رفال طیاروں سے متعلق ’وعدے پورے نہ ہوئے‘، انڈیا کا دفاعی سامان سے متعلق نئی پالیسی کا اعلان


دفاعی شعبے میں ‘آتم نربھر بھارت’ یعنی خود کفیل انڈیا یا خود انحصار انڈیا کا نعرہ بلند کرنے کے بعد اب حکومت نے دفاعی خریداری کی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔

مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے فیصلے کے ساتھ ہی ‘میک ان انڈیا’ اور ‘خود کفیل انڈیا’ کا خواب بہتر انداز میں پورا ہوگا۔

نئی پالیسی کے تحت بڑے دفاعی سودوں میں ’آفسیٹ معاہدوں‘ کی مجبوری کو بھی عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

انڈیا کی آفسیٹ پالیسی کے تحت دفاعی سامان بنانے والی غیر ملکی کمپنیوں کو انڈیا کی کل خرید کا کم سے کم تیس فیصد انڈیا میں ہی خرچ کرنا ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں دفاعی خریداری کی ایک مقررہ رقم خریدنے والے ملک میں ہی خرچ کرنے کو آفسیٹ کہتے ہیں۔

مرکزی حکومت کا مؤقف ہے کہ دفاعی معاہدے میں آفسیٹ شق کی وجہ سے انڈیا کو دفاعی ساز و سامان خریدنے کے لیے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور اب ان کی قیمت کم ہو جائے گی۔

دفاعی خریداری کے عمل میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اسلحہ اور فوجی ساز و سامان کو لیز پر حاصل کرنے کا آپشن کھل گیا ہے۔

اس تبدیلی کے بعد لڑاکا ہیلی کاپٹر، فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ، بحری جہاز اندرون ملک اور بیرون ملک سے معاہدوں کے تحت حاصل کرنے کی راہیں کھول دی گئی ہیں۔ بڑے دفاعی سودوں میں آفسیٹ معاہدوں کی مجبوری کو بھی عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’رفال بنانے والی کمپنی نے انڈیا سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے‘

کیا انڈیا اسرائیل سے ’آواکس‘ نظام خرید کر چین کے خلاف استعمال کرے گا؟

انڈیا کے لیے دفاعی ساز و سامان کے شعبے میں ’خود انحصاری‘ کا حصول کتنا مشکل

https://twitter.com/rajnathsingh/status/1310513800672505856

نئی پالیسی پر رفال کا اثر

در اصل دفاعی خریداری میں آفسیٹ پالیسی پر اس وقت زیادہ بحث شروع ہوئی جب کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے رفال کی خریداری میں فرانسیسی کمپنی کی جانب سے آفسیٹ معاہدہ کی پابندی نہ کرنے کی بات کہی۔

پارلیمنٹ کے حالیہ مونسون اجلاس کے دوران ہی دفاعی سودوں سے متعلق سی اے جی کی رپورٹ پیش کی گئی تھی۔

سی اے جی کا کہنا ہے کہ فائٹر جیٹ رفال کے بنانے والوں نے انڈیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کے تحت جن آف سیٹ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بات کہی تھی وہ پوری نہیں کی اور نہ ہی اب تک انڈیا کو کوئی اعلیٰ سطحی ٹیکنالوجی پیش کی گئی ہے۔

سی اے جی نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے آفسیٹ شق کے تحت انڈین صنعتوں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ایک بھی عہد پورا نہیں ہوا۔

لہذا دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے نئے عمل میں جب آفسیٹ کے ضابطوں میں تبدیلی کی بات کہی گئی تو اسے سی اے جی کی رپورٹ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔

آفسیٹ پالیسی کیا ہے؟

جب بھی انڈیا دفاع سے متعلق فوجی سازوسامان کسی غیر ملکی کمپنی سے خریدتا ہے تو اس کی خریداری غیرملکی زرمبادلہ میں ہوتی ہے۔

ایسے میں انڈیا کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جتنی کثیر رقم کو ساز و سامان خریدنے میں لگا رہا ہے اس کا کچھ حصہ غیر ملکی کمپنی انڈیا میں خرچ کرے۔ کسی بھی دفاعی سودے میں اس طرح کے معاہدے کو ‘آفسیٹ شق’ کہا جاتا ہے۔

غیرملکی کمپنیاں انڈیا میں چھوٹے پرزے خرید کر یا تحقیق اور ترقیاتی مراکز قائم کر کے یہ وعدہ پورا کر سکتی ہیں۔ اصولی طور پر دفاعی، داخلی سلامتی اور شہری ہوا بازی کے شعبوں میں اسے خرچ کیا جاسکتا ہے۔

انڈیا میں دفاعی خریداری کے معاملے میں یہ بات پہلی بار سنہ 2002 میں سامنے آئی جب ایک معاہدے میں آفسیٹ شق کا ذکر کیا گیا تھا۔

آسان الفاظ میں دفاعی خریداری کی ایک مقررہ رقم خریدنے والے ملک میں ہی خرچ کرنے کو آفسیٹ کہتے ہیں۔

آفسیٹ شق بڑے دفاعی معاہدوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی خریداری 300 کروڑ سے زیادہ کی ہے تو اس کا 30 فیصد یا اس سے زیادہ (طے شدہ) انڈیا میں ہی خرچ ہونا چاہیے۔

آفسیٹ پالیسی میں شامل مشکلات

دفاعی امور کے ماہر راہل بیدی کا کہنا ہے کہ حکومت کی نئی پالیسی میں انھیں امریکی اثرات نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق انڈیا دفاعی ساز و سامان زیادہ تر چار ممالک یعنی امریکہ، فرانس، روس اور اسرائیل سے خریدتا ہے۔

روس ہمیشہ سے ہی دو حکومتوں کے سطح پر دفاعی معاہدے کرتا رہا ہے۔ فرانس میں ایسا نہیں تھا لیکن اب وہ بھی حکومتی سطح پر ہی معاہدہ کرتا ہے اور اسی طرح سے رفال کا معاہدہ ہوا ہے۔ اسرائیل میں نجی کمپنیوں کے ساتھ بھی انڈیا معاہدہ کرتا ہے۔

لیکن امریکہ سے انڈیا ‘غیر ملکی ملٹری سیلز’ (ایف ایم ایس) کے تحت ہی دفاعی سامان خریدا جا سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ انڈیا کو ہیلی کاپٹر خریدنا ہے تو امریکی حکومت ایک ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرے گی اور وہاں کی کمپنی سے ہیلی کاپٹر خریدنے میں انڈیا کی مدد کرے گی۔

راہل بیدی کے مطابق امریکہ کو اکثر انڈیا کی جانب سے خریداری میں ‘آفسیٹ شق’ کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’انڈیا میں غیر ملکی کمپنیوں کے مطابق دفا‏عی ساز و سامان تیار نہیں ہوتے تھے۔ لہذا کمپنیاں انڈیا کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پاتی تھیں۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی کمپنی اپنی ٹیکنالوجی دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا نہیں چاہتی‘۔

بحریہ

غزالہ وہاب فورس میگزین کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور 'فورس' دفاعی امور سے متعلق ایک ماہانہ میگزین ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے غزالہ وہاب نے کہا 'ابتدا میں انڈیا میں زیادہ پرزے تیار نہیں ہوتے تھے کہ بیرونی کمپنیاں اسے خرید سکتیں، اس لیے بعد میں کچھ دوسرے شعبوں کو بھی اس شق میں شامل کیا گیا۔ لیکن پھر بھی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے اس شق کی پابندی ایک مشکل امر تھا‘۔

ان کے مطابق بعد میں پتا چلا کہ آفسیٹ شق میں جتنی رقم انڈیا میں خرچ کرنے کی بات ہوتی غیر ملکی کمپنیاں اپنے ساز و سامان کی قیمت میں اتنا اضافہ کر کے انڈیا کو بتاتیں۔ اس کی وجہ سے انڈیا کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی تھی۔

اس سے قبل انڈیا میں دفاعی خریداری میں مفت ٹیکنالوجی کی منتقلی کو آفسیٹ شق کا حصہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ جس سازو سامان کے ساتھ انڈیا کو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی تھی اس کے لیے علیحدہ معاہدہ ہوتا تھا۔ لہذا، بیرون ملک سے بہت سا اسلحہ خریدنے کے باوجود انڈیا کو کبھی اس کی ٹیکنالوجی نہیں ملی۔

سی اے جی کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

سی اے جی کے مطابق ‘سنہ 2005 سے مارچ 2018 تک غیر ملکی فروخت کرنے والوں کے ساتھ مجموعی طور پر 66،427 کروڑ روپے کے 48 آفسیٹ معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان میں سے دسمبر 2018 تک فروخت کرنے والوں کی جانب سے 19،223 کروڑ روپے کی آفسیٹ واجبات کو خرچ کیا جانا تھا، لیکن ان کی جانب سے دی گئی مجموعی رقم صرف 11،396 کروڑ روپے ہے، جو طے شدہ معاہدے کا صرف 59 فیصد ہے۔

ہیلی کاپٹر

آفسیٹ شق میں تبدیلی

غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ دفاعی خریداری کی نئی پالیسی میں غیر ملکی نجی کمپنیوں کے ساتھ خریداری پر ٹیکنالوجی کی منتقلی کو آفسیٹ شق کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ نیز خریداری کو کئی درجات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمینٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کو ٹیکنالوجی منتقل کی جاتی ہے تو غیر ملکی کمپنی کو زیادہ فائدہ ہوگا، اگر پبلک سیکٹر کو ٹیکنالوجی دی جاتی ہے تو کمپنی کو تھوڑی کم مراعات ملیں گی اور اگر غیر ملکی کمپنیاں انڈیا کی نجی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی دیں گی تو انھیں انتہائی کم مراعات ملیں گی۔

دوسری تبدیلی یہ ہے کہ اگر دو حکومتوں کے درمیان دفاعی ساز و سامان خریدا جاتا ہے تو اس میں آفسیٹ شق نہیں ہوگی۔ یہ دونوں ممالک کے آپس کا مسئلہ ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کئی بار کسی خاص ملک سے ایک ہی چیز خریدنے کا فیصلہ بھی سٹریٹجک ہوتا ہے۔

یہ واضح ہے کہ دو حکومتوں کے مابین خریداری اور کسی دوسرے ملک کی نجی کمپنی سے خریداری کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔

غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ پہلی تبدیلی سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بقول ان کے ‘نہ تو پہلے کی پالیسی درست تھی اور نہ ہی موجودہ پالیسی صحیح ہے۔ مختلف زمرے تشکیل دے کر حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو یہ بتایا ہے کہ وہ کسی خاص کمپنی کی طرفدار ہے۔ بیرون ملک میں دفاعی ساز و سامان بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں نجی ہوتی ہیں جن پر کچھ حد تک حکومت کا کنٹرول اور کسی حد تک حصہ بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ دفاعی ساز و سامان کی خریداری کا معاملہ قومی سلامتی سے منسلک ہوتا ہے۔’

وہ کہتی ہیں ‘دنیا میں انڈیا کا ماڈل بالکل مختلف ہے۔ انڈیا میں دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی سرکاری اور نجی کمپنیاں مختلف انداز میں کام کرتی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں انڈیا کی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے میں بالکل خوش نہیں ہیں۔’

لہذا غزالہ وہاب کا خیال ہے کہ اگر انڈیا کو دفاعی شعبے میں خود کفیل ہونا ہے تو پہلے نجی اور سرکاری کمپنیوں کے زمرے کو ختم کرنا پڑے گا۔ اس سے دونوں میں مسابقت میں اضافہ ہوگا اور سرکاری کمپنیوں میں کارکردگی کا دباؤ نجی کمپنیوں کی طرح بڑھ جائے گا۔

لیکن راہل بیدی کا خیال ہے کہ حکومت کی نئی پالیسی پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ان کے مطابق غیر ضروری بیوروکریسی ختم ہوجائے گی۔ سرکاری کمپنیوں کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ باہر کی کچھ نجی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے تحت کام شروع کریں۔

بہر حال دفاعی خریداری کے ضابطوں میں جو تبدیلیاں کی گئیں ہیں وہ اس وقت صرف کاغذ پر ہیں جب تک کہ اس کے ذریعے کوئی ٹیکنالوجی انڈیا نہیں آجاتی ہے اس کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا ابھی جلد بازی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp