ٹوئٹر کے ذریعے اپنا حدف تلاش کر کے قتل والے جاپانی سیریل کلر ٹاکاہیرو شیرائیشی کا ’اعترافِ جرم‘


Takahiro Shiraishi

’ٹوئٹر سیریل کلر‘ ٹاکاہیرو شیرائیشی پولیس حراست میں (2017 کی تصویر)

جاپان کے ایک شہری نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے نو ایسے افراد کو قتل کیا جنھیں وہ سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے ملا تھا۔

سنہ 2017 میں ’ٹوئٹر کلر‘ کے نام سے مشہور سیریئل کلر ٹاکاہیرو شیرائیشی کو پولیس نے اس وقت پکڑا تھا جب ان کے فلیٹ سے انسانی اعضا برآمد ہوئے۔

انھوں نے بدھ کو ملک کے دارالحکومت ٹوکیو کی ایک عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ ان پر لگائے گئے ’تمام الزامات درست‘ ہیں۔

تاہم ان کے وکلا کے مطابق چونکہ شیرائیشی کا نشانہ بننے والے افراد نے مرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی اس لیے ان کی سزا میں کمی ہو سکتی ہے۔

اگر انھیں قتل کا مرتکب پایا گیا تو انھیں سزائے موت ہو سکتی ہے اور جاپان میں موت کی سزا پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔

اس مقدمے پر پورے جاپان کی توجہ مرکوز رہی اور سرکاری ٹی وی چینل این ایچ کے کی خبر کے مطابق بدھ کے روز عدالت میں سماعت کی کارروائی دیکھنے کے لیے صرف 13 عوامی نشستیں دستیاب تھیں تاہم ان 13 نسشتوں کے لیے600 سے زیادہ افراد مقدمے کی کارروائی دیکھنے کے لیے عدالت پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟

سیموئل لٹل امریکہ کے ’سب سے بڑے‘ سیریل قاتل قرار

دروازے پر دستک نے سیریل کِلر سے بچا لیا

استغاثہ کے مطابق ملزم نے مارچ 2017 میں اس نیّت سے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنایا کہ وہ ایسی خواتین سے رابطہ قائم کرے گا جو خودکشی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ اس کے خیال میں یہ آسان حدف ثابت ہو سکتی تھیں۔

شیرائیشی نے نو قتل کیے جن میں سے آٹھ خواتین تھیں۔ ان میں سے ایک کی عمر صرف 15 برس تھیں۔ ان کے ہاتھوں قتل ہونے والا واحد 10 سالہ مرد اُس وقت مارا گیا جب وہ اپنی گمشدہ گرل فرینڈ کی تلاش میں ان سے بھڑ گیا۔

کیس کی تحقیقات کرنے والوں کے خیال میں 29 سالہ شیرائیشی اپنے حدف کو یہ کہہ کر راضی کرتا کہ وہ مرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ کچھ موقعوں پر اس نے یہ دعویٰ بھی کیا وہ انھیں مار کر اپنی جان بھی لے لے گا۔

شیرائیشی کی ٹوئٹر پروفائل میں لکھا تھا: ’میں ایسے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں جو صدمے میں مبتلا میں۔ مجھے کسی بھی وقت پیغام بھیجیں۔‘

پولیس کو اس سیریل کلر کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب وہ ایک خاتون کی گمشدگی کی تفتیش کے دوران ٹوکیو کے قریب واقع شہر زاما میں شیرائیشی کے فلیٹ پر پہنچے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خاتون بھی شیرائیشی کا نشانہ بن چکی تھیں۔

پولیس کو فلیٹ سے انسانی اعضا ملے جن میں کٹے ہوئے سر، بازو اور ٹانگ کی ہڈیاں شامل تھیں۔

Members of the media gather in front of an apartment building where media reported nine bodies were found in Zama, Kanagawa Prefecture, Japan in this photo taken by Kyodo on October 31, 2017

اکتوبر 2017: شیرائیشی کے گھر کے باہر میڈیا کے نمائندوں کا ہجوم

تاہم شیرائیشی کے وکلا کا موقف ہے کہ تمام قتل کیے جانے والے افراد نے مرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس وجہ سے ان کا خیال ہے کہ شیرائیشی پر ’قتل‘ نہیں بلکہ ’رضامندی سے قتل‘ کی دفعات لگیں گی، جن کی سزا چھ ماہ سے سات سال قید ہو سکتی ہے۔

تاہم جاپانی میڈیا کے مطابق ملزم کے اپنے وکلا کے ساتھ اس معاملے میں اختلافات ہیں۔ ایک مقامی اخبار میں بدھ کو شائع ہونے والے انٹرویو میں شیرائیشی نے کہا کہ کسی نے انھیں قتل کی اجازت نہیں دی تھی۔

’مارے جانے والوں کے سروں کے پیچھے زخم کے نشان تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی رضامندی نہیں تھی اور میں نے (ان کے سر اس لیے پکڑے) تاکہ وہ مزاحمت نہ کر پائیں۔‘

قتل کے ان واقعات نے جاپانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب 2017 میں پہلی بار اس سیریل کلر کے بارے میں رپورٹس منظر عام پر آئیں تو ایسی ویب سائٹس کے حوالے سے بھی بحث شروع ہو گئی جن پر لوگ اپنی جان لینے یا اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی بات کرتے ہیں۔ اس وقت حکومت نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے قوانین سخت کرے گی۔

اس کیس کی وجہ سے ٹوئٹر کو بھی اپنے قوائد میں تبدیلی لانی پڑی تھی جس کے تحت سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ’خودکشی یا اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔‘

جاپان ترقی پزیر ممالک میں خودکشی کے واقعات کے لحاظ سے ہمیشہ سرفہرست رہا ہے تاہم ایک دہائی قبل متعارف کروائے گئے قوانین کی وجہ سے اس کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp