غاصب اسرائیل سے امن معاہدے کی کوشش میں مصروف مسلم ممالک


خلافت عثمانیہ کا خاتمہ مسلمانان عالم کے لیے ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد، جہاں مسلمان ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کی طاقت منتشر ہو گئی، وہیں دوسری طرف بہت ہی سوچی سمجھی سازش کے تحت اسرائیل کے نام سے ایک صہیونی ریاست کے قیام کا منصوبہ تیار کیا گیا اور بالآخر سن 1948 ء میں، فلسطین کی زمین پر یہ صہیونی ریاست قائم کی گئی۔ تاریخ اس بات کو محفوظ رکھے گی کہ آج دنیا جس نا جائز وجود کو ریاست اسرائیل کے نام سے یاد کرتی ہے، وہ در حقیقت فلسطین کا حصہ ہے جو فلسطینیوں کی آبائی زمین پر ، زور زبردستی سے قائم کی گئی۔ ایک صہیونی غاصب و قابض ریاست ہے۔

فلسطینیوں کی زمین پر اس ریاست کے قیام کا واضح مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے دشمن کو پوری دنیا سے اٹھا کر ، قلب عرب میں جمع کیا جائے۔ اس کی مادی و عسکری مدد کی جائے اور پھر اس کے ذریعے پورے عرب خطے کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ منصوبہ بنانے والے اپنے منصوبے میں کام یاب ہو گئے، مگر بد قسمتی سے عرب ممالک اس منصوبے کو سمجھنے میں نا کام رہے۔

اس غاصب صہیونی ریاست کے قیام کے فوراً بعد، اس کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کر لیا اور مادی و عسکری تعاون فراہم کرنا شروع کر دیا۔ آج یہ غاصب ریاست ایک ایٹمی طاقت بن چکی ہے۔ اس وقت بہت سے ممالک نے امریکہ کی راہ پر چلنے سے انکار کیا اور اسرائیل کے یک طرفہ قیام کو منظور نہیں کیا۔ انھوں نے اس وقت دو ریاستی حل، یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کے قیام کی بھی بات کی۔ پھر یہ آج کا دن ہے کہ یہ حل صرف زبان سے ادا کرنے کے لیے باقی رہ گیا، ورنہ اس حل کو زمین پر وجود بخشنے کی کوشش نہیں کی گئی اور اقوام عالم نے کھل کر ، سنجیدگی سے اس موضوع پر کبھی بات بھی نہیں کی۔ پھر بعد میں، یورپی ممالک نے بھی اسرائیل کو منظور کرنا شروع کر دیا۔

یورپی ممالک جو پوری دنیا اور خاص طور پر عرب و اسلامی ممالک کو ہر صبح و شام، ”حقوق انسانی“ پر لکچر دیتے رہتے ہیں، انھوں نے اسرائیل کو منظور تو کر لیا، مگر وہ اسے یہ لکچر دینا بھول گئے کہ فلسطینی بھی انسان ہیں اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی بھی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جن فلسطینیوں کی آبائی زمین پر ، اقوام متحدہ نے اسرائیل کو قائم کیا، ان فلسطینیوں کو اس غاصب ریاست کی فوجیں، جب اور جہاں موقع ملتا ہے، اپنی گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔ جب جس فوجی ٹکڑی کے جی میں آئے، وہ فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر ، چھاپا ماری شروع کر دیتی ہیں۔

غاصب صہیونی ریاست فلسطینیوں کی نقل و حمل پر روک لگانے کے لیے بچے کھچے فلسطین میں جگہ جگہ پر پولیس چوکیاں قائم کر رکھی ہے۔ ان پولیس چوکیوں کے قیام کا مقصد فلسطینیوں کے دلوں میں ڈر اور خوف بٹھانا ہے، تاکہ وہ اپنی خود مختاری کی بات نہ کر سکیں۔ ان صہیونی فوجوں کو ریاست کی طرف سے اتنی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جب چاہے، کسی بھی فلسطینی کے گھر میں گھس کر ، توڑ پھوڑ شروع کر دیتی ہیں۔ وہ فلسطینیوں کا اغوا کر کے جیلوں میں سالوں سال کے لیے ڈال دیتی ہیں۔ آج اسرائیل کی جیلوں میں نہ صرف فلسطینی مرد، بل کہ ان گنت خواتین اور نابالغ بچے بھی کسی جرم کے بغیر، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

جب سے فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قیام کا منصوبہ بنا، اسی وقت سے فلسطینیوں کے ساتھ نا انصافیاں شروع ہو گئی تھیں، جو آج تک جاری ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرار داد کے تحت جس صہیونی ریاست کو قائم کیا، آج کی تاریخ میں وہی غاصب ریاست اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی میں پیش پیش ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اس صہیونی ریاست کی دہشت گردی تا ہنوز جاری ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔

فلسطینیوں کے املاک کو مسمار کرنا اور ان کی آباد کھیتیوں کے تہس نہس کرنا، ان کا روز کا معمول ہے۔ قابض فوجیں دشمنی میں اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ مذہبی مقامات کے احترام کا بھی خیال نہیں کرتیں، بل کہ جب چاہے ان پر حملے کر دیتی ہیں۔ بہت سی مسجدوں کو نائٹ کلب اور شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین کی پروا کیے بغیر، فلسطینیوں کے گھروں کو توڑ کر ، ان مکینوں کو بے گھر کر دیتے ہیں۔ روز بروز صہیونی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

بہرحال، رفتہ رفتہ دنیا کے دوسرے متعدد ممالک نے بھی اس صہیونی غاصب ریاست کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ پھر مسلم ممالک میں سے سب سے پہلے اس وقت کی ترکی حکومت، جس کی باگ ڈور مصطفی عصمت انونو ( 1884۔ 1973 ) کے ہاتھوں میں تھی، نے بھی مارچ 1949 ء میں، اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ مگر اس وقت تک دوسرے عرب اور مسلم ممالک نے اسرائیل کے وجود نا مسعود کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسلامی تعاون تنظیم کے 1977 ء میں، منعقدہ اجلاس میں، عرب و مسلم ممالک نے ترکی کو اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بات کی، مگر اس وقت کی ترکی حکومت نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

پھر ایک وقت آیا کہ فلسطین کے عرب پڑوسی برادر ملک مصر نے سن 1979 ء میں، اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور 26 جنوری 1980 کو باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کر کے، قابض اسرائیل سے تعلق قائم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ پھر 1994 ء میں، مملکت اردن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر کے، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا دوسرا عرب ملک بن گیا۔

ابھی کچھ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ فلسطین و اقصی کو فراموش کر کے، اسرائیل سے کچھ مسلم ممالک اپنے خفیہ تعلقات کو امن معاہدے کے زیر عنوان باضابطہ سفارتی تعلقات میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اپنی مملکت و سلطنت کی حفاظت و ضمانت اور مال و زر کی لالچ میں، بہت سے عرب اور مسلم ممالک اسرائیل سے امن معاہدے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے بے تاب نظر آ رہے ہیں۔ اب ان عرب اور مسلم ممالک میں کچھ نے کھل کر ، اسرائیل کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

حال ہی میں دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں میں، خلیجی ممالک میں سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ہے، جس نے 13 اگست 2020 ء کو امن سمجھوتے کا اعلان کیا ہے۔ یو اے ای کا یہ کتنا مضحکہ خیز دعوی ہے کہ اس کے اور اسرائیل کے درمیان اس سمجھوتے کے نتیجے میں، اسرائیل مغربی کنارے کے حصوں کے الحاق کو مؤخر کر دے گا اور فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ نہیں کرے گا۔ جب کہ دوسری طرف غاصب ریاست کا وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ منصوبہ اب بھی موجود ہے۔ اب یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ متحدہ عرب امارات کی فلسطین و اقصی کے حوالے سے اس کوشش کو کیا عنوان دیا جائے!

جب یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی بات مختلف ذرائع ابلاغ سے دنیا کے سامنے آئی، تو خلیج تعاون ممالک (جی سی سی) میں سے مملکت بحرین اور سلطنت عمان نے یو اے ای کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔ اس وقت کسے معلوم تھا جو بحرین آج متحدہ عرب امارات کے اس حرکت کی تائید اور خیر مقدم کر رہا ہے، وہ درحقیقت اس تائید کے در پردہ، اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے کی تمہید قائم کر رہا ہے۔ پھر چند ہی دنوں میں، مملکت بحرین نے بھی یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے، اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے نام پر اپنے تعلقات کا اعلان 11 ستمبر 2020 ء کو کر دیا۔

امن کے نام پر ہونے والے ان معاہدوں میں ثالثی کا کردار، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ادا کر رہے ہیں۔ امریکی صدر خود ایک ایسا صہیونی ذہن آدمی ہیں کہ ان کی نگاہوں میں، فلسطین اور مسجد اقصی کے قضیے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کا واضح ثبوت ابھی حال میں ان کی طرف سے پیش کیا جانے والی صدی کی ڈیل ہے۔ دوسری طرف آئندہ سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکی سیاست میں صہیونی یہودی لابی کا اثر و رسوخ ہمیشہ رہا ہے۔

کسی بھی صورت میں ٹرمپ کی یہ تمنا ہو گی کہ وہ اس آنے ولے انتخابات میں ایک بار پھر منتخب ہو سکیں۔ اس کے لیے وہ کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ نام نہاد امن معاہدے اور سمجھوتے بھی انتخابات جیتنے کی جانب ایک بڑا قدم ہے، لہذا یہ عین ممکن ہے کہ ابھی کچھ اور مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ، امریکہ کی ثالثی میں امن معاہدے کر سکتے ہیں۔

ابھی دو روز قبل کی بات ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے واضح لفظوں میں کہا کہ ایک اور عرب ملک ایک یا دو دن میں ایک معاہدے پر دستخط کرے گا اور تمام ممالک اس کی پیروی کریں گے۔ کرافٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکیوں کو امید ہے کہ سعودی عرب اسرائیلی وجود کے ساتھ معمول کے معاہدے پر دستخط کرے گا۔ ٹرمپ کا داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر نے بھی یہ بات کہی ہے کہ یہ سعودی عرب کے مفاد میں ہو گا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، جیسا کہ متحدہ عرب امارات نے کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سمجھوتہ اور معاہدہ کرنے والے ممالک میں اب اگلا نمبر ”سلطنت عمان“ ، ”مراکش“ اور ”سوڈان“ کا ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد اور وائٹ ہاؤس میں مشیر کار جیرڈ کشنر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اچھا دوست ہے، نے بارہا یہ کوشش کی ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے، مگر خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے برلن کے دورے کے موقع پر ، صحافیوں سے بات چیت کرتے کہا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتا، جب تک یہودی ریاست، بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کر دیں۔

ایسے وقت میں جب کہ متعدد مسلم و عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے حق میں ہیں اور اس کا کچھ عملی نمونہ سامنے بھی آ گیا ہے، ایسے وقت میں سعودی کی طرف سے، ایک بڑے ذمے دار شخص کا یہ باضابطہ بیان، فلسطینیوں کے حق میں ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آج فلسطین اور مسجد اقصی کا قضیہ نہایت نازک موڑ پر آ چکا ہے۔ سعودی عرب، ترکی، ملیشیا وغیرہ کو چاہیے کہ ہم خیال ممالک کو ساتھ لے کر ، قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے، جتنی جلدی ہو سکے، وہ اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرے، ورنہ یہ مسئلہ ہر دن مزید الجھتا چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).