سیاست جغرافیہ: سلطنت میں نازل ہونے والی قدرتی آفات



سیاسی قدرتی آفات: سلطنت سیاست میں قدرتی سیاسی آفات کا آنا معمول کا کام رہا ہے۔ ٹیکسوں کی سر پھوڑ، مہنگائی کی کمر توڑ اور یوٹیلٹی بلز کی گردن توڑ امراض اور وبائیں پورا سال ہی عوام کے سر رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ احتجاج، ہڑتالیں، دھرنے، آئی ایم ایف اور بد اخلاقی کے سیلاب نمایاں آفات ہیں۔ ماضی میں ایک خوفناک آفت ”آٹھویں ترمیم“ کا زور بھی رہا، جس پر اب سیاسی سائنسدانوں نے مکمل قابو پا لیا ہے۔

شہاب ثاقب: پچھلے چند برسوں میں ایک خاص خطے کے مخصوص لوگوں پہ شہاب ثاقب گرنے اور انہیں شدید متاثر کرنے کے واقعات دیکھنے میں آتے رہے۔ یہ ”ثاقب“ نامی شہابیے ریاست میں ڈیموں کی تعمیر اور آبادی کے حوالے سے تارے توڑنے کی باتیں کرتے کرتے ملک ہی سے باہر جا گرے، جن کا سراغ تا حال نہیں لگ پایا ہے۔

نیب: سیاست، حکمرانی اور آخرت کے درمیانی بے عیب عرصے کو ”عالم نیب“ کہتے ہیں، جو صرف سابق حکمرانوں کا برزخ ہوتا ہے۔ یہاں کڑا احتساب ہوتا ہے، ریمانڈ لئے جاتے ہیں اور مقدمات کی نت نئی دریافت عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے حکومت وقت خود کو بچانے اور مخالفوں کو دبانے کا فریضہ انجام دیا کرتی ہے۔ نیب کے کئی سوالات ہیں جیسے کہ عمر کیسے اور کہاں کہاں گزاری؟ کن ممالک میں سرمایہ بھیجا؟ مال کیسے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟ وغیرہ۔

نیب کو عیب جو ادارے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مگر دھیرے دھیرے نیب بھی نظر بد کی زد پہ نظر آتی دکھائی دیتی ہے۔ کاروباری حضرات اور نوکر شاہ اب نیب کے ہاں ناقابل دست درازی قرار پا گئے ہیں۔ گویا، نا چھوڑنے سے بات ”نا چھیڑ نے“ تک چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے؟

مقتدرہ۔ یہ کسی مخصوص آفت کا نام نہیں بلکہ ریاست کے ہر شہری کے ذہن میں ایک تصوراتی طاقت کا استعارہ ہے۔ یہ ریاست کی مجموعی ”ہیئت حاکمہ“ کا نام ہے جو کچھ بھی کر گزرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ زندگیاں بیت جاتی ہیں مگر اس اصطلاح کی حقیقتیں آشکار نہیں ہو پاتیں۔ ہر کس و نا کس ریاست کے تمام معاملات کا ذمہ دار مقتدرہ کو ٹھہرا کر کتھارسس کرتا رہتا ہے۔

سونامی: سونامی ایک بھیانک آفت ہے مگر ہمارے سیاسی نظام میں انقلاب کی علامت ہے۔ چند برس پہلے سونامی کی اصطلاح کسی انقلاب کا پیش خیمہ سمجھی جاتی تھی اور لوگ اس سونامی کا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر راہ تکتے تھے اور بتی بال کے بنیرے اتے وی رکھا کرتے مگر جب اس سونامی منتظر سے لباس مجاز میں واسطہ پڑا تو شور کرتے دل سے اک قطرۂ خوں کی برآمدگی معما بن چلی۔ اب تو یوں لگنے لگا ہے جیسے وطن کے در و دیوار پہ سونامی بال کھولے سو رہی ہے۔

ہم ہمیشہ ہی ہر ستم گر کو ہمدرد سمجھنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ دریاؤں کی سی روانی والوں کے یہاں کرنے کے کاموں میں بیاباں کا سکوت ہے۔ تاہم سیاسی مخالفین کے واسطے رزم حق و باطل میں فولاد ضرور نظر آتے ہیں۔ کابینہ پہلے بھی وسیع ہوا کرتی تھی اور اب بھی نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک موجزن ہے۔ دشنام طرازی اور طعن و تشنیع ماضی سے بھی آگے اوج ثریا تک پہنچ چکی ہے۔ پہلے بھی دن صرف وزیروں کے پھرا کرتے تھے اور اب بھی انہیں کے پھرے نظر آتے ہیں۔

ہر آنے والی حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی خزانہ خالی ملا۔ حالانکہ موجودہ حکمران پاکستان نہیں بلکہ جنت کی حکمرانی کرنے آئے تھے، جہاں راوی چین ہی چین لکھتا۔ اور کیا ہوا وہ کاسۂ چشم حریصاں جو اقوام عالم کے سامنے دراز نہ ہونا تھا۔ البتہ تبدیلی کی سونامی کا انکار کامل بھی ممکن نہیں۔ پروٹو کول اور ہیلی کاپٹر، پولیس اور اداروں پہ سیاسی دباؤ جو کبھی حرام تھا اب حلال ہوچکا ہے۔ سابق حکمران، چونکہ بسیار خوری کے موجب امراض معدہ کا شکار ہو چکے تھے لہٰذا انہیں بدل کر نئے لوگوں کو موقع دیا جا چکا ہے۔

ماضی کی طرح اب بھی تلخ نوائی، انداز سخن کو دل خراش کیے جا رہی ہے۔ ا ب تو لگتا ہے کہ نہ کرپشن ہو گی اور نہ کوئی چج کا کام، کیونکہ ہر معاملے میں کرپشن ثابت ہونے کا خوف نئے منصوبے شروع کرنے میں مانع ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی مذکورہ و مطلوبہ سونامی، آنے سے پہلے ہی اتر کر، ہنوز سونامی دور است، کی یاد تازہ کر رہی ہے۔ البتہ مہنگائی اور کسمپرسی کی سونامی سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ ابھی تک تو محض اسی گرانی کی سونامی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

مہنگائی کے بل اپنی بلوں سے نکل کر لوگوں کو ڈ س رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نفرت کی سونامی بھی زوروں پہ ہے۔ جس سونامی کے سبز باغ دکھائے گئے تھے تاحال و ہ سونامی دیس کی دیواروں پہ بال کھولے سو رہی ہے اور ایسے ڈھنگ سے سو رہی ہے کہ بالیں پہ ہوا شور قیامت بھی اسے جگانے سے قاصر ہے۔ گویا ریاست اس قدرتی آفت کی زد پر آ چکی ہے۔

غربت کی سونامی: غربت کی سونامی اک اذیت ناک آفت ہے اور اس کے شکار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ غربت کے حوالے سے غربت کی لکیر وں کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ غربت کی دو اہم لکیریں ہیں۔ پہلی لکیر غربت کی حقیقی لکیر ہے۔ یہ لکیر قسمت، معاشرہ، اور غریبوں کی اپنی کاوشوں کی مشترک پیشکش ہوتی ہے۔ یہ لکیر خاصی وزنی ہوتی ہے اور اس کے نیچے سکونت پذیر افراد مکمل طور پر اس لکیر کے بوجھ تلے دبے دیکھے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی اک بڑی تعداد کو غربت کی جاگیر وراثت میں ملتی ہے۔

جسے اکثر من و عن پوری دیانت داری سے اگلی نسل تک منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ ذہنی و نفسیاتی طور پر برتر لوگوں کا مرہون منت رہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، پیروں، عالموں اور حکمرانوں کو مائی باپ سمجھا جاتا ہے۔ توہم پرستی اور جادو ٹونوں پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ غربت کی اس لکیر کے نیچے دبا ہر باسی لکیر کا فقیر بن کر عمر نبھا دیتا ہے۔ وہ تعلیم، نئے رجحانات اور عصری ترقی کو شک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور غربت کو رضا الٰہی سمجھ کر قبول کیے رکھتا ہے۔

روایتی غریب خود ہی اس لکیر سے اوپر آنے کی کوشش نہیں کرتا۔ چونکہ غربت کا تعلق براہ راست غریبوں سے ہے لٰہذا وہ خود ہی غریبوں کی تعداد میں کمی نہیں ہونے دیتے اور اپنی شبانہ روز کاوشوں اور محنت سے نت نئے شاہکار تخلیق کرتے ہیں۔ لہٰذا غربت میں اضافے کے ذمہ دار غریب خود بھی ہیں۔ باقی حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں۔ غریب لوگ بڑے لوگوں کے گھروں میں دن رات کام کاج کر کے دو وقت کی روٹی کماتے ہیں۔ دوسروں کے بچوں کے ناز اٹھاتے ہیں۔ اور انہیں طرح طرح کے کھانے کھلاتے ہیں۔ جبکہ ان کے اپنے بچے ان کے انتظار میں اکثر بھوکے سوتے ہیں۔

سڑکوں کی تعمیر اور تعمیری منصوبوں میں کڑکتی دھوپ یا یخ بستہ سردی میں مزدوری کرتے ہیں، شہروں کے چوکوں میں مزدوری ملنے کا انتطار کر کے اکثر شام ڈھلے بوجھل قدموں سے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ نجیب الطرفین غریب ہوتے ہیں۔ وہ پوری زندگی دوسروں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ البتہ حاجرہ مسرور کے مطابق ایک موقع غریب کو امیر کی برابری کا مل ہی جاتا ہے جو موت کے بعد ایک جیسی قبروں میں تدفین کا ہوتا ہے۔

وہ سب دو گز زمین اور کپڑے کے سوا کچھ ملکیت نہیں رکھتے۔ غربت کی دوسری لکیر خاصی ہلکی اور خود ساختہ ہوتی ہے۔ دانش مندان قوم جیسے چاہیں، جہاں چاہیں آسانی سے یہ لکیر کھینچ لیتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر لکیر حسرتوں، خواہشوں اور نظام کی نا ہمواریوں کے وسط سے شروع ہو کر نا شکری کی بلند و بالا چوٹیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بسنے والے لوگوں کے ہاتھ، زبان اور پاؤں بہت دراز ہوتے ہیں۔ محدود چادر رکھنے کے باوجود پاؤں فراخدلی سے پھیلائے جاتے ہیں جن کے بڑے مضحکہ خیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

اگر اس غریب طبقے کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افراد کا ایسا گروہ جو مختصر جائیداد، چند مرلوں کا گھر، ایک درجن سوٹ، 8 جوڑے جوتے دو موبائل سیٹ موٹر سائیکل اور چھوٹا سا روزگار رکھتا ہو، غریب طبقہ کہلاتا ہے۔ یہ غریب حقیقی غریبوں سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنی ہر محرومی اور نا اہلی کا موجب معاشرہ اور رشتے داروں کو قرار دیتے ہیں۔ حکمران ان کے بہت بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ اور میڈیا منڈی ان کی پسندیدہ جگہ ہوتی ہے۔

کچھ ایسے طبقات سے وابستہ صحافی انہیں خوب کوریج دیتے ہیں۔ اور اپنی دیہاڑی کھری کرتے ہیں۔ ایسے غریب انتہائی سفید پوشی کی زندگی بسر کر تے ہیں۔ اور سب کچھ حاصل کر کے بھی بے چارے غریب ہی رہتے ہیں۔ قدرتی آفات کے مواقعوں پر ایسے غریب ہی اصل مستحقین میں ہوتے ہیں۔ پچاس برس قبل گاؤں میں شاذ ہی کوئی پکا مکان نظر آتا تھا۔ آج سارا گاؤں پکے مکانوں کا حامل ہے۔ ایک فرد ایک دو جوڑے سوٹ کا مالک تھا آج درجنوں ملبوسات ہیں۔

خاندان کے ہر فرد کے پاس سیل فون ہیں۔ سواریاں ہیں، روزمرہ استعمال کی اشیا، گھروں میں سمانے سے قاصر ہیں۔ ایسے غریبوں کے معمولات خصوصاً شادی و مرگ کی رسومات قابل دید ہوتی ہیں۔ دوسروں پر دھاک بٹھانے کے لئے خوب اہتمام کیے جاتے ہیں۔ اور اپنی برتری کا احساس نمایاں کیا جاتا ہے۔ غریب اور نادار لوگوں کے لئے ان کی برادری نا سور کی حیثیت اخیتار کر جاتی ہے۔ مگر پھر بھی یہ طبقہ اپنے آپ کو احساس محرومی کا شکار ہی سمجھتا ہے۔

جہالت کی سونامی: جہالت سے مراد ناخواندگی ہرگز نہیں ہے۔ جہالت اصل میں ایک مخصوص ذہنی کیفیت state of mind کا نام ہے جس میں اپنی ہر بات اور عمل درست اور دوسروں کا غلط لگنے لگتا ہے۔ یہی جہالت ہمارے جملہ سیاسی و معاشرتی مسائل کی جڑ ہے۔ یہ سب سے ہولناک آفت ہے جو تنزلی و انتشار کی بڑی وجہ ہے۔ کوئی سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملہ ایسا نہیں جس میں ہم دست وگریباں نہ ہوں۔ تعلیم اور ڈگریاں اس آفت کے سامنے بے بس ہیں۔ سر دست واحد حل یہی بچا ہے:
”جواب جاہلاں باشد خاموشی۔“

سموگ اور آلودگی کی سونامی: پورے دیس میں دشنام طرازی، طعنہ زنی اور الزام زنی کی سموگ پورا سال کے جملہ شب و روز چھائی رہتی ہے۔ سموگ اور سمعی و بصری آلودگی میں وطن عزیز عالم میں انتخاب سے کم نہیں۔ بالی ووڈ والے پت جھڑ ساون بسنت بہار کے ساتھ پانچواں موسم پیار کا لکھتے اور گاتے تھے لیکن اپنے یہاں تو پانچواں موسم سموگ بن چکا ہے۔ فیض سے معذرت:
سموگ آئی تو ہوگئے ہیں بیمار سارے، نا چار سارے
اکھڑ گئے ہیں یہ سانس سارے ہاں سانس سارے
اتر پڑے ہیں سراب سارے آلودگی کے عذاب سارے
دخان صنعت و گاڑیاں بھی ہوئی ہیں بند سانس کی نالیاں بھی
سموگ آئی غبار چھائی تو ہوگئے ہیں بیمار سارے ناچار سارے

کچھ احباب اس سموگ کو ہمسایہ ریاست کی در اندازی بھی کہا کرتے ہیں۔ ہم نے خود فضا کی صاف ستھری چنریا میلی کر دی ہے۔ یہ سب ترقی کا دوسرا رخ ہے۔ تر قی نے بے مثال وسائل تو پیدا کردیے مگر ساتھ ہی بے شمار مسائل کو بھی جنم دیا۔

دباؤ : کسی چیز کا حد سے زیادہ یا کم دباؤ بھی مختلف آفات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ مثلاً ہوا کا کم دباؤ بارشوں اور سیلاب کا موجب ہے تو دباؤ کی زیادتی سے بی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی ریاست میں سیاسی دباؤ، معاشی دباؤ اور عدالتی دبا ؤ قومی نظام کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ سب سے خطرناک دباؤ آبادی کا دباؤ ہے۔

آبادی کی سونامی: ازمنہ قدیم سے مختلف قدرتی آفات انسانی آبادی کے لئے وبال بنتی رہی ہیں مگر آج انسانی آبادی میں اندھا دھند اور خطرناک اضافہ زمین اور ماحول کے لئے خود ام المسائل بنتا جا رہا ہے۔ مالتھس کے مطابق وسائل ایک، دو، تین، چار اور پانچ کی شرح سے بڑھتے ہیں، جبکہ آبادی ایک، دو، چار، آٹھ اور سولہ کے تناسب سے بڑھتی ہے۔ بڑھتی آبادی تیزی سے وسائل ختم کرتی جارہی ہے۔ اتنی ترقی کے باوجود جائے سکونت، خوراک، علاج، ٹرانسپورٹ، سیوریج، مہنگائی، خشک سالی اور بے روز گاری کے مسائل نے دنیا کو گھیر رکھا ہے۔

پانی کی شدید قلت سب سے بڑا المیہ ہے۔ اب زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ مرنے کے لئے قبور کی جگہ بھی ناپید ہو رہی ہے۔ اب سکونتی علاقوں کی طرح مردوں کو دفنانے کی خاطر زمین پہ تنازعات کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔ لہٰذا بہت سے یورپی ممالک میں کرائے کے قبرستانوں کی بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں اور احتراق نعش کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کے موجب زرعی رقبوں پہ سکونتی کالونیاں زراعت کے لئے سم قاتل ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت جلد زرعی زمینیں ختم ہو جائیں گی۔ اقبال نے اس مٹی کے نم ہونے کا مژدہ سنایا تھا پر اس قوم کے کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے دلاور فگار لکھتے ہیں:
ابھی تو آٹھ دس بچوں کی حسرت اور ہے باقی
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

کسی تعمیری کام میں ترقی تاحال نظر نہیں آتی مگر آبادی میں اضافہ کی شرح سب سے مثالی ہے۔ خصوصا غریب طبقات میں یہ اضافہ ہولناک حد تک ہے۔ جتنی آبادی زیادہ ہو گی اتنی خوراک اور وسائل درکار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گداگری بڑھ رہی ہے۔ بڑے شہروں میں ہر بھکاری کے ہمراہ پانچ سات نیم ہرہنہ بچے بھی ہوتے ہیں، جبکہ دوسری گلی میں اس کی زوجہ اتنے ہی بچوں کی فوج لئے مصروف کار ہوتی ہے۔

مگر غریب یہ ٹینشن لینے سے یکسر آزاد ہے۔ یعنی بچوں کی پیدائش کو میشیت ایزدی سمجھتے ہیں جبکہ ان کی قسمت، رزق اور غربت کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہرا تے ہیں۔ دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ملاوٹ شد ہ خوراک، طبی سہولیات کا فقدان، اتائیت کی بھر مار، سیلاب، ڈینگی، خشک سالی و قحط، حاد ثات، بنگالی بابوں اور اماؤں کی کار ستانیوں، باہمی دشمنیوں اور دہشت گردی کے واقعات کے باوجود آبادی میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔

اس دیس میں روزانہ 15000 بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ مشرقی ہمسایہ ملک بھی اسی بحران کا شکار ہے جہاں زندہ رہنا خواب ہوتا جا رہا ہے۔ پانی اور بیت الخلا کی شدید قلت ہے۔ پھر ہر جگہ ہی جھونپڑ پٹی کے مناظر ہوں گے ۔ کوئی اس پہ بات کرے تو شدید رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں آبادی کی سونامی کے آگے بند باندھنا شرعا ناممکن ہے، وگرنہ اس سے بڑی سونامی برپا ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ بقول شاعر:
کہا اک شخص سے میں نے کہ بچے کم کرو پیدا
تو فرمایا دخل مت دو خدا کے کار خانے میں

جس قدر کوئی غریب ہے، یا جتنے وسائل کم ہیں اتنا ہی ہی زیادہ بچے پیدا کرنے کا جنون ہے۔ حد تو یہ کہ تین تین پشتیں بیک وقت اسی کام میں لگی نظر آتی ہیں۔ شاعر لکھتا ہے:
کوئی سمجھاؤ کیوں اولاد میں لوگ
بلا مقصد اضافہ کر رہے ہیں
ادھر بیٹا بھی مصروف عمل ہے
ادھر ابا تماشا کر رہے ہیں

قائد نے اپنی قوم کو کام، کام اور کام کی تلقین کی مگر قوم نے محض دو معانی لئے۔ ایک تو انگریزی کا calm یعنی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے سکون سے بیٹھے رہنا اور دوسرا کام آبادی میں دھڑا دھڑ اضافہ کرنا۔ لہٰذا ان دونوں کاموں کے علاوہ کوئی خاص کام دکھائی نہیں دیتا، ضمیر جعفری بھی یہی کہتے گئے:
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

عرب ممالک میں کثرت اولادی اور کثرت ازدواج کا عام رواج ہے اور ”یک زوجیہ، شخص مسکین سمجھا جاتا ہے۔ اور معاملات میں نا سہی اس معاملے کو مذہبی سعادت گردانتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں شادیاں فرائض کی ادائیگی کے علاوہ عشقیہ و معشوقیہ خواہشات کی تکمیل کا اظہار ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ پورا دیس ہی ہر وقت امید سے ہوتا ہے۔ بعد ازاں آمد اطفال کے جن سلسلہ ہائے دراز کا آغاز ہوتا ہے، اس پہ بھی شاعر رقم طراز ہے:
عاشقی قید شریعت میں جو آ جاتی ہے
جلوۂ کثرت اولاد دکھا جاتی ہے

اکثر دیہاتوں میں والدین پہلو پہ دو تین شیر خوار اطفال اٹھائے چلتے نظر آتے ہیں اور آبادی کی کثرت اور شوچالوں کی کمیابی کے باعث تالاب کنارے ایک ہی گھر کے سات آٹھ برہنہ نور نظر اپنے تیسرے ہمسائے کے گھر تک قطار اندر قطار برائے تکمیل حوائج ضروریہ تشریف فرما نظر آتے ہیں۔ اور یہ منظر کئی مقامات پر اعلی الصبح دیکھا جا سکتا ہے۔ ا س سرگرمی میں تن پر لباس کا تکلف نہیں ہوتا۔ البتہ نظر بد سے حفاظت اور درازیٔ عمر کے لئے گلے میں چمڑے کا تعویذ ضرور ہوتا ہے۔ لظف کی بات یہ ہے کہ عائلی معاملات میں شدید اختلافات اور لا محدود جھگڑوں کے باوجود بچوں کی مسلسل پیدائش مشرقی روایات کی خوبصورت مثال ہے۔

اب سلطنت میں بجلی، فصلیں، تعلیمی ماحول، ادب اور استحکام پیدا نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں افسوس ناک پہلو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ کو اولاد کی ترتیب اور نام بھی یاد نہیں ہوتے۔ اب بھلا وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کا کیونکر سوچ سکتے ہیں اور ریاست شہریوں کو کیسے خوشحال رکھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوم کی بجائے بے مہار ہجوم بنتے جا رہے ہیں۔ آئیے، آخر میں فلم بول کے اس فکرانگیز ڈائیلاگ پہ غور کرتے ہیں جس میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر غربت کے موجب بچے قتل کرنا گناہ ہے تو پیدا کرنا کیوں گناہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).