی یہ صورتحال یقیناً ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ستر کی دہائی کے بعد غالباً آج سیاست پھر ایک بنیادی نکتہ پر مرتکز ہے۔ ستر کی دہائی میں ایک جانب اختیارات اور وسائل پر قابض جاگیرداروں اور سرمایہ داروں تھے اور دوسری جانب استحصال زدہ طبقات۔ مگر آج سیاست کا بنیادی نکتہ حقیقی سیاسی اور جمہوری اقدار کے تعین کا ہے۔

حزب اختلاف کا اصرار ہے کہ اقتدار منتخب نمائندوں کے پاس بلا شرکت غیرے ہونا چاہیے، مگر حکومت اور اس کے اتحادیوں کا فرمانا ہے کہ حزب اختلاف اپنی بدعنوانیوں کو بچانے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت اور اداروں کے خلاف ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے خاتمے کے بعد حکومت نے ترجمانوں کے نام پر جو بھان متی کا کنبہ اکٹھا کر رکھا ہے، اس کی چیخ و پکار دیدنی تھی، مگر سب سے بڑھ کر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید جن پر آتشؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ :

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

اے پی سی اور مریم نواز کی پریس کانفرنس میں نیب اور دیگر ریاستی اداروں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ادارے اپنے ترجمان کے ذریعے تردید کرتے مگر شاید شیخ رشید نے خود کو اس کام کے لئے مناسب جانا اور جناب شیخ نے حزب اختلاف اور خاص کر شریف خاندان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اور تو اور اپنی گفتگو میں پرویز مشرف کو بھی نہیں بخشا جنھیں ان کے دور اقتدار میں وہ سید پرویز مشرف کہا کرتے تھے۔ ڈان لیکس کا مقدمہ کیا تھا؟ یہی نا کہ حساس معلومات عام کیسے ہوئیں؟ لیکن جس طرح شیخ رشید خفیہ ملاقاتوں کا احوال اور تفصیلات بیان کر رہے ہیں اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ عام تاثر تو یہی ہے کہ وہ کسی کے اشارے میں یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ لیکن شیخ رشید کی گفتگو کے بعد وہ بھی غالبؔ کی زبان میں یہ کہہ رہے ہوں گے جن کے کہنے پر اگر! شیخ رشید یہ سب کچھ کر رہے ہیں :

کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر
اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے

سیاست کی تاریخ اختلافات سے عبارت ہے، اور اختلافات کے مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر سماج کو آگے کی جانب لے کر چلنا ہی سیاست کا بنیادی مقصد ہے۔ لیکن گزشتہ تین چار سالوں میں سیاست نے ایک نئی شکل اختیار کی ہے۔ عوام میں کم یا زیادہ حقیقی اثر رکھنے والے سیاست دانوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی مخالفین اور ناقدین کو جس طرح دیوار کے ساتھ لگائے جانے کا جو سلسلہ چل رہا ہے خاکم بدہن یہ اسی طرح کے نتائج پیدا کرنے کی کوشش ہے جو سانحہ ء مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں ہمیں دیکھنے کو ملا ہے۔

افسوس تو اس کا ہے کہ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے فراموش کیا جا رہا ہے کہ سیاسی قوتوں کو جب بھی غیر سیاسی طریقے سے ختم کیا جاتا ہے تو ملک سیاسی بحران اور انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ معروف دانشور محترم خورشید احمد ندیم نے موجودہ حالات میں تجویز دی ہے کہ موجودہ سیاسی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں فطری حل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ وہ فطری حل کیا ہے؟ وہ فطری حل آئین پاکستان کی صورت میں موجود ہے جو پاکستان کے ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا کردار طے کرتا ہے۔ ریاست کے ہر ستون کو آئین پاکستان کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انسانی سماج نے مختلف مراحل طے کرنے اور تجربات کے بعد جمہوریت کو دریافت کیا اور ثابت کیا کہ انسانی فلاح اور ترقی جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ایک طرف ملک میں جہاں بانی اور سیاست کی سمت طے کرنے کا مرحلہ درپیش ہے اور اسی ہنگامے میں ”فلاحی ریاست“ کی دعوے دار حکومت نے 94 ادویات کی قیمتوں میں 9 تا 262 فیصد اضافے کی منظوری دے دے دی ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ دواؤں کی لاگت کی رقم زیادہ اور فروخت کی کم ہونے کی وجہ سے دوا ساز کمپنیاں ان دواؤں کو تیار نہیں کر رہی تھیں، لہذا مارکیٹ میں ان ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ جواز پیش کرتے ہوئے حکومت کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ یہ اعتراف کر رہی ہے کہ یہ فیصلہ دوا ساز کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

اسی طرح یوٹیلٹی اسٹور جہاں سے کم آمدنی اور متوسط طبقہ ضروریات زندگی کی خریداری پر کچھ بچت کر لیا کرتا تھا، وہاں پر بھی گھی، چینی، اجناس اور مصالحہ جات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ ملازمین کی پینشن اور دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں سالانہ اضافہ بھی ختم کرنے کی بھی ”تجویز“ زیر غور ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت جس طرح سے سیاسی، انتظامی اور اقتصادی شعبوں میں ناکام ہوئی ہے، کیا اب بھی کوئی جواز باقی ہے کہ اسے اقتدار میں مزید رہنا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).