تھر میں مبینہ گینگ ریپ کی شکار ہندو لڑکی کی ’خودکشی‘


ریپ، تھر

iStock
پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں پولیس کے مطابق گذشتہ برس مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے والی ایک ہندو لڑکی نے خودکشی کر لی ہے جس کی وجہ اسے ملنے والی دھمکیاں اور بلیک میلنگ بتائی جا رہی ہے۔

لڑکی کی جانب سے اپنی جان لینے کا واقعہ تھر کے علاقے چیلہار گاؤں دلن جو تڑ میں پیش آیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکی کے والدین کی درخواست پر قتل بالسبب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لڑکی کے والد کھینرو میگھواڑ کا کہنا ہے کہ دو روز قبل رات کو وہ سو رہے تھے تو آنکھ کھلی تو ان کی بیٹی بستر پر موجود نہیں تھی، انھوں نے پڑوسیوں کو بھی جگایا اور آس پاس تلاش کیا لیکن لڑکی کے پیروں کے نشانات موجود نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ریپ سے متاثرہ افراد کے لباس کی نمائش

جی ایچ بی ڈرگ ریپ کرنے والوں میں مقبول کیوں؟

پاکستان میں ریپ جیسے جرائم کے لیے کیا مزید قانون سازی کی ضرورت ہے؟

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ بیٹی کو تلاش کرتے کرتے ملزم کے گھر کے قریب پہنچے تو وہاں انھیں لڑکی اور لڑکے کے پیروں کے نشانات ملے۔ انھوں نے گھر کا گھیراؤ کیا تو ملزم وہاں موجود تھا۔

کھینرو میگھواڑ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت رات کے دو بج چکے تھے۔ اسی دوران ہم نے ایک زوردار آواز سنی جو قریبی کنویں سے آ رہی تھی۔ جب وہاں پہنچے تو باہر لڑکی کے پیروں کے نشانات موجود تھے، پھر پولیس آئی اور اس نے کنویں سے لاش نکالی۔‘

ایس ایچ او چیلہار مشتاق ملک کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والدین کی مرضی کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا ہے تاہم ان کے مطابق پولیس کو کنویں کے آس پاس لڑکی کے علاوہ کسی اور فرد کے پیروں کے نشانات نہیں ملے۔

لڑکی

ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کھینرو میگھواڑ سات بچوں کے والد ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال جون میں اپنی 18 سالہ بیٹی کے ریپ کا مقدمہ پولیس کی زیرِ حراست ملزم سمیت تین افراد کے خلاف درج کروایا تھا۔

پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کے ایس ایس پی تھرپارکر عبداللہ احمد یار نے کہا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے ریپ کی تصدیق ہوئی ہے۔

کھینرو میگھواڑ کے مطابق پولیس نے تینوں ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن انھوں نے تین ماہ کے بعد ضمانت حاصل کر لی تھی، جس کے بعد وہ دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ کورونا کی وجہ سے مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی، اب 15 اکتوبر کو سماعت میں ہمارے بیانات قلمبند ہونے تھے اور لڑکی مؤقف پر قائم تھی، ان بیانات سے روکنے کے لیے لڑکی پر دباؤ ڈالا گیا اور اس نے خودکشی کرلی۔

خیال رہے کہ مدعی اور ملزمان دونوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ دلن جو تڑ گاؤں بھی تھر ان کے دیہات میں شامل ہیں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جبکہ صحرائے تھر کی تقریباً نصف آبادی ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp