امریکی صدارتی انتخاب 2020: وہ رات جب امریکی جمہوریت بدترین تنزلی کا شکار ہوئی


ٹرمپ

جب 1960 میں پہلی مرتبہ امریکی صدارتی امیدواروں کے مباحثے ٹی وی پر نشر کیے گئے تو دنیا نے دو نوجوان امیدواروں جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کو باعزت طریقے سے ایک ذہانت سے بھرپور اور معیاری بحث کرتے ہوئے دیکھا۔

ہمیں وہ ابتدائی مباحثے عموماً رچرڈ نکسن کے پسینے چھوٹنے اور بھونڈے میک اپ کی وجہ سے یاد ہیں۔

سرد جنگ کے درمیان جب واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان نظریاتی جنگ جاری تھی تو یہ مباحثے امریکی جمہوریت کی ایک ولولہ انگیز تشہیر کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔

یہ سوچتے ہوئے کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی بات کو کیسے دیکھا جائے گا، کینیڈی نے اپنی پہلی بحث کی ابتدا کچھ اس انداز میں کی: ’سنہ 1860 کے انتخاب میں ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ سوال یہ ہے کہ آیا یہ قوم نصف غلام اور نصف آزاد رہ سکتی ہے۔ سنہ 1960 کے انتخاب میں، اور آج جو دنیا ہے، اس میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا نصف غلام اور نصف آزاد رہے گی، کیا یہ آزادی کی اس سمت میں سفر کرے گی جو راستہ ہم لے رہے ہیں، یا یہ غلامی کی سمت میں سفر کرے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

امریکی الیکشن 2020: ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جو بائیڈن؟

ٹرمپ اور جو بائیڈن کا پہلا مباحثہ بدنظمی اور تند و تیز تکرار کی نذر

کیا جو بائیڈن ٹرمپ کو شکست دے کر اگلے صدر بن سکتے ہیں؟

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟

گذشتہ رات ہونے والا شرمناک مباحثہ کسی رکھ رکھاؤ والی بحث سے زیادہ ’پنجروں میں ہونی والی لڑائی‘ کی طرح تھا اور اس نے ایک بالکل مختلف دور اور ملک کی عکاسی کی۔ نہ پاٹی جا سکنے والی خلیج کا حامل امریکہ، ایک ایسا ملک جس میں جمہوریت زوال کی شکار ہے۔

دو عمر رسیدہ افراد، دونوں ہی اپنی اپنی عمر کی ساتویں دہائی میں موجود، ایک دوسرے پر لفظی حملے اور ایک دوسرے کی ہتک کرتے ہوئے نظر آئے۔ اور ایک مرتبہ پھر موجودہ صدر نے روایتی رویے کی اقدار کو عین پرائم ٹائم پر کچرے کی نذر کر دیا۔

اگر سابقہ صدور آسمان پر موجود کسی اوول آفس میں اب بھی موجود ہیں تو وہاں سے ایب لنکن اور جیک کینیڈی حیرت زدہ روحوں کی طرح دیکھ رہے ہوں گے۔

کئی غیر ملکی ناظرین اور خود امریکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے یہ بحث امریکی تنزل کا براہِ راست نظارہ تھا۔

انھوں نے ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کروا دی کہ امریکہ کا خود کو تمام دوسری اقوام سے ممتاز سمجھنا اب پہلے سے زیادہ منفی انداز میں دیکھا جا رہا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر قتل، بڑے پیمانے پر لوگوں کو جیلوں میں رکھنا، نسلی تقسیم اور سیاسی اتھل پتھل سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ

سنہ 2000 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نے ملک کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا

جرمن اخبار ’در شپیگل‘ نے اسے ’گاڑیوں کے تصادم جیسا ٹی وی مقابلہ‘ قرار دیا۔

اطالوی اخبار ’لا ریپبلیکا‘ کے امریکہ میں نامہ نگار نے لکھا ’امریکی سیاست اس درجے تک پہلے کبھی نہیں گری تھی۔‘

فرانسیسی اخبار ’لے موندے‘، جس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کہا تھا کہ ’اب ہم سب امریکی ہیں‘، اب کہتا ہے کہ یہ ’بہت بُرا طوفان ہے۔‘

