شعر و ادب کے سرخیل: ڈاکٹر مختار شمیم


چمنستان سرونج کے جن پھولوں کی مہک سے جہان اردو مہک رہا ہے ان میں ایک معتبر نام ڈاکٹر مختا ر شمیم کا بھی ہے۔ ڈاکٹر مختار شمیم در س و تدریس کے پیشے سے ہمیشہ وابستہ رہے اور ہر چند کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں لیکن آج بھی میدان عمل میں نہ صرف یہ کہ سرگرم ہیں بلکہ نو واردان ادب کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے حمیدیہ کالج بھوپال میں ڈاکٹر ابو محمد سحر کے زیر سرپرستی ”ظہیر دہلوی حیات و فن“ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

ظہیر دہلوی کی شخصیت ان معنوں میں اہم ہے کہ وہ اردو کے کلاسیکی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انیسویں صدی کے نصف اول کے سیاسی سماجی اور ادبی منظرنامے کے نہ صرف چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے 1857ء کی ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھابھی ہے اور اس کو قلمبندبھی کیاہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے محققین نے ظہیر دہلوی جیسی شخصیت سے بے اعتنائی برتتے ہوئے ان کو وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق تھاورنہ دیکھا جائے تو غالب اور مومن کا ہم عصر یہ شاعر اپنے شعری سروکار کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مقام مسرت ہے کہ ڈاکٹر مختار شمیم نے اس نادر روزگار شاعر کونہ صرف اپنی تحقیق کا موضوع بنایا بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس کا حق ادا کر دیا اور ظہیر دہلوی کے سیاسی سماجی اور شعری محاسن کو ادب کے موجودہ منظرنامے سے روشناس کرایا۔ ڈاکٹر مختار شمیم نے ظہیر دہلوی کے علاوہ جو دوسرے تحقیقی کام کیے ہیں وہ بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مثلاً ریاست ٹونک اور اردو شاعری۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ٹونک کے حکمرانوں نے بھی ہمیشہ علم پروری کی جس کا ایک اندازہ جس کا اندازہ سید مرتضیٰ احمد نظرؔ کی کتاب ”آثار مالوہ سے بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مختار شمیم نے ریاست ٹونک کی علمی ادبی صورتحال کے ساتھ ساتھ وہاں کے شاعروں کا جو تعارف نامہ پیش کیا ہے وہ ان معنوں میں بھی اہم ہے کہ بہت سے مقامی لیکن معتبر شعرا ادب کی تاریخ میں نمایاں ہوگئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شعر و ادب کے مختلف موضوعات پردیگر مضامین اور لیکچرز بھی تحریر کیے ہیں جو تناظر و تشخص اور سواد حرف جیسی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں۔ انھوں نے جہاں اپنی بیگم کشور سلطان کے تحقیقی مقالے“ جاں نثار اختر فن و شخصیت ”کی دوبارہ اشاعت کی وہیں اپنے استاد ڈاکٹر ابو محمد سحر کے ان خطوط کو بھی کتابی شکل میں بہت اہتمام شائع کیا جو انھوں نے مختلف موقعوں پر موصوف کے نام لکھے تھے۔

“ استاذی ڈاکٹر ابو محمد سحر اور ان کے شفقت نامے ”محض خطوط کا ہی مجموعہ نہیں ہیں بلکہ اس میں ابو محمد سحر کی ادبی خدمات، ان کے معاصرین ان کی تنقیدی فکر سبھی کچھ تفصیل سے آ گیا ہے۔ ابتدائی صفحات مشتمل ابو محمد سحر کے فن اور شخصیت کے مختلف رنگوں کو جہاں سمیٹا گیا ہے وہیں باقی صفحات ان خطوط پر مشتمل ہیں جو ایک استاد نے اپنے شاگرد کو وقتاً فوقتاً لکھے ہیں۔ ان خطوط کو پڑھنے سے استاد اور شاگرد دونوں کی فکری بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مختار شمیم اپنے استاد ڈاکٹر ابو محمد سحر کے تئیں جو والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اس کا ایک اور ثبوت انھوں نے اس طرح دیا کہ استاد کے نام آئے اردو زبان کے مشاہیر کے خطوط کو دو جلدوں میں یکجا کرکے کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر مختار شمیم نے افسانے بھی لکھے اور شاعری کے میدان میں بھی اپنی فکر کے نمونے پیش کیے ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ“ پس غبار ”کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے ان کے اب تک کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ“ نامہئی گل ”کے عنوان سے 1978ء میں شائع ہوا جس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ جہاں تک ان کی غزلوں کا تعلق ہے ان کے یہاں جدید علامتوں اور استعاروں کا ایک سیل بے پناہ نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں عصری حسیت کے ساتھ تشبیہات و استعارات کا جو خلاقانہ استعمال ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

تم سے ملے ہیں آج تو محسوس یہ ہوا
صحرائے غم میں پیار کے بادل برس گئے
یہاں سب اپنی صلیبیں اٹھائے پھرتے ہیں
ہرایک شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے
خود کو ہم تیری گلی سے یوں بچا کر آئے ہیں
دل کو صحرا آنکھ کو پتھر بنا کر لائے ہیں
چراغوں کا دھواں بھی بجھ گیا ہے
یہ کیسی ملگجی سی روشنی ہے
فریب ذات ہے خوش فہمیوں کا دھوکہ ہے
مرا وجود مجھے آئینہ دکھاتا ہے
کچھ ایسے کھو گئے ہیں کہ بھول بیٹھے ہم
طلسم ذات کے باہر بھی ایک دنیا ہے
ہر ایک بات پہ ان کی خموش رہتے ہیں
ہر ایک بات کا ان کی جواب رکھتے ہیں
ٹوٹ جاتا ہوں شکستہ آئینے کو دیکھ کر
جب کبھی خود سے ملا ہوں زخم ایک تازہ ملا

یہ اور اس طرح کے اشعار زندگی کے کیف و کم سے جس طرح عبارت ہیں وہی تو آج کی زندگی کا منظرنامہ ہیں۔ ڈاکٹر مختار شمیم کے اشعار میں یاسیت کی جو زیریں لہر ہے وہ انتہائی اہم ہے۔ یاسیت کے حوالے سے ان کو اگر بانیؔ کے سلسلے میں شمار کیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یاسیت کے حوالے سے منچندا بانی کے یہاں بھی درد و غم کا ایک جہاں آباد ہے۔

ڈاکٹر مختا ر شمیم کی نظمیں بھی عصر حاضر کا ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں ہجر کی صبح بھی دیکھی جا سکتی ہے اور ہجر کی شام بھی۔ یہاں غم دوراں کا رنگ بھی ہے اور غم جاناں کا کرب بھی۔ ان کی نظموں میں روانی اور تسلسل کا جو قرینہ ہے وہ فکر کے کئی دریچے وا کرتا ہے۔ لفظوں کی نشست و برخاست ہو یا موضوعات کا تنوع یہ نظمیں بہرحال قاری کے ذہن کو متاثرکرتی ہیں۔ کرفیو کے عنوان سے ان کی جو مختصر سی جو نظم ہے اس کا یہ انداز بھی دیکھیے۔

خوف کے دریچوں سے جھانکتا ہے سناٹا
ہر مکان سہما ہے
کس قدر اندھیرا ہے روشنی نہیں ملتی
دور تک کہیں یارو! زندگی نہیں ملتی
ان کی ایک نظم جس کا عنوان ”کاغذی پیرہن“ ہے درج ذیل ہے
میں سوچتا ہوں
کہ
ان کتابوں کے ہر ور ق پر
یہ کیسی تحریر ہے کہ
جس کے حروف
لفظوں کی قتل گہ میں
معانی کی سربرہنہ شمشیر کے لیے منتظر کھڑے ہیں
یہ سادہ رو ہیں۔ کوئی انہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کاغذی سے اس پیرہن کے بدلے
حقیقتوں کا لباس دے دے
کوئی تو ان کو وجود بخشے

اس نظم کو پڑھتے ہی ذہن میں دیوان غالب کا وہ پہلا شعر جس میں انھوں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ سوالیہ نشان قائم کیا ہے کہ

نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

ڈاکٹر مختار شمیم نے بھی یہاں یہی سوال قائم کیا ہے کہ یہ کیسی تحریر ہے کہ جس کے حروف لفظوں کی قتل گاہ میں سربرہنہ شمشیر لیے منتظر کھڑے ہیں۔ یہ نظم اختصار کے باوجود فکری سطح پر انتہائی وقیع ہے۔ انھوں نے جہاں حمد و نعت اور منقبت کے حوالے سے خوبصورت نظمیں کہیں ہیں وہیں شخصی مرثیے یا شخصیات اور مقامات کے حوالے سے دوسری نظمیں بھی کہیں ہیں جو جاذب نظر اور انتہائی وقیع ہیں۔

بہرحال جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ ڈاکٹر مختار شمیم کا قلم آج بھی میدان ادب میں رواں دواں ہے اور وہ تحقیق و تخلیق کے ساتھ ساتھ نوواردان ادب کے لیے روشنی بھی فراہم کر رہے ہیں۔

اسی ویران خرابے کو بسانا ہے شمیم
وحشت جاں کو اسی دشت میں گھر کرنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).