بیجنگ میں نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدا لسلام سے ملاقات


سترہ ستمبر 1987 ء کا دن ہمارے لئے ایک یادگار دن تھا کیونکہ اس دن ہماری پاکستان کے نامور فرزند اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسدان جناب عبدالسلام سے ملاقات ہوئی۔ وہ بیجنگ میں تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کی دوسری جنرل کانفرنس کے موقع پر تشریف لائے تھے۔ کانفرنس کا آغاز چودہ ستمبر کو ہوا تھا اور اس وقت کے چینی وزیر اعظم چاؤزے یانگ سمیت دنیا بھر کے ممتاز سائنسدانوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ سترہ ستمبر کو جناب عبدالسلام کی جانب سے کانفرنس کے شرکا کے اعزاز میں ایک دعوت منعقد کی گئی جس میں انہوں نے پاکستانی برادری کو بھی مدعو کیا تھا، اسی دعوت میں ہمیں اس مشہور عالم ہستی سے گفتگو کا موقع ملا۔

ڈاکٹر صاحب نے سیاہی مائل سرمئی رنگ کا دھاری دار سوٹ پہن رکھا تھا۔ خشخشی ڈارہی اور نظر کا موٹا چشمہ لگائے وہ ایک سیدھے سادے، منکسرا لمزاج شخص دکھائی دیے لیکن آنکھوں کی غیر معمولی چمک ظاہر کرتی تھی کہ ہمارا مخاطب کوئی عام انسان نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ہمارا پہلا سوال تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے محدود وسائل کے ساتھ سائنسی ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب اپنی صدارتی تقریر میں دے چکے ہیں، انہوں نے اسی وقت اپنی تقریر کی کاپی منگوا کر ہمیں دی۔ اپنی تقریر میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ جنوب اور شمال میں معیار زندگی کے بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا فرق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے شمال میں جنوب کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر قومی پیداوار کا زیادہ حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اب تک تیسری دنیا کے پانچ یا زیادہ سے زیادہ آٹھ ممالک ایسے ہیں جو سائنس کو اہمیت دیتے ہیں اور جہاں سائنسدانوں کی تعداد خاطر خواہ ہے۔ ان ممالک میں لاطینی امریکہ میں ارجنٹائن، برازیل اور میکسیکو، ایشیا میں چین، ہندوستان، جنوبی کوریا اور افریقہ میں مصر اور نائجیریا شامل ہیں۔

پروفیسر صاحب کا کہنا تھا جہاں تک سائنس ٹرانسفر کا تعلق ہے، اس کے چار مراحل ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں ہر سطح پر اور خصوصاً اعلیٰ سطح پر کم از کم انجینئیروں اور ٹیکنالوجسٹس کی سائنسی تربیت کے لئے سائنسی خواندگی اور سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سائنس کے اچھے ٹیچرز درکار ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو اپنی سائنٹفک برادریوں سے اور متعلقہ صنعتوں سے مشورہ طلب کرنا چاہیے کہ ملک کو کس قسم کی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور جو قابل حصول ہے۔

اس کا جواب دینے کے لئے سائنسدانوں کا اپنے ملک کے مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ تیسرے مرحلے میں ترقی پذیر ممالک میں سے کچھ کو ایسے بنیادی سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو اپنے اطلاقی رفقا کے تحقیقی کام میں مدد دے سکیں۔ ہر معاشرے کے لئے اس کے ( 1 ) زرعی مسائل، ( 2 ) مقامی کیڑے اور بیماریاں، ( 3 ) مقامی دھاتوں اور معدنیات سے متعلق مسائل کو مقامی طور پر ہی حل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عبد السلام کا کہنا تھا کہ جہاں تک سائنس کے بارے میں حکومت کے فرائض کا تعلق ہے تو ان کی خواہش تھی کہ ترقی پذیر ممالک کے صدور امریکہ کے صدر (اس وقت کے ) کی تقلید کرتے ہوئے ریاضی کو خاطر خواہ اہمیت دیں کیونکہ سائنس، آرٹس، کامرس میں ترقی کی کلید ریاضی کا شعور ہے۔

جب ہم نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ وہ پاکستان کے پہلے شخص ہیں جسے نوبل انعام ملا۔ اتنا بڑا اعزاز حاصل کرنے کے بعد مستقبل کے بارے میں ان کے کیا خواب اور منصوبے ہیں تو ہمیں یوں لگا جیسے نادانستگی میں ہم نے ڈاکٹر صاحب کے دل میں چھپے ہوئے زخموں کو کھرچ دیا ہو، انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ”مستقبل کے متعلق عرض یہ ہے کہ آج جو میں ملک سے باہر بیٹھا ہوا ہوں تو باہر بیٹھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تھا تو اس نے اپنے دیس میں شانتی نکیتن بنایا تھا جہاں وہ اپنی قوم کے بچوں کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتا تھا لیکن میرے لئے پاکستان میں کوئی شانتی نکیتن نہیں ہے۔

”تو کیا آپ پاکستان آنا چاہتے ہیں“ ہم نے پوچھا

”کیسی باتیں کرتی ہیں آپ“ ڈاکٹر صاحب تڑپ اٹھے۔ ”یہ آپ لوگوں پر ہے کہ آپ ایسے حالات پیدا کریں کہ میں پاکستان آ کر کام کر سکوں“

چین کی سائنسی ترقی کے بارے میں جب ہم نے ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے فرمایا: ”عیسائیت کے دور سے پہلے سے لے کر 1600 بعد از مسیح تک ٹیکنالوجی کے میدان میں چین نے دنیا کی قیادت کی۔ چینی مٹی سے ظروف سازی، کاغذ سازی، طباعت کا ہنر، ریشم سازی میکانکی گھڑی کی ایجاد اور ایسی بہت سی دوسری چیزوں کی بدولت چین مغرب سے بہت آگے تھا اور کچھ چیزیں تو بہت پہلے ایجاد ہو گئی تھیں جیسے بارود، اہم بات یہ ہے کہ یہ ایجاد فوجی مقاصد کے لئے نہیں کی گئی تھی بلکہ کنفیوشن روایت کے تحت کی گئی تھی جس کا مقصد انسانی خدمت کے لئے ٹیکنالوجی کو ترقی دینا ہے۔ موجودہ دور میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینی حکومت سائنسی ترقی میں پوری مدد دیتی ہے۔

” سائنسی ترقی مظلوم طبقات کی نجات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کے خیال میں سائنس ترقی پذیر ممالک کی عورتوں کی کیا مدد کر سکتی ہے۔ ؟“

ڈاکٹر صاحب نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا ”اس بارے میں میں نے کبھی سوچا نہیں کہ عورتوں کے خاص مسئلے کیا ہیں۔ سائنس آپ کے سماجی تعلقات کے بارے میں چپ ہے۔“

اس کے ساتھ ہی پاکستان ایمبیسی اسکول اور کالج کے اساتذہ بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو گئے۔ سلام صاحب خاص جھنگ والے لہجے میں ان سے پنجابی میں گفتگو کرنا شروع ہو گئے۔ مصطفے ٰ صاحب نے پوچھا ”بیس سال پہلے آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں جو رحجانات پائے جاتے ہیں، ان کی بدولت یہ ممالک سائنسی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اب آپ کی کیا رائے ہے“

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی رائے آج بھی وہی ہے اور پاکستان میں جو حالات ہیں، ان کی بدولت سائنسی دوڑ میں وہ سب سے پیچھے رہ جائے گا۔ پاکستان میں سائنسی ترقی کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ پاکستان کا ہمسایہ ہندوستان سائنس کے میدان میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ جناب برکت اعوان نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ان کی جس تھیوری پر انہیں نوبل انعام ملا، کیا وہ اسے مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’اب یہ نوجوان سائنسدانوں کا کام ہے اور کچھ نوجوان اس پر کام کر رہے ہیں‘ ۔

پاکستان میں اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی بات چلی تو اساتذہ کرام نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ اس بحث میں ان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سائنس کے شعبے میں اتنی ترقی کی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ (پاکستان میں ) تعلیم تو اردو میں ہی حاصل کرنی چاہیے لیکن انگریزی اصطلاحات کو جوں کا توں اپنانا چاہیے۔ جناب اعجاز لطیف نے کہا کہ فزکس پڑھاتے ہوئے اردو میڈیم کے اساتذہ فوکس کا ترجمہ ماسکہ کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا، اس کی ضرورت نہیں، آ پ اردو میں بھی فوکس ہی کہیں۔ پاکستان میں ایک نا خواندہ شخص جب سائیکل پر پنکچر لگاتا ہے تو پنکچر کے لئے اردو کا کوئی لفظ استعمال نہیں کرتا۔ وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے پنکچر لگایا۔

اس انٹرویو کے وقت ڈاکٹر عبدالسلام اٹلی میں تھیوریٹکل فزکس کے بین الاقوامی سنٹر کے ڈائرکٹر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی پیداوار کا دو تا ڈھائی فی صد سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتے ہیں جب کہ ترقی پذیر ممالک اعشاریہ دو فی صد سے بھی کم خرچ کرتے ہیں۔

1926 میں جھنگ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد السلام کا انتقال 21 نومبر 1996 کو ہوا اور ہم ایسے حالات پیدا نہ کر سکے کہ وہ پاکستان آ کر کام کر سکتے۔

اس سیریز کے دیگر حصےچین کی عورتیں کتنی آزاد ہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).