ہماراتعلیمی نظام ناکارہ ہے


سیرت انسانی کو جانچنے کا کوئی معتبر پیمانہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ علم کے سوا کچھ اور نہیں، علم ہی وہ ابدی روشنی ہے جو انسانی فکر و شعور کو نئے آفاق سے روشناس کروانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ کسی معاشرے کو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ رواں دواں رکھنے کا فریضہ انجام دینا مقصود ہو تو وہ حد درجہ ترتیب شدہ نظام تعلیم ہی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے یا تہذیب کی زندگی یا موت کا اگر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے تو وہ تعلیمی نظام ہے۔

آج اگر ہم یورپ کے نظام تعلیم کو دیکھیں تو وہ یورپ جو کبھی اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا آج وہاں علم کی شمعیں جل رہی ہیں، انسانیت کے اصول مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی یورپ میں رائٹ برادران نے پہلا جہاز اڑایا، گراہم بیل نے ٹیلیفون ایجاد کیا، چارلس با بیج کمپیوٹر کا بانی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب صرف اور صرف یورپ میں ہی کیوں ہوا۔ ایڈیسن، ڈارون، اور نیوٹن وہاں کیو ں پیدا ہوئے؟ نظریہ اضافت وہاں سے کیوں آ رہا ہے، نفسیات کا نظریہ فرائیڈ نے ہی کیوں دیا کیا یہ سب پاکستانی نہیں کر سکتے تھے؟

جی ہاں یہ سب پاکستانی بھی کر سکتے ہیں اگر ہمارا تعلیمی نظام منظم اور مستحکم ہو مگر ہمارا تعلیمی نظام خستہ حالی کا شکار ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے 74 سال کا عرصہ بیت گیا اس دوران بہت ساری پالیسیاں بنائی گئیں مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں مو جود ہے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک آج تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہیں چین اور جاپان نے ہم سے بعد میں آزادی حاصل کی مگر آج وہ ممالک اپنے بہترین تعلیمی نظام کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔

ہم نے اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر انگریزی کو قابلیت اور بہترین تعلیمی معیار کا ذریعہ بنا لیا جس کی وجہ سے آج تک ہم ترقی نہ کر سکے نہ تعلیمی میدان اور نہ ہی کسی اور میدان میں، چین کی مثال ہمارے سامنے ہے چین نے انگریزی کو چھوڑ کر اپنی قومی زبان کو ترقی دی چین میں بچوں کو پڑھایا جانے والا سارا نصاب چینی زبان میں ہے آج چین ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کیا جائے تو پاکستان کا نمبر 125 ہے جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 103 اور بنگلہ دیش 111 نمبر پر ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 60 سے 58 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اور وجہ ہمارا مشکل ترین نظام تعلیم ہے۔

دنیا میں سب سے اچھا تعلیمی نظام فن لینڈ اور سویڈن کا ہے۔ فن لینڈ میں بچہ سات سال کی عمر میں سکول داخل کروایا جاتا ہے اور شروع میں بچے کو کوئی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ مختلف عملی سر گرمیوں کے ذریعے سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی بچوں سے کوئی امتحان لیا جاتا ہے اس کے بر عکس وطن عزیز کے نظام تعلیم کو دیکھا جائے تو صورت حال بہت مختلف اور تکلیف دہ نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں تین سال کا بچہ سکول میں داخل کروایا جاتا ہے اور ساتھ بچے کو بھاری بھر کم کتابوں کا بوجھ تھما دیا جاتا ہے۔

سکولوں میں مار پیٹ سختی کا کلچر بچوں کو ڈھیٹ اور پڑھائی سے دور کر دیتا ہے بچوں پر امتحانات اور مختلف ٹیسٹوں کو بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے نا کارہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب بہت پرانا ہے اسی نصاب کا سال ہا سال پڑھایا جا تا ہے۔ ہماری ہائر ایجوکیشن اور تحقیقی کام بھی ذرہ بھر قابل تعریف اور عالمی معیار کے ہم پلہ نہیں ہے۔ اصل تحقیق کی بجائے ساری توجہ جیسے تیسے کر کے ریسرچ ورک مکمل کرکے ڈگری حاصل کرنے میں ہوتی ہے۔

پرائمری کے بجائے سیکنڈری ڈیٹا پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم چربہ سازی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خالص اپنی محنت کے بجائے دوسروں کے کیے ہوئے کام اور تحقیق کو الفاظ کا ہیر پھیر کر کے اور چربہ جانچنے کے سافٹ ویئر سے کھیل کر اپنا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے تحقیقی کام کا مقصد فقط کسی بھی طرح ممتحن کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہم ترقی کے عمل میں بہت پیچھے ہیں۔ نئی تخلیقات اور ایجادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈگری کے اجراء کے لئے قابلیت، تجربے اور تحقیقی و علمی کام کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پرائمری ڈیٹا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس ہمارے ملک میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بھی مختلف امتحانات دینے پڑتے ہیں۔

ہمارا امتحانی نظام نقل کی گندگی سے آلودہ ہے یہاں امتحان سے پہلے ہی پرچہ آؤٹ ہوجاتا ہے۔ ایک ایک سوال کے حل ہونے کی بولی لگتی ہے، پاس ہونے کے لیے ہزاروں روپے رشوت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں امتحان بندوقوں کے سائے تلے ہوتے ہیں۔ ایسا تعلیمی نظام صرف بیروزگاروں کی ایک بھیڑ پیدا کر سکتا ہے۔ جس ملک کا وزیر تعلیم خود ان پڑھ جاہل ہو وہاں تعلیم کے ذریعے صرف اور صرف جاہلوں کا جتھا ہی تیار کیا جا سکتا ہے، جو چور ڈاکو، لٹیرے تو بن سکتے ہیں لیکن سائنسدان نہیں بن سکتے۔

ہمارا تعلیمی نظام دفتروں کے کلرک، ٹھیلے والے، لوہار، بڑھئی، اور بے روز گار انجنئیر پیدا کر رہا ہے۔ ایسے تعلیمی نظام میں حکیم اور عطائی ڈاکٹر بن کر لوگوں کو بیمار تو کر سکتے ہیں ان کا علاج نہیں کر سکتے۔ ہمارے اس خستہ حال تعلیمی نظام کا جنازہ کرونا وائرس کی وبا نے نکال دیا ہے۔ نظام تعلیم کو نئی تحقیقات، اور نئی اصطلاحات سے روشناس کروائے بغیر روشن مستقبل کا خواب دیکھنا محال ہے۔ اس وقت ہماری حکومتوں کو سب سے زیادہ توجہ نظام تعلیم کی بہتری کی طرف دینی ہو گی کیوں کہ تعلیم ہی کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).