مگر طوفان تو ہوتے ہی گزرنے کے لیے ہیں۔ جو چیز کل رات کے مباحثے سے سامنے آئی وہ امریکہ کا مستقل سیاسی نظام ہے۔

ایک ایسے دور میں جب ارضی سیاسیات کی ’سافٹ پاور‘ نے زبردست اہمیت حاصل کر چکی ہے اور جہاں اثر و رسوخ کا تعلق بین الاقوامی سطح پر ساکھ برقرار رکھنے سے ہے، وہاں پر 21ویں صدی میں امریکی خود سوزی کے کچھ بدترین مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔

سنہ 2000 میں فلوریڈا میں انتخابی بکھیڑا کھڑا ہوا جب ہم انتخاب کے اگلے دن اٹھے تو دیکھا کہ پولنگ سٹیشن پولیس کی پیلی پٹیاں لگا کر بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ جمہوریت کے لیے کس قدر افسوسناک منظر تھا۔

ایک موقع پر تو جب ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مرحلہ مزید مضحکہ خیز بنتا جا رہا تھا تو زمبابوے کے ڈکٹیٹر رابرٹ موگابے نے بھی انتخابی مبصرین بھیجنے کی پیشکش کر دی تھی۔ جب قدامت پرست خیالات کی حامی سپریم کورٹ نے جارج بش کی حمایت میں فیصلہ دیا تو یہ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے دکان کا شیشہ توڑ کر الیکشن چوری کر لیا ہو۔

اس کے بعد بش انتظامیہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی تباہ کن تصاویر: گوانتانامو کے واچ ٹاور، ابو غریب کے خوفناک حلات، اور ’مشن مکمل‘ کا وہ بینر جو اس موقعے کے لیے بنایا گیا تھا جب جارج بش نے ٹی وی پر آ کر ایک ایسی ادھوری جنگ میں وقت سے پہلے ہی کامیابی کا اعلان کر دیا تھا جس میں خاصے امریکی خون اور پیسے کا زیاں ہوا تھا۔

مستقبل کے مؤرخین گذشتہ رات ٹی وی پر نشر ہونے والے اس بھیانک پروگرام کو قومی شرمساری کی گیلری میں ایک اور تصویر کے طور پر دیکھیں گے۔

کئی غیر ملکی ناظرین بھی اس تجزیاتی عدسے سے واقف ہیں جس سے اس بحث کو دیکھنا چاہیے، یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے انھیں واشنگٹن پہنچایا ہی ان کے غیر روایتی انداز کی وجہ سے اور یہ کہ ان کے حامیوں کے نزدیک صدر کے جارحانہ انداز پر تنقید اصل میں اشرافیہ کی جانب سے ان کی توہین ہے۔

ان کی اس تباہ کُن توانائی کے مداح یہی سیاسی ریسلنگ دیکھنا چاہتے تھے جس میں جو بائیڈن کی دھنائی کی جائے۔ یہ اب اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے۔

مگر سفید فام نسل پرستوں کی واضح لفظوں میں مذمت نہ کرنے اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ ’دی پراؤڈ بوائز‘ کو یہ مشورہ کہ ’پیچھے ہٹ جاؤ اور کھڑے رہو‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی حیران کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سنہ 1960 میں اولین ٹی وی مباحثوں کے بعد 16 سال کا وقفہ آیا جس کے بعد یہ مباحثے دوبارہ شروع ہوئے۔

اس کے بعد صدر جیرالڈ فورڈ اور جمی کارٹر کے درمیان پہلی بحث تکنیکی مسائل کی نذر ہو گئی جس میں 27 منٹ کی آڈیو سُنی نہ جا سکی۔ کاش یہ کل رات کے مباحثے میں ہوا ہوتا۔

https://www.youtube.com/watch?v=l-tdI7XgnEI&feature=youtu.be

اب ان مباحثوں کے فارمیٹ اور یہاں تک کہ مستقبل پر بھی کڑے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور کمیشن برائے صدارتی مباحثے نے اعلان کیا ہے کہ ‘باقی ماندہ مباحثوں کے فارمیٹ میں منظم گفتگو یقینی بنانے کے لیے اضافی سٹرکچر متعارف کروایا جانا چاہیے۔’

گذشتہ کئی سالوں میں صدارتی مباحثے اتنی ہی تفریح بھی فراہم کرتے ہیں جتنی کہ معلومات۔ بطور صحافی ہم مباحثے سے پہلے انھیں ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ مقابلوں کی طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ختم ہونے کے بعد انھیں ٹی وی نقادوں کی طرح سکور دیتے ہیں۔

اور ان کی جھلکیاں لامحالہ طور پر تکرار اور طنز کا ملغوبہ ہوتی ہیں۔ جلے کٹے جملے، ‘ناک آؤٹ کر دینے والے مکے’، ریسلینگ میں ہی استعمال ہونے والے الفاظ یہاں پر استعمال ہوتے ہیں۔

جب سے رونلڈ ریگن نے ایک سطری جملوں کے اس انداز میں ملکہ حاصل کیا ہے، تب سے مباحثوں میں اسی شخص کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے جو مہارت میں بھلے کم ہو مگر نمایاں زیادہ نظر آئے۔

صدارتی مباحثے اب پہلے سے کہیں زیادہ اس بارے میں ہیں کہ کون ریگن کی طرح ایک سطری جملے، لطیفے اور طنز کے نشتر ہیں جو اگلے کئی دن تک نیوز میں باقاعدگی سے چلائے جاتے ہیں۔

مہارت سے زیادہ اہمیت اب کرشماتی شخصیت کی ہے۔ جو چیز کسی ملازمت کے انٹرویو کی طرح ہونی چاہیے، وہ اب مرکزی کردار کے لیے آڈیشن میں بدل چکی ہے۔

کرشماتی شخصیت کے اس جال میں کئی اہل امیدوار پھنس کر ناکام ہو چکے ہیں جن میں والٹر مونڈیل، باب ڈول، مِٹ رومنی، ہلری کلنٹن، مائیک ڈوکاکیس اور ایلگور شامل ہیں۔

یہ تمام افراد اداکار کے بجائے کامیاب منتظم تھے۔

امریکہ

رونالڈ ریگن فطرتی طور پر ٹی وی کے لیے بنے تھے

نہ ہی یہ اتفاق ہے کہ گذشتہ 40 سال کی تاریخ میں صرف ایک مدت کے لیے صدر بننے والے جارج بش سینیئر ٹی وی کے حوالے سے مہارت نہیں رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ بل کلنٹن اور روس پیروٹ کے ساتھ ٹی وی پر نشر ہونے والے مباحثے کے درمیان جب انھوں نے بے چینی سے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

سنہ 1992 کا وہ مباحثہ جو پہلی مرتبہ ٹاؤن ہال کے فارمیٹ میں ہوا تھا، اس میں یہ دیکھا جا سکت تھا کہ ٹی وی پر اچھے نظر آنے والے نوجوان گورنر بل کلنٹن عوام تک پہنچنے کے اس ذریعے میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔

پریشان ہوئے بغیر عوامی سوالت کے جواب دے کر انھوں نے سٹیج پر ایلویس پریسلے جیسی مہارت اور ڈاکٹر فل جیسی ہمدردی کا حامل بنا کر پیش کیا۔ اوپراہ ونفرے کے دور میں اُن تمام چیزوں نے ان کی مدد کی جو مباحثے میں عوام کو نظر آنی چاہییں۔ ریگن کی طرح وہ ایسے صدر بنے جو جانتا ہے کہ اس کے کردار کو کب کس چیز کا مظاہرہ کرنا ہے۔

چنانچہ انتخابی مرحلے کو ڈرامائی شکل دینے کے ساتھ ساتھ ٹی وی مباحثوں نے ایک طرح سے اس سب سے عقلیت بھی نکال دی ہے۔ اور گذشتہ رات تو یہ اپنی نچلی ترین سطح پر جا پہنچا۔

اور جو رٹا رٹایا جملہ جو اس کے بعد بار بار دہرایا گیا، وہ ایک طرح سے صحیح بھی ہے، کہ شکست امریکہ کی ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